مولانا مفتی رب نواز
لغت میں “اجماع” متفق ہونے کو کہتے ہیں، لغوی معنی کے اعتبار سے اتفاق اور اجتماع ایک ہی چیز ہے مگر اصطلاحِ شریعت میں ایک خاص قسم کے اتفاق کو “اجماع” کہا جاتا ہے جس کی تعریف یہ ہے کہ: نبی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانے کے تمام فقہاء مجتہدین کا کسی حکم شرعی پر متفق ہو جانا “اجماع” ہے۔ (الأحکام فی أصول الأحكام للأمدى: اراهاط : مصر)
یہ اجماع فقہ کا تیسرا ماخذ اور احکامِ شرعیہ کے چار دلائل میں سے ایک ہے۔ (نوادر الفقہ (۷۳)
قرآن سے حجیتِ اجماع کا ثبوت:
اجماع کا حجت ہونا جن دلائل سے ثابت ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1) و كذلك جعلتكم أمة وسط لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهیدا. [بقرہ: ۲۴۳]
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تم کو ایسی امت بنایا ہے جو نہایت اعتدال پر ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور تمہارے (قابل شہادت اور معتبر ہونے) کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گواہ ہیں۔ حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
قرطبی نے فرمایا کہ یہ آیت اجماع امت کے حجت ہونے پر ایک دلیل ہے کیونکہ جب امت کو اللہ تعالی نے شہداء قرار دے کر دوسری امتوں کے بالمقابل ان کی بات کو حجت بنا دیا تو ثابت ہوا کہ اس امت کا اجماع حجت ہے اور عمل اس پر واجب ہے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اس امت کے جو افعال و اعمال متفق علیہ ہیں وہ سب محمود و مقبول ہیں کیونکہ اگر سب کا اتفاق کسی خطا پر تسلیم کیا جائے تو پھر یہ کہنے کے کوئی معنی نہیں رہتے کہ یہ امت وسط اور عدل ہے۔
اور امام بصاص نے فرمایا کہ: اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر زمانے میں مسلمانوں کا اجماع معتبر ہے۔ اجماع کا حجت ہونا صرف قرنِ اوّل یا کسی خاص زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیونکہ آیت میں پوری امت کو خطاب ہے اور امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف دو نہیں تھیں جو اس زمانے میں تھے بلکہ قیامت تک آنے والی نسلیں جو مسلمان ہیں وہ سب آپ کی امت ہیں تو ہر زمانے کے مسلمان شہداء اللہ ہو گئے جن کا قول حجت ہے وہ سب کسی خطا اور غلطی پر متفق نہیں ہو سکتے۔” [معارف: ۳۷۲/۱]
حضرت مولانا مفتی رفیع عثمانی صاحب دام ظلہ مذکورہ بالا آیت کے تحت لکھتے ہیں:
معلوم ہوا کہ اس امت کے جو اقوال و اعمال متفقہ طور پر ہوں وہ سب اللہ تعالی کے نزدیک درست اور حق ہیں کیونکہ اگر سب کا اتفاق کسی غلط بات پر تسلیم کیا جائے تو اس ارشاد کے کوئی معنی نہیں رہتے کہ یہ امت نہایت اعتدال پر ہے نیز اس آیت میں اللہ تعالی نے اس امت کو گواہ قرار دے کر دوسرے لوگوں پر اس کی بات کو حجت قرار دیا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوا کہ اس امت کا اجماع حجت ہے۔ (لوامع الفقہ (۷۲)