مولانا مفتی رب نواز
اعتراض: جاوید احمد غامدی صاحب مذکورہ حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:
“یہ ایک کمزور روایت ہے اور اس بناء پر حدیث کی امہاتِ کتب یعنی بخاری، مسلم اور موطا میں سے کسی میں بھی جگہ نہیں پاسکی۔” (اشراق: اکتوبر ۲۰۱۱، ص: ۴)
جواب:
(۱) اس حدیث کی بعض اسناد میں اگرچہ ضعیف ہیں، مگر بعض اسناد صحیح بھی ہیں۔ جواب: غامدی صاحب نے نہ جانے کسی سند کو مدار بنا کر اسے ضعیف کہا ہے؟ انہوں نے اس حدیث کو لکھ کر اس پر ضعف کی چھاپ لگا دی ہے، مگر اس کا کوئی ماخذ نہیں بتایا۔ جب اس حدیث کے بعض طرق صحیح بھی ہیں تو انہی کے پیشِ نظر اسے صحیح ہی تسلیم کیا جائے گا۔
(۲) اس حدیث کے متعدد طرق ہیں، سات سندوں میں تو امام حاکم رحمہ اللہ نے ذکر کی ہیں۔ اگر بالفرض تمام طرقِ سند کو ضعیف مان لیں تو بھی مضائقہ نہیں، کیونکہ خود غامدی صاحب کو اعتراف ہے کہ بہت سی ضعیف سندوں والی حدیث تعددِ طرق سے ضعف سے نکل جاتی ہے۔ چنانچہ غامدی صاحب ایک ضعیف حدیث (حدیثِ رکانہ در مسئلۂ طلاق ثلاثہ) درج کر کے لکھتے ہیں: یہ روایات سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں لیکن ان کو جمع کیا جائے تو ضعف کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ (میزان: ۳۵۱)
(۳) حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دام ظلہ حجیتِ اجماع پر دس حدیثیں بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
“ان میں سے ہر حدیث الگ الگ اگرچہ متواتر نہ ہو مگر ان سب احادیث کا مشترکہ مضمون جو اجماع کی حجیت کو ثابت کرتا ہے متواتر ہے۔” لہٰذا تواتر سے اجماع کا حجت ہونا اور فقہ کے لیے عظیم ماخذ ہونا قرآن و سنت کی روشنی میں روز روشن کی طرح واضح ہے۔ (نو اور اللہ: ۱۰۱/۱) اس کے ساتھ یہ بھی معلوم رہے کہ تواتر اسنادی ضعف سے بے نیاز ہوا کرتا ہے۔
(۴) اجماع کی حجیت کا انکار غیر مقلد طبقہ میں پایا جاتا ہے، مگر اس طبقہ کے متعدد علماء نے زیرِ بحث حدیث کو قابلِ استدلال تسلیم کیا ہے، مثلا: زبیر علی زئی نے مستدرک کی مذکورہ حدیث کو سندِ صحیح کہا ہے۔ (علمی مقالات: ۲۷۷/۵)
اسی طرح علامہ البانی نے المعجم الکبیر للطبرانی میں مذکور اس حدیث کو صحیح کہا ہے: “هذا إسناد صحیح، رجاله ثقات.” (السنة لابن أبی عاصم بتحقیق الألبانی: ۸۰/۱)
غیر مقلدین کے یہ دونوں لکھاری حدیث کی صحت میں متشدّد ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے جِتّے اجماع کی اس حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ اور بھی بہت سے علمائے غیر مقلدین سے اس حدیث کا قابلِ استدلال ہونا ثابت ہے۔ ان میں صلاح الدین یوسف صاحب بھی ہیں۔ (تفسیری حواشی: صفحہ ۲۵۶) غامدی صاحب کا کہنا کہ یہ حدیث صحیح نہ ہونے کی وجہ سے بخاری، مسلم یا موطا میں جگہ نہیں پاسکی۔۔۔ درست نہیں، کیونکہ کسی حدیث کی صحت کے لیے اس کا بخاری و مسلم و موطا میں ہونا ضروری نہیں۔ حدیث کی صحت کے اپنے اصول ہیں جب حدیث ان اصولوں پر پوری اترے تو وہ صحیح سمجھی جاتی ہے اگرچہ وہ بخاری، مسلم یا موطا میں نہ ہو۔
ہم غامدی صاحب کی کتابوں میں جگہ جگہ دیکھتے ہیں کہ وہ ان حدیثوں سے بھی استدلال کرتے ہیں جو بخاری، مسلم اور موطا کی بجائے دیگر کتبِ حدیث میں پائی جاتی ہیں؛ بلکہ جو انہوں نے حدیثِ شورا کہا ہے اس کے لیے بھی ابوداؤد، ابن ماجہ اور دیگر کا حوالہ دیا ہے۔ ان کے اپنے طرزِ عمل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے قابلِ استدلال ہونے کے لیے اس کا بخاری، مسلم اور موطا میں ہونا ضروری نہیں۔ ورنہ غامدی صاحب آئندہ ایڈیشنوں میں دیگر کتب کی حدیثیں اپنی کتابوں سے حذف کر دیں۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ غامدی کتب میں باقی بچتا کیا ہے؟
یہاں ایک اور بات بھی عرض کی جاتی ہے: غامدی صاحب زیرِ بحث حدیث (امت گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی) کے بارے میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے، پر بخاری، مسلم اور موطا میں نہیں آسکی۔ اس سے شاید کسی کی ذہن میں آئے کہ اگر یہ حدیث مذکورہ تین کتابوں میں سے کسی میں ہوتی تو غامدی صاحب اسے مان لیتے۔ ایسا بالکل نہیں؛ یہ حضرات نے حدیث کے رد و قبول میں اپنے خود ساختہ اصول بنا رکھے ہیں، جو حدیث ان کے اصول پر پوری نہ اترے وہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اگرچہ وہ حدیث بخاری، مسلم یا موطا میں کیوں نہ ہو۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ غامدی صاحب نے بخاری، مسلم اور موطا کی کئی حدیثوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ماثلِ دیگر: سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں آنے کی پیشگوئی والی حدیثیں بخاری و مسلم کی ہیں مگر غامدی صاحب ان حدیثوں کو قبول نہیں کرتے۔ (میزان: ۱۷۸)
شادی شدہ زانی کی حد رجم یعنی سنگساری ہے اور یہ بخاری و مسلم کی حدیثوں سے ثابت ہے؛ خود غامدی صاحب نے لکھا: یہودی اور یہودیہ کے رجم کا واقعہ بخاری و مسلم اور حدیث کی بعض دوسری کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ (برہان: ۷۳) مگر اس کے باوجود غامدی صاحب شادی شدہ زانی/زانیہ کے لیے رجم کی سزا کے قائل نہیں؛ اس پر انہوں نے مفصل مضمون لکھا جو ان کی کتاب “برہان” میں شامل ہے۔
قرآن کی سات قراءتوں کے حوالہ سے جو حدیث پیش کی جاتی ہے کہ قرآن سات احرف پر نازل ہوا — یہ حدیث متعدد کتبِ حدیث میں بھی ہے، جیسا کہ موطا امام مالک میں۔ (میزان: ص: ۳۰) مگر اس کے باوجود غامدی صاحب قرآن کی سات قراءتوں کے منکر ہیں۔ اسی طرح وہ مَوْعظَہ (حدیث) کے بعض مسائل میں بھی اختلاف رکھتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ جب غامدی صاحب نہ ماننے پر آتے ہیں تو نہ صرف بخاری، مسلم اور موطا کی حدیثیں نہیں مانتے بلکہ اُن کے لوگوں پر نفاق اور وضع کا الزام لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
یہاں یہ بھی پڑھا جائے کہ غامدی صاحب کے صحیح و تضعیف کے اصول خود ساختہ ہیں؛ وہ محدثین کے اصولوں کو نظر انداز کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ مثلاً: ایک جگہ لکھتے ہیں: نزولِ مسیح کی روایتوں کو اگرچہ محمد ثانِی نے بالعموم قبول کیا ہے لیکن قرآن مجید کی روشنی میں دیکھا جائے تو وہ بھی محلِ نظر ہیں۔ (میزان: ۱۷۸)
یہاں غامدی صاحب نے محدثین کی تسلیم شدہ حدیثوں کو اپنے اصول کی بناء پر رد کر دیا ہے، حالانکہ ان میں سے کوئی حدیث بھی قرآن کے خلاف نہیں۔ (تفصیل اسی موضوع سے متعلقہ مضامین میں ملے گی۔)
اعتراض: جاوید احمد غامدی صاحب زیرِ بحث حدیثِ حجیتِ اجماع کے حوالہ سے جمہور کے استدلال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
“حقیقت یہ ہے کہ خطا اور ضلالت میں زمین و آسمان کا فرق ہے؛ اس کا تعلق ضلالت سے ہے، خطا سے نہیں ہے۔ پوری امت کسی ضلالت پر جمع ہو جائے، یہ ناممکن ہے۔ اس کے برخلاف جو چیزیں محلِ تدبر یا محلِ اجتہاد ہیں ان کے سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے اور امت کے سب لوگ اس غلطی پر جمع بھی ہو سکتے ہیں۔” [اشراق: اکتوبر ۲۰۱۱، ص: ۵/۴]
جواب: (1) غامدی صاحب کہتے ہیں کہ خطا اور ضلالت میں فرق ہے۔ عرض ہے کہ جن علمائے امت اور فقہاء کرام نے اس حدیث سے حجیتِ اجماع پر دلیل لی ہے وہ خطا اور ضلالت کے فرق کو سمجھتے تھے، اس کے باوجود انہوں نے اس حدیث کو حجیتِ اجماع کی دلیل بنایا ہے۔
(۲) غامدی صاحب کو اعتراف ہے کہ ضلالت کا معنی صرف گمراہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی معنی ہیں؛ چنانچہ انہوں نے “وَجَدْنَاكَ ضَالًّا” آیت سے متعلق ایک بحث میں درج ذیل شعر پیش کیا ہے:
“وَلَقَدْ ضَلَلْتَ أَبَاكَ تَطْلُبُ دَارًا کَضَلَالٍ مَلْتَمِسِ طَرِیقٍ وَبَارِ”
ضلالت کا ایک معنی غلطی اور خطا بھی ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد سیدنا یعقوب علیہ السلام کے متعلق کہا تھا: “إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ” — یہاں آیت میں لفظِ “ضلال” غلطی کے معنی میں ہے کہ ہمارے ابو سیدنا یوسف علیہ السلام سے زیادہ محبت کرنے میں واضح غلطی پر ہیں۔
اسی طرح قصۂ یوسف میں “إِنَّكَ لَفِي ضَلَالِكَ الْقَدِيمِ” میں بھی “ضلال” غلطی کے معنی میں ہے کہ آپ اس پرانی غلطی پر ہیں۔ مزید دیکھیے معارف القرآن، مفتیِ اعظم بتغیر (تفسیر سورۃ یوسف)۔
اتنا بتا دینے کے بعد ہم عرض کرتے ہیں حدیثِ نبوی “امّتِ میری ضلالت پر جمع نہیں ہو سکتی” میں “ضلالت” کا لفظ گمراہی اور غلطی دونوں کو شامل کرتا ہے۔ لہٰذا ساری امت گمراہ نہیں ہو سکتی اور امت کا مجموعہ خطا و غلطی پر بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ غامدی صاحب اگر گمراہی پر جمع نہ ہونے کی تخصیص کرتے ہیں تو اس کی دلیل پیش کریں۔
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ امت کا مجموعہ خطا اور غلطی پر جمع ہو سکتا ہے تو ہم انہیں گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنے علاوہ علمائے متقدمین میں سے دو یا چار حوالے پیش کر دیں جنہوں نے یہ کہا ہو کہ فلاں مسئلہ میں پوری امت کا اجماع ہے مگر ساری امت خطا اور غلطی پر جمع ہوئی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آخر غامدی صاحب کو مذکورہ بالا نظریہ گھڑنے اور اپنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ غامدی صاحب بہت سے اجماعی مسائل کے خلاف اپنی الگ راہ اختیار کر چکے ہیں، اس لیے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ پوری امت ان مسائل میں غلطی اور خطا پر جمع ہے اور غامدی صاحب ہی راہِ راستی پر ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ ایک طرف پوری امت جس میں صلحاء، فقہاء، محدثین، مورخین، محققین وغیرہ شامل ہیں اور دوسری طرف غامدی صاحب یا چند دانشور — تو یہ فیصلہ کون کرے گا کہ ساری امت غلطی پر ڈٹی ہوئی ہے اور غامدی صاحب ہی صرف حق کو تھامے ہوئے ہیں؟
کیا یہ بہتر نہیں کہ ساری امت کو غلط کہا جائے بجائے اس کے کہ صرف غامدی صاحب کو غلطی کا شکار کہا جائے؟ جب ان کے زعم میں پوری امت خطا پر قائم رہ سکتی ہے تو تنہا غامدی یا چند افراد کیوں غلطی میں نہ ہو سکتے؟ یہاں ایک بات یہ بھی سمجھنے کی ہے کہ ہو سکتا ہے غامدی صاحب یا ان کے ہم فکر کہنے لگیں کہ امت سے الگ ہو کر رائے قائم کرنے والے کے پاس قرآن و حدیث کی دلیل موجود ہو تو تقابل اب اس کا اور امت کا نہیں ہوگا بلکہ یوں دیکھا جائے گا کہ ایک طرف قرآن و حدیث ہے اور دوسری طرف امت۔
اِس معاملے میں اگر منقولی دلائلِ متین موجود ہوں تو؛ پھر امت کو تقابل میں لانا ممکن ہے مگر عام طور پر قرآن و حدیث کے خلاف اجماع ممکن نہیں ہوتا، اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ تقابلِ شاذ رائے والے (مثلاً غامدی صاحب) کا اور امت کے دلائل میں مقابلہ ہوتا ہے؛ اب اگر منقولی دلائلِ محکم اجتماع کو نہ دیکھا جائے تو بھی عقلِ سلیم کا تقاضا یہی ہے کہ امت کے مقابلے میں فردِ واحد کو غلطی میں مبتلا سمجھا جائے، بالخصوص جب کہ غامدی صاحب خود بھی اجماع کی بلا شبہ اہمیت کو اعتراف کرتے ہیں۔ [اشراق: اکتوبر ۲۰۱۱، ص: ۳]
بلکہ بہت سے مسائل ایسے ہیں جو اجماعی بھی ہیں اور احادیث بھی انہی کی تائید کرتی ہیں، مثلاً: سیدنا مسیح موعود علیہ السلام کی دوبارہ دنیا میں آمد کے بارے میں جو بعض جماع میں اختلاف ہے، وغیرہ — یہاں غامدی صاحب نے اجماعِ امت سے روگردانی کے ساتھ احادیث سے بھی اعراض کیا ہے جبکہ انہیں یہ تسلیم بھی ہے کہ نزولِ مسیح کی احادیث بعض محققین کے ہاں قابلِ قبول ہیں۔
ری صاحب کے مزید دو اعتراضات کا جائزہ:
جمہورِ علمائے امت اجماع کو حجتِ شرعی تسلیم کرتے ہیں۔ حجیتِ اجماع پر جو دلائل دیے جاتے ہیں اُن میں سے بیشتر ہم نے ذکر کر دیے ہیں اور جو اعتراضات تھے ان کے جوابات بھی عرض کر دیے گئے ہیں۔ اب کچھ مزید اعتراضات کو بھی ہم سامنے لاتے ہیں تا کہ قارئین ان کی حقیقت جان سکیں۔
ان اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ:
جناب جاوید احمد غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد صحابہ و تابعین نے بھی یہ روایت قائم رکھی لیکن جب فقہاء کا دور شروع ہوا تو اس کے ساتھ ایک چوتھی چیز کا اضافہ کر دیا گیا۔ یہ مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اس کے بعد سے اب تک با تموم مانا جاتا رہا کہ اسلامی شریعت کا ایک مصدر یہ اجتماع بھی ہے۔” (اشراق: اکتوبر ۲۰۱، ص: ۱۲)
اعتراض کا حاصل یہ ہے کہ اجماع کو فقہائے کرام تو حجت سمجھتے ہیں، مگر صحابہ و تابعین اسے حجت نہ مانتے تھے۔
جواب: قاضی شریح تابعی کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے خط بھیجا جس میں یہ بھی ہے کہ: “اگر کتابِ اللہ اور رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بھی (مسئلہ کامل) نہ ہے تو دیکھنا کہ کسی بات پر لوگوں کا اجماع ہے پھر اسے لے لینا۔” (مصنف ابن ابی شیبہ: ۲۳۰/۷ بحوالہ علمی مقالات: ۸۲/۵) سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِندَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَا رَأَى سَيِّئًا فَهُوَ عِندَ اللَّهِ سَيِّءٌ.” — جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھی ہے اور جسے وہ برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے۔ [مسند احمد: ۳۷۹/۱ ۔ واللفظ لہ موطا امام محمد: کتابِ الصلاة، باب قیامِ شہر رمضان]
صحابہ کرام کے مذکورہ بالا ارشادات سے معلوم ہوا کہ وہ اجماع کو حجت سمجھتے تھے۔ تابعین کے ہاں اجماع کی اہمیت مسلم ہے؛ مشہور تابعی سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا:
“لِیَقْضَ كُلُّ قَوْمٍ بِمَا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ فُقَهَاؤُهُمْ” — ہر قوم کو اس پر فیصلہ کرنا چاہیے جس پر ان کے فقہاء کا اجماع ہو۔ [سننِ دارمی، حدیث: ۶۵۲]
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ فقہائے کرام اجماع کو حجت مانتے ہیں … ہم کہتے ہیں کہ فقہاء احادیث کے مفاہیم کو دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں؛ لہٰذا فقہائے امت کی بات غامدی صاحب جیسے لوگوں پر ترجیح کی حیثیت رکھتی ہے۔
اعتراض: جاوید احمد غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“دین کے ماخذ میں یہ اضافہ یقینا بدعت ہے۔ قرآن و سنت کے نصوص میں اس کے لیے کوئی بنیاد تلاش نہیں کی جاسکتی۔” (اشراق: اکتوبر ۲۰۱، ص: ۱۲)
جواب: غامدی صاحب کہتے ہیں اجماع کی حجیت قرآن و سنت سے ثابت نہیں، جبکہ فقہائے امت قرآن و سنت سے اس کا حجت ہونا مانتے ہیں؛ فقہاء چونکہ نصوص کے معانی کو زیادہ جانتے ہیں اس لیے بات انہی کی معتبر ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ غامدی صاحب کے ہاں “بدعت” کا کیا مفہوم ہے؟ انہوں نے کس بنیاد پر حجیتِ اجماع کے نظریے کو بدعت قرار دیا۔ ہمارے نزدیک اسے بدعت کہنا بہت بڑی جرات ہے۔
یہ بھی معلوم رہے کہ قرآن و سنت سے ماخوذ فقہاء و مجتہدین کی آراء کو بدعت نہیں کہا جاتا۔ اگر غامدی صاحب اسے بدعت قرار دینے میں حق بجانب ہیں تو وہ مستند علمائے امت میں سے دو چار کے حوالے پیش کر دیں جنہوں نے حجیتِ اجماع کے نظریے کو “بدعت” کہا ہو۔ غامدی صاحب جب فقہائے امت کے مقابلے میں اپنی الگ راہ اختیار کر چکے ہیں تو وہ اپنے اصولوں کے مطابق بدعت کا جامع و مانع مفہوم قرآن و سنت سے بیان کر کے حجیتِ اجماع کا بدعت ہونا ثابت کریں۔