دس نکات: غامدی صاحب کے تصورِ سنت پر تنقید خور و نوش کے تناظر میں

Published On October 27, 2025
غامدی صاحب اور امام شافعی

غامدی صاحب اور امام شافعی

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

قرآن قطعی الدلالۃ کا معنی

قرآن قطعی الدلالۃ کا معنی

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 5

احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 5

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 5

احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 4

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 5

احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 3

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 5

احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 2

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

جہانگیر حنیف

خور و نوش کے تناظر میں غامدی صاحب کے تصورِ سنت پر ہماری طرف سے متعدد تحاریر سامنے آ چکی ہیں۔ اِن تحاریر میں پیش کیے جانے والے نقد کو ہم نے دس نکات میں جمع کردیا ہے۔ یہ دس نکات واضح کرتے ہیں کہ:

الف۔ غامدی تصورِ سنت غیر واضح اور بہت صحیح معنوں میں ایک مہمل تصور ہے۔

ب۔ غامدی تصورِ سنت تصور کی سطح پر باہم متناقض دعاوی اور عمل کی سطح پر مخدوش نظائر کا حامل ہے۔

ج۔ میزان میں خور و نوش کا باب قرآن مجید کے احکام پر مشتمل ہے، جسے غامدی صاحب نے اصول الدین اور فقہ الدین کے تمام مقتضیات کو نظر انداز کرتے ہوئے، سنت سے منسوب کردیا ہے۔

چ۔ احکامِ الٰہی کی شریعت اور فطرت میں تقسیم کا غامدی فارمولہ اصل میں دینی احکام کے انکار کا مُوجِب ہے۔ اِس سے ہماری مراد سورہ انعام کی آیت ١٤٥ کے احکام کو شریعت قرار دینا اور سورہ مائدہ آیت ٩٠ میں وارد حکم کو بیانِ فطرت قرار دینا ہے۔

ح۔ قرآن مجید کی آیات (سورہ انعام آیت ١٤٥ اور سورہ مائدہ آیت ٩٠) کا غلط فہم احادیث سے ملنے والے دین کے انکار کا سبب ہے۔

آئیں، ہم اِن دس نکات پر ایک ایک کرکے نظر ڈالتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

١. بدعات کا تدارک اور افتراء و کذب پر مبنی حرمتوں کی نفی

ہمارا پہلا نکتہ غامدی صاحب کے اس دعویٰ سے متعلق ہے کہ شریعت میں محض چار چیزوں کی حرمت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اپنے موقف کے حق میں غامدی صاحب نے سورہ انعام کی آیت ١٤٥ سے استدلال کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ قرآن مجید نے محض مردار، بہایا ہوا خون، خنزیر کا گوشت اور ذبیح لغیر اللہ کو حرام قرار دیا ہے۔ وہ متعلقہ آیات کے حصریہ اسلوب کو اپنے استدلال کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ حصر سے خور و نوش کے باب میں تمام حرمتوں کی چار تک تحدید لازم نہیں ٹہرتی۔ اِس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ یہ آیت سلبی اسلوب میں حصر کو قائم کرتی ہے۔ یہ حصر مثبت نہیں۔ اِس چیز کو سمجھنا ضروری ہے۔ دوسری یہ کہ حصر کس سے قائم کیا گیا ہے، اِسے بھی سمجھنا ضروری یے، بالخصوص جب سلبی اسلوب میں حصر قائم کیا گیا ہو۔ غامدی صاحب آیت کے سلب کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور محض حصر کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔ یہی اُن کے غلط ہونے کی بنیادی وجہ ہے۔

آیہ مبارکہ کے الفاظ (قُلْ، لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٓٗ اِلَّآ اَنْ) اہم ہیں۔ یہ الفاظ مقتضی ہے کہ کسی چیز کی نفی مطلوب ہو۔ لہذا مدعائے کلام اثباتِ حرمت نہیں۔ بلکہ نفیِ حرمت ہے۔ اُن چیزوں کی حرمت کی نفی جن کو مشرکین نے اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھتے ہوئے اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔ ہم امام شافعی رحمہ اللہ اور مفسرینِ کرام کی تفاسیر سے اِس بات کی وضاحت پیش کر چکے ہیں۔ وہ یہ کہ اس آیہ مبارکہ میں مناقضہ کے اسلوب میں دورِ جہالت کی بدعات کا تدارک کیا گیا ہے۔ آیت کا حصر اِن بدعات کے خلاف قائم ہے۔ حام، سائبہ، وصیلہ اور بحیرہ کی حرمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ نہیں تھی۔ لہذا اِس آیت میں یہ اور اِن جیسی دوسری بدعات کی نفی کی گئی ہے۔

اِس آیہ مبارکہ کے حصر کو مثبت ماننے میں ایک تو اِس آیت کے اپنے الفاظ رکاوٹ ہیں، اور دوسرے قرآن مجید کی دیگر تصریحات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ حصر مثبت نہیں ہو سکتا۔ مزید برآں، رسول اللہ ﷺ کے ارشاداتِ گرامی میں بھی دیگر محرماتِ طعام کو واضح فرمایا گیا ہے۔ اِس آیت میں مردار، بہایا ہوا خون، خنزیر کے گوشت کو رجس قرار دیا گیا ہے۔ سورہ مائدہ میں خمر کو رجس قرار دیا گیا ہے، اِسے عملِ شیطان بتایا گیا یے اور اِس سے اجتناب کا حکم دیا گیا یے۔ مردار، بہایا ہوا خون، خنزیر کا گوشت رجس ہیں اور اِس وجہ سے حرام ہیں۔ شراب بھی رجس ہے اور اِس وجہ سے حرام ہے۔ حالانکہ شراب کا حکم سورہ انعام کی آیت ١٤٥ میں موجود نہیں۔ اگر اس آیت کے حصر کو مثبت مان لیا جائے، تو شراب کی حرمت کو غامدی صاحب کی طرح نظر انداز کرنا ضروری ٹہرتا ہے۔ غامدی صاحب کی غلطی یہ ہے کہ وہ سورہ انعام کی آیت ١٤٥ کو مثبت حصر مانتے ہیں۔ لہذا وہ شراب کی حرمت کو شرعی حکم ماننے کا رستہ خود اپنے اوپر بند کر لیتے ہیں۔ ہمیں اِس انکار کی ضرورت نہیں۔ ہم سورہ انعام کی آیت ١٤٥ کو سلبی حصر تصور کرتے ہیں اور شراب کی حرمت کو رجس کی علت سے جوڑتے ہیں اور خون، مردار اور خنزیر کے گوشت کی مانند شراب کو حرام تصور کرتے ہیں۔ غامدی صاحب ایک غلط تاویل کے نتیجہ میں شریعت کے متعدد احکامات کا انکار کرنے پر مصر ہیں۔ جن میں کچھ احکامات قرآن مجید میں نازل ہوئے ہیں اور دیگر نبی ﷺ کے ارشادات سے امت کو ملے ہیں۔ جب غامدی صاحب مردار، بہایا ہوا خون، خنزیر کا گوشت اور ذبیح لغیر اللہ کو شریعت اور شراب، کچلی والے درندوں اور چنگال والے پرندوں کی حرمت کو بیانِ فطرت قرار دیتے ہیں، تو یہ دوئی اور تقابل خود اِس بات پر دلیل بن جاتا ہے کہ ثانی الذکر غامدی صاحب کے نزدیک شرعی حکم نہیں۔ ہمیں اِس سے شدید اختلاف ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ جس چیز کو بیانِ فطرت قرار دیتے ہیں، ہم آگے دیکھیں گے کہ اُن کی تصریحات کے مطابق وہ دین بھی نہیں۔

٢. احکامِ الہی بیانِ فطرت کیسے؟

دوسرا نکتہ بیانِ شریعت اور بیانِ فطرت کی دو اقسام سے متعلق ہے۔ غامدی صاحب نے خور و نوش سے متعلق احکامات کو دو خانوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی قسم کو وہ شریعت کہتے ہیں۔ دوسری قسم کو وہ بیانِ فطرت قرار دیتے ہیں۔ اِس تقسیم کی کیا توجیہ ہے؟ یہ کوئی منطقی تقسیم ہیں یا شرعی؟ اِس کی کوئی وضاحت غامدی صاحب کے ہاں موجود نہیں۔ میزان میں اصول و مبادی کا باب ایسے کسی بیان سے خالی ہے، جس سے شریعت اور فطرت کا امتیاز واضح ہو سکے۔ غامدی صاحب نے دین سے کیا مراد ہے، اُسے بیان کیا یے۔ وہ دین کو قرآن مجید اور سنتِ متواترہ میں محصور مانتے ہیں۔ اُنھوں نے تجدد پر مبنی سہی، لیکن سنت کی کچھ نہ کچھ تعریف بیان کی ہے۔ سنت کے محتوی کو واضح کیا یے۔ لیکن شریعت سے اُن کی کیا مراد یے، اور یہ فطرت سے کیسے ممتاز ہے، اِس کا کوئی تفصیل اُن کی کتاب میں نہیں ملتی۔ جس حکم کو وہ بیانِ فطرت کہتے ہیں، اِس سے اُن کی مراد تو معلوم نہیں ہوتی، لیکن یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اُس حکم کے شرعی ہونے سے انکاری ہیں۔ لہذا سوال بنتا یے کہ جو حکم قرآن مجید میں نازل ہوا ہے، اگر وہ شریعت نہیں، بلکہ فطرت ہے، تو اِس کے کیا معنی ہیں۔ کیا اِس حکم کی پابندی اُسی طرح لازم ہے، جیسے کسی بھی شرعی حکم کی اتباع لازم ہے۔ اگر اُس کی اتباع شرعی حکم کی مانند لازم ہے، تو یہ تقسیم بے کار کی تقسیم ہے۔ اور اگر اُس حکم کی پابندی شرعی حکم کی مانند لازم نہیں، تو قرآن مجید میں وارد ہونے کے بعد اور اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہو جانے کے بعد، کیا اُس حکم پر عمل نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے زمرے میں شامل نہیں ہوگا۔ اگر اُس پر عمل نہ کرنے پر ہم جوابدہ ہونگے، تو پھر بھی یہ تقسیم بے کار کی تقسیم ہے۔

اگر غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اُنھوں اصول و مبادی کے آغاز ہی میں بتا دیا ہے کہ دین بطور ہدایت کے پہلے فطرت میں ودیعت کیا گیا تھا: ”دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے۔ اُس نے یہ ہدایت پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اُس کے بعد اِس کی تمام تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔“ [اصول و مبادی، میزان، جاوید احمد غامدی] اِس کا جواب یہ ہے کہ آپ کا دعویٰ اصل مسئلہ سے صرفِ نظر کرنا ہے۔ کیوں کہ اصل مسئلہ فطرت میں ہدایت کی عمومی ودیعت نہیں۔ بلکہ اصل مسئلہ خدا کے نازل کردہ حکم کو بیانِ فطرت قرار دینا ہے۔ یہ آپ کے اپنے الفاظ ہیں کہ فطرت میں الہام کے بعد دین کو اُس کی تمام تفصیلات سمیت پیغمبروں کی وساطت سے انسانوں کو دیا گیا ہے۔ اِن تفصیلات کو جب قرآن مجید اور لسانِ پیغمبر ﷺ سے بیان کیا جائے گا، تو پھر اِنھیں فطرت کی طرف پھیرنے کے کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ آپ پر ہمارا سب سے قوی اعتراض ہے۔ غامدی صاحب نے فطرت میں ہدایت کے الہام کو بنیاد کی حیثیت میں پیش کیا۔ ہمیں اس پر اعتراض نہیں۔ اُنھوں نے فرمایا کہ فطرت میں الہام کے بعد دین کو اُس کی تمام تفصیلات سمیت پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دیا گیا ہے۔ ہمیں اِس پر بھی اعتراض نہیں۔ اعتراض یہ ہے کہ پیغمبر ﷺ کی وساطت سے جو دین اپنی تمام تفصیلات سمیت ہمیں ملا ہے، غامدی صاحب کیونکر اُسے فطرت کی طرف لوٹاتے ہیں اور اُس کی حیثیت کو اعلیٰ سے ادنیٰ کی طرف پھیر دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ غامدی صاحب کا دورِ جدید سے ناکام مکالمہ ہے۔ وہ کسی دباؤ کے تحت اپنے ہی الفاظ پر عمل کرنے سے قاصر ہیں اور جو باتیں وہ اصول میں درست بتاتے ہیں، اطلاق میں غلطی کر جاتے ہیں اور اطلاق میں جو چیزیں اُن کے ہاں ٹھیک ہیں، اُن کا اصول کے ساتھ تعلق مخدوش ہے۔

ہم اور آپ فطرت میں جھانک کر کسی مسئلہ میں خدا کی منشاء تلاش کریں اور دوسرا خدا کے کلام میں اُس مسئلہ کا حل بتایا گیا ہو، دونوں میں نوعی امتیاز ہے۔ ایک انسان کا عقل و فہم ہے اور اس کے اخلاقی داعیات کا ظہور ہے اور دوسرا وحی من اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شراب سے اجتناب کا حکم نازل ہونے کے بعد اِس حکم کی قانونی حیثیت میں فرق پیدا ہوگیا ہے۔ اگر اجتناب کا یہ حکم نہ نازل ہوا ہوتا، تو شاید ہم پھر بھی شراب کے بارے محتاط رویہ اختیار کرتے، کیونکہ اِس کے ساتھ بہت سے اخلاقی مفاسد جڑے ہیں۔ لیکن جب حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو جائے، تو یہ میری اور آپ کی دریافت نہیں رہتی۔ یہ خدا کا حکم بن جاتا ہے۔ غامدی صاحب دین کی نئی پریزنٹیشن کے چکر میں شراب کو شریعت کے دائرے سے خارج کردیتے ہیں۔ غامدی صاحب کی قائم کردہ اس فاسد تقسیم میں یہی سب سے بڑی قباحت ہے۔ وہ یہ کہ اِس سے اللہ تعالیٰ کے حکم کا انکار و استخفاف لازم ہو جاتا ہے۔

٣. فطرت سے کیا مراد ہے؟

تیسرا نکتہ اسی مبحث سے جڑا ہے۔ وہ یہ کہ بیانِ فطرت کی ترکیب میں ’فطرت‘ سے کیا مراد ہے؟ بیانِ شریعت میں شریعت سے مراد دین ہے۔ کیا بیانِ فطرت کی ترکیب میں بھی فطرت سے بھی مراد دین ہے؟ شریعت جیسے خدا کے احکام کو جاننے کا ذریعہ ہے، ویسے ہی فطرت اللہ تعالیٰ کے احکامات کو جاننے کا وسیلہ ہے۔ غامدی صاحب کے محولہ الفاظ ”دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے۔ اُس نے یہ ہدایت پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی۔“ اور پھر اُن کا فطرت کی طرف رجوع اور احکامِ الٰہی کو بیانِ فطرت قرار دینا، اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ فطرت اُن کے نزدیک دین کا ماخذ ہے۔ خور و نوش کے باب میں لکھتے ہیں:

”اِن طیبات وخبائث کی کوئی جامع ومانع فہرست شریعت میں کبھی پیش نہیں کی گئی ۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت اِس معاملے میں بالعموم اُس کی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور وہ بغیر کسی تردد کے فیصلہ کر لیتا ہے کہ کیا چیز طیب اور کیا خبیث ہے۔“

فطرت کے ہدایت کا ماخذ ہونے کے بارے مزید صراحت فرماتے ہیں:

”چنانچہ خدا کی شریعت نے اِس معاملے میں انسان کو اصلاً اُس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے۔“

شریعت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ محض ان معاملات میں دخل دیتی ہے، جہاں فطرت کی ہدایت ناکافی ہو. رقم فرماتے ہیں:

”اِس باب میں شریعت کا موضوع صرف وہ جانور اور اُن کے متعلقات ہیں جن کے طیب یا خبیث ہونے کا فیصلہ تنہا عقل و فطرت کی رہنمائی میں کر لینا انسانوں کے لیے ممکن نہ تھا۔“

اِن تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ طیبات و خبائث کے بارے میں انسان کی فطرت خود سے اُس کی رہنمائی کرتی ہے۔ انسان کو خارج سے کسی رہنمائی کی اصلاً ضرورت نہیں۔ انسان کی فطرت اِس معاملے میں کامل رہنما ہے، ماسوائے چار چیزوں کے۔ اِن چیزوں کو شریعت میں موضوع بنایا گیا ہے۔ باقی خور و نوش کی نوعیت کی تمام چیزوں کی حلت و حرمت فطرت سے اخذ کی جائے گی۔ غامدی صاحب کی اِن تصریحات کو دیکھنے کے بعد کسی دوسری رائے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ وہ فطرت کی رہنمائی پر یقین رکھتے ہیں، بلکہ اُسے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اُن کے نزدیک فطرت کی یہ رہنمائی اخلاق کی نوعیت کی کوئی چیز نہیں, بلکہ کھانے پینے کی حلت و حرمت جیسے امور میں رہنمائی کا بیان ہے۔ لہذا غامدی صاحب کا فطرت پر موقف روایتی موقف سے یکسر مختلف ہے، جس میں فطرت کو اخلاق کے مبادی کا مخزن بتایا جاتا ہے۔ اِس بات کے واضح ہو جانے کے بعد ہم اپنے نکتہ کی طرف لوٹتے ہیں۔ ہمارا نکتہ یہ ہے کہ غامدی صاحب دو متضاد دعاوی کے حامل ہیں۔ لہذا اُن کا موقف داخلی اختلال اور فکری انتشار کا مظہر ہے۔ یہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ غامدی صاحب خور و نوش کی حلت و حرمت کے معاملے میں فطرت کی طرف رجوع کو لازمی قرار دیتے ہیں اور فطرت کو اِس رہنمائی کے قابل تصور کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ دین کو قرآن مجید اور سنت متواترہ میں محصور مانتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

”یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی اور تحریری تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے: ۱۔ قرآن مجید، ۲ ۔سنت“

مزید صراحت فرماتے ہیں:

”دین اصلاً، اِنھی دو صورتوں میں ہے۔ اِن کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اُسے دین قرار دیا جا سکتا ہے۔“

دین قرآن مجید اور سنت میں ہے، تو فطرت سے رہنمائی چہ معنی دارد؟ دین کی ہدایت پر عمل کرنا ہے، تو ہمیں قرآن مجید کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور سنت رسول ﷺ کی مراجعت کرنی چاہیے۔ فطرت کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے؟ کیا قرآن مجید اور سنت کی رہنمائی ناکافی ہے، جو ہمیں فطرت کی طرف رجوع کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ دین قرآن مجید اور سنت میں محصور ہے۔ (دلچسپ بات یہ ہے غامدی صاحب نے ’محصور‘ کا لفظ نئے سے نئے ایڈیشن میں حذف کردیا ہے۔) تو فطرت کی رہنمائی دین نہیں۔ دو جمع دو چار کی طرح یہ نتیجہ نکلتا ہے۔ اگر دین دو ذرائع سے منتقل ہوا ہے اور وہ ذرائع قرآن مجید اور سنت ہیں اور اِنھی دو صورتوں میں دین موجود ہے، تو فطرت کی رہنمائی غیر دین ہے۔ غیر دین سے رجوع کی کیا ضرورت ہے؟ اس پر عمل کیوں کیا جائے؟ شریعت نے انسان کو غیر دین سے رہنمائی لینے کے لیے کیوں چھوڑ دیا ہے۔ یہ غامدی فکر کا اتنا بڑا اختلال ہے، کہ جس کو جاننے کے بعد کوئی بھی صاحبِ فہم شخص اس فکر کے بارے میں اطمینان کی جگہ پر قائم نہیں رہ سکتا۔

غامدی صاحب دین کو بیان کرنے والی کتاب جس کا نام میزان ہے، اور جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ معاذاللہ امت کی تاریخ میں تیسری بڑی کتاب ہے، اس میں ایک جانب فطرت کے ماخذِ ہدایت و رہنمائی ہونے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ہدایت و رہنمائی کے قرآن مجید اور سنت تک محدود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر یہ الرسالہ، اعلام الموقعین، الموافقات یا حجت اللہ البالغہ کے پایہ کی کتاب ہے، تو اس میں ایسے فاش تضادات کیوں پائے جاتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر، دین اگر صرف قرآن و سنت سے حاصل ہوتا ہے، تو جو کچھ فطرت سے ملتا ہے، وہ دین نہیں ہو سکتا۔ لہذا غامدی صاحب دین کو غیر دین بنانے کے مرتکب ہیں یا غیر دین کو دین بنانے کے۔ دونوں صورتیں ہمارے نزدیک مردود ہیں اور ہر صاحبِ ایمان سے تردید کا تقاضا کرتی ہیں۔

اگر غامدی صاحب اور اُن کے رفقاء یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ فطرت کی جانب رجوع قرآن مجید کی ہدایت پر کیا جاتا ہے۔ لہذا فطرت الگ سے ماخذ نہیں، بلکہ قرآن مجید کی ہدایت پر فطرت سے مراجعت کی جاتی ہے۔ اِس کے جواب میں ہم اُنھیں ڈوب مرنے کا مشورہ دیں گے۔ قرآن مجید نے رسول اللہ ﷺ کی علی الاطلاق اطاعت کا حکم دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کو تبیین کے منصب پر فائز کیا ہے۔ یہ لوگ نبی ﷺ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب پر مبنی احادیث کو قبول کرنے میں تردد کرتے ہیں اور بسا اوقات واضح انکار کی جگہ پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن فطرت کی طرف مراجعت کو ضروری سمجھتے ہیں، جس کی کوئی معلوم و معروف حیثیت نہیں۔ احادیث مبارکہ کے معاملے میں کوئی متن سامنے ہوتا ہے اور اس متن میں کوئی سند ہوتی ہے۔ جبکہ فطرت کے معاملے میں ہمارے سامنے تہذیبی، ثقافتی اور علاقائی اختلافات کے علاوہ افتاد طبع جیسے عوارض ہوتے ہیں۔ لیکن اِس کے باوجود اُنھیں فطرت کی طرف رجوع حدیث شریف کے مقابلے میں زیادہ مرغوب ہے۔ دوسرا نبی ﷺ کے ارشاداتِ گرامی کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت پر دلالت کرنے والی متعدد قرآنی نصوص ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امت کا تعامل اور فقہاء و اصولیین کا اجماع ہے۔ خور و نوش کی حلت و حرمت جاننے کے لیے فطرت کی طرف رجوع پر غامدی صاحب نے احل الطیبات سے استدلال کیا ہے۔ ان کی اس دلیل کو آسانی سے توڑا جا سکتا ہے۔ یہ فردِ واحد کا فہم ہے، جس سے اختلاف کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ پھر یہ چیز نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ فطرت کی طرف رجوع الگ چیز ہے اور منزل من اللہ حکم کو فطرت قرار دینا الگ چیز ہے۔ غامدی صاحب نے محض فطرت کی طرف رجوع کی دعوت نہیں دی، بلکہ حکمِ الٰہی کو بیانِ فطرت قرار دیا ہے۔ اُن کی اِس جسارت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

٤. قرآن سے ماخوذ احکامات سنت کی طرف منسوب کیسے؟

چوتھا نکتہ یہ ہے کہ غامدی صاحب نے خور و نوش کے احکامات کو قرآن مجید سے ماخوذ کیا اور منسوب سنت کی طرف کردیا۔ غامدی صاحب نے اصول و مبادی کے آغاز ہی میں خور و نوش کے احکامات کو سنن قرار دے دیا تھا۔ جب خور و نوش کے باب میں اِن احکامات کو موضوع بنانے کا وقت آیا، تو اُنھوں نے سنت کی تعبیر کو یکسر پسِ پشت ڈال دیا اور اِس کی جگہ شریعت کا لفظ استعمال کرتے رہے۔ خور و نوش کے پورے باب میں سنت ہی کا لفظ مفقود ہے۔ باقی وہاں سب کچھ ہے۔ شریعت کے لفظ کو اُنھوں نے اِس لیے استعمال کیا کیونکہ قرآن مجید سے استشہاد کرتے ہوئے، سنت کا لفظ استعمال کرنا، اُن کے لیے ممکن نہیں تھا۔ سنت بھی شریعت ہے۔ بادی النظر میں سنت لکھیں یا شریعت، اِس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سنت کی جگہ شریعت کو ان کے مابین ترادف کی وجہ سے نہیں لایا گیا، بلکہ اِس وجہ سے کہ بنائے استدلال اور نتائجِ استدلال میں بُعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے، جسے غامدی صاحب نہ خود ماننے کو تیار ہیں اور نہ اپنے مخاطبین کو اِس طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا اُنھوں نے شریعت کے لفظ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے موقف کے داخلی تناقص کو پوشیدہ رکھا۔

٥. سنت کی تعیین کے اصول اطلاق کے منتظر

پانچواں نکتہ یہ ہے کہ سنت کی تعیین کے جو اُصول غامدی صاحب نے وضع فرمائے اور جنہیں اُصول و مبادی میں بڑے طنطنہ سے رقم کیا، اُن کا اطلاق کہیں نہیں کیا گیا۔ غامدی صاحب نے چار محرماتِ طعام کو سنت قرار دیا، اُن کے اِس دعویٰ کی بنیاد اِن اصولوں کو ہونا چاہے تھا۔ لیکن خور و نوش کے پورے باب میں اِن اصولوں میں سے کسی ایک اصول کا بھی اطلاق (ڈیمنسٹریٹو ایپلیکیشن)نہیں کیا گیا۔ وہاں سنت کا لفظ ہی مفقود ہے، اصولوں کا اطلاق تو بہت دور کی بات ہے۔

٦. سنت کے لیے پیغمبر سے ابتداء کی شرط

چھٹا نکتہ یہ ہے کہ سنت کے تیسرے اصول کے تحت غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر کسی حکم کی ابتداء قرآن مجید سے ہوئی ہو، تو وہ حکم سنت نہیں ہو سکتا۔ اِس اصول کے تحت غامدی صاحب نے کسی بھی عملی چیز کے سنت ہونے کے لیے اُس حکم کی پیغمبر سے ابتداء کو شرط بنایا ہے۔ لہذا قرآن مجید سے آغاز پانے والے احکامات سنت نہیں ہو سکتے۔ لہذا غامدی صاحب کے اپنے اصول کے مطابق مردار، بہایا ہوا خون، خنزیر کا گوشت اور ذبیح لغیر اللہ سنت نہیں ہوسکتے، کیونکہ ان کی ابتداء قرآن مجید سے ہوئی ہے۔

٧. دین ابراہیمی کی روایت اور پیغمبر سے ابتداء کی متناقض شرائط

ساتواں نکتہ یہ ہے کہ غامدی صاحب نے سنت کی تعریف میں سنت کو دین ابراہیمی کی روایت کے طور پر پیش کیا ہے۔ سنت کا تیسرا اصول اور سنت کی غامدی تعریف میں تناقض پایا جاتا ہے۔ ایک عمل جو سنت کہلوانے کے لیے پیغمبر سے ابتداء حاصل کرتا ہے، وہ دینِ ابراہیمی کی روایت کا حصہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح جو امر دین ابراہیمی کی روایت سے چلا آرہا ہے، وہ امر پیغمبر سے ابتداء کیسے حاصل کرے گا۔ غامدی صاحب اصولوں کی تشکیل میں جو سائنٹفک پریسیژن درکار ہوتی ہے، اُس کا عملی مظاہرہ کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ غامدی صاحب اگر سنت کی تعریف سے جڑ کر اِن اصولوں کو تشکیل دیتے، تو پیغمبر سے ابتداء کے ساتھ دین ابراہیمی کی روایت کو بھی شامل کرتے۔ دلچسپ بات یہ ہے ان ساتوں اصولوں میں کسی ایک بھی جگہ دین ابراہیمی کی روایت کا ذکر نہیں۔ دوسرا اِن اصولوں میں کسی ایک بھی جگہ سنت پر قرآن سے استدلال لانے کا بیان نہیں۔ فی الحقیقت غامدی صاحب کا سنت کی تعیین کا پروجیکٹ ناکام پروجیکٹ ہے۔ ایک طرف دین ابراہیمی کی روایت کا بلند بانگ دعویٰ ہے اور حالت یہ ہے کہ پیغمبر سے ابتداء کو متعین کرنے کے ذرائع بھی میسر نہیں۔ لامحالہ متنِ قرآن پر انحصار ضروری ٹہرتا ہے۔ لیکن وہاں دعویٰ یہ ہے کہ قرآن مجید سے ابتداء پانے والے احکامات سنت نہیں۔

٨. پیغمبر کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کا ذکر کہا کیا گیا ہے؟

آٹھواں نکتہ یہ ہے کہ سنت کے تیسرے اصول ہی کے تحت غامدی صاحب نے سنت کا معیار نبی ﷺ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کو قرار دیا ہے۔ خور و نوش کے پورے باب میں کسی ایک بھی جگہ مجال ہے کہ انھوں نے نبی ﷺ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کو بیان کیا ہو یا اُس سے استشہاد فرمایا ہو۔ نبی ﷺ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے معدوم الذکر ہونے کا مطلب یہ نکلتا ہے، کہ خور و نوش کے احکامات جنہیں غامدی صاحب سنت قرار دے رہے ییں، وہ سنت نہیں۔ اُن کے اپنے اصول جن نتائج کے حامل ہیں، غامدی صاحب اُن نتائج کو قبول کرنے سے گریزاں ہیں۔

٩. شراب کی حرمت کی دینی حیثیت کا انکار

نوواں نکتہ شراب کی حرمت سے متعلق ہے۔ غامدی صاحب نے شراب کی حرمت کو بیانِ شریعت کی بجائے بیانِ فطرت قرار دیا۔ دینی مشمولات کو غامدی صاحب الحکمہ اور الکتاب میں تقسیم کرتے ہیں۔ الحکمہ ایمانیات اور اخلاقیات ہیں۔ الکتاب سے مراد قوانینِ الہی ہیں، جنہیں اُن کے بقول شریعت بھی کہا جا سکتا ہے۔ اگر شراب کی حرمت بیانِ شریعت نہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بیانِ قانون نہیں۔ اِس نکتہ کے تحت ہمارا پہلا اعتراض یہی ہے۔ یعنی غامدی صاحب شراب کی حرمت کو قانونِ الہی ماننے سے انکاری ہیں۔ شراب کی حرمت اگر الکتاب سے متعلق نہیں، تو غامدی صاحب کے سسٹم میں اس کی کیا جگہ بنتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ان کے سسٹم میں شراب کی حرمت کی کوئی جگہ نہیں بنتی۔ ان کے بقول یہ بیانِ شریعت نہیں۔ لہذا یہ قانون نہیں۔ اب ہمارے پاس دو آپشن ہیں۔ ایک ایمانیات اور دوسرے اخلاقیات۔ ایمانیات یہ ہو نہیں سکتی۔ لامحالہ اِسے اخلاقیات میں شمار ہونا ہوگا۔ لیکن غامدی صاحب اِس کا شمار اخلاقیات میں بھی نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ سرے سے کوئی دینی حکم ہی نہیں۔ دین غامدی صاحب کے نزدیک الکتاب اور الحکمہ پر مشتمل ہے۔ اگر ان کے نزدیک کوئی چیز نہ الکتاب ہے اور نہ الحکمہ، وہ دین کیسے ہو سکتی ہے۔

اخلاقیات کا پورا باب دیکھ لیں، اس میں ایسی کسی چیز کا ذکر نہیں۔ البتہ ایک دور کی کوڑی یہ لائی جا سکتی ہے کہ شراب کی حرمت کو فطرت میں خیر و شر کے اصول سے جوڑا جائے، جسے غامدی صاحب نے اخلاقیات کے باب میں بیان کیا ہے۔ یہ یاد رہے غامدی صاحب نے خود اس نسبت کو بیان نہیں کیا۔ چونکہ غامدی صاحب اور ان کے رفقاء ایسے کوڑی لانے میں ماہر ہیں، اس لیے ہم بفرضِ محال اس سے تعرض کر رہے ہیں۔ اس کوڑی میں مسئلہ یہ ہے کہ فطرت کا حکم قبل از تنزیل اور بعد از تنزیل ممتاز ہے۔ غامدی صاحب اس امتیاز کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ نفس انسانی میں الہامِ خیر و شر کو جب وحی کے ذریعہ متعین کردیا جائے، تو اِس کی حیثیت پہلے جیسے نہیں رہتی۔ لہذا خیر و شر کا ایک اطلاق وہ ہے، جو ہم کسی چیز پر کرتے ہیں، اس میں اور تنزیل من اللہ میں زمین آسمان کے فرق سے بھی زیادہ فرق ہے۔ غامدی صاحب اِس امتیاز سے مکمل عدم آگاہی برتتے ہیں۔ اُن کا پورا فریم ورک جس میں انھوں نے دین کے مشمولات کو بیان کیا ہے، اِس سے خالی ہے۔ وہ حکمِ الٰہی کو اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے کی بجائے، فطرت کا بیان قرار دیتے ہیں، جو ان کے بنائے ہوئے فریم ورک میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

١٠. دین ابراہیمی کے مطابق شراب سے نشہ کی حرمت سنت کیوں نہیں؟

دسواں نکتہ یہ کہ غامدی صاحب کے نزدیک خون، مردار، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے گئے جانوروں کی حرمت سنت ہے۔ تو شراب کی حرمت سنت کیوں نہیں؟ شراب کی حرمت بیان فطرت ہے۔ کیا خون اور مردار کی حرمت بیانِ فطرت نہیں؟ کیا خون اور مردار کی حرمت انسانی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتی؟ خون اور مردار بھی رجس ہیں اور شراب بھی قرآنی حکم کے تحت رجس ہے۔ غامدی صاحب اول الذکر کو سنت قرار دیتے ہیں اور ثانی الذکر کو محض فطرت. ان کے رویہ میں دوہری دو عملی یے۔ پہلی یہ کہ وہ چار محرماتِ طعام کو بیانِ شریعت قرار دیتے ہیں اور شراب کو بیانِ فطرت، جب کہ ان دونوں کو قرآن مجید نے رجس قرار دیا ہے۔ دوسری دو عملی یہ ہے کہ وہ چار محرماتِ طعام کو سنت قرار دیتے ہیں اور شراب کی حرمت کو بھول جاتے ہیں۔ اگر غامدی صاحب اور اُن کے رفقا یہ پوزیشن اختیار کرتے ہیں کہ یہ محرماتِ طعام دین کی ابراہیمی روایت کا حصہ ہونے کی وجہ سے سنت ہے۔ تو اِس پر ہمارا جواب یہ ہے کہ دینِ ابراہیمی کی روایت میں شراب سے نشےکی حرمت بھی مسلم ہے۔ یہ سنت کیوں نہیں؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

دفاعِ غامدی پر مامور ڈاکٹر عرفان شہزاد کو برادرانہ مشورہ

دفاعِ غامدی پر مامور ڈاکٹر عرفان شہزاد کو برادرانہ مشورہ

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

سورۃ انعام : آیۃ 145 تفسیرِ قرطبی

سورۃ انعام : آیۃ 145 تفسیرِ قرطبی

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

دس نکات:  غامدی صاحب کے تصورِ سنت پر تنقید خور و نوش کے تناظر میں

دس نکات: غامدی صاحب کے تصورِ سنت پر تنقید خور و نوش کے تناظر میں

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE