بیان و سورۃ نحل آیت : 44 ، ابن عاشور اور غامدی صاحب – قسط دوم

Published On September 27, 2025
غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ بقرۃ پر ان کی وضاحت پر تبصرہ

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ بقرۃ پر ان کی وضاحت پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل کچھ عرصہ قبل ایک تحریر میں متعدد مثالوں کے ذریعے یہ واضح کیا گیا تھا کہ اصولیین جسے نسخ، تقیید و تخصیص (اصطلاحاً بیان تبدیل و تغییر) کہتے ہیں، قرآن کے محاورے میں وہ سب “بیان” ہی کہلاتا ہے اور اس حوالے سے محترم مولانا اصلاحی صاحب اور محترم جاوید احمد...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب نے اپنی دینی فکر میں بہت ساری باتیں، خود سے وضع کی ہیں۔ ان کے تصورات درحقیقت مقدمات ہیں، جن سے اپنے من پسند نتائج تک وہ رسائی چاہتے ہیں۔ "قیامِ شھادت" کا تصور درحقیقت ایک اور تصور کی بنیاد ہے۔ اسی طرح نبوت و رسالت کے فرق کا مقدمہ بھی ایک اور...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط سوم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب نے بعض دینی تصورات خود سے وضع کئے ہیں یا پھر ان کی تعریف ایسی کی ہے جو خانہ زاد ہے۔ ان تصورات میں "نبوت" اور "رسالت" سب سے نمایاں ہیں۔ ان کے نزدیک انبیاء و رسل دونوں کا فارسی متبادل "پیغمبر" ہے۔ نبی بھی پیغمبر ہے اور رسول بھی پیغمبر ہے۔ مگر...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط دوم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی کے تصور "سنت" کے متعلق غلط فہمی  پیدا کرنا ہمارا مقصد ہے اور نہ غلط بیانی ہمارے مقصد کو باریاب کر سکتی ہے۔ اگر غامدی صاحب کے پیش نظر "سنت" منزل من اللہ اعمال کا نام ہے اور یہ اعمال آنجناب علیہ السلام پر اسی طرح وحی ہوئے ہیں جیسے قرآن مجید ہوا ہے...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط اول)

ڈاکٹر خضر یسین یہ خالصتا علمی انتقادی معروضات ہیں۔ غامدی صاحب نے اپنی تحریر و تقریر میں جو بیان کیا ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنی معروضات پیش کر رہے ہیں۔ محترم غامدی صاحب کے موقف کو بیان کرنے میں یا سمجھنے میں غلطی ممکن ہے۔ غامدی صاحب کے متبعین سے توقع کرتا ہوں،...

جناب جاوید احمد غامدی کی  دینی سیاسی فکرکا ارتقائی جائزہ

جناب جاوید احمد غامدی کی دینی سیاسی فکرکا ارتقائی جائزہ

 ڈاکٹر سید متین احمد شاہ بیسویں صدی میں مسلم دنیا کی سیاسی بالادستی کے اختتام اور نوآبادیاتی نظام کی تشکیل کے بعد جہاں ہماری سیاسی اور مغرب کے ساتھ تعامل کی پالیسیوں پر عملی فرق پڑا ، وہاں ہماری دینی فکر میں بھی دور رس تبدیلیاں آئیں۔دینی سیاسی فکر میں سب سے بڑی تبدیلی...

ڈاکٹر زاہد مغل ، مشرف بیگ اشرف

– سورة النحل آیت 44 اور کتاب وسنت میں باہمی نسخ
امام شافعی (م 204 ھ) ایک خاص بنا پر (جس کا بیان کے لغوی معنی سے کوئی تعلق نہیں) نسخ القرآن بالسنة اور نسخ السنة بالقرآن دونوں کے قائل نہ تھے اور بعض علمائے شوافع بھی آپ کے ہم نوا تھے۔ نسخ السنة بالقرآن کو ناجائز کہنے والوں کی بنیادی دلیل سورة النحل کی زیر بحث آیت ہی ہوتی تھی، اس سلسلے میں آیت سے مختلف وجوہ استدلال پیش کی گئیں جن میں سے دو کلیدی ہیں:
1) سنت قرآن کا بیان ہے نہ کہ بالعکس
2) نسخ بیان نہیں
نسخ السنة بالقرآن کی ممانعت کا قول اختیار کرنے والوں کی پہلی وجہ استدلال کے مطابق قرآن نے نبی کو اپنا “مبین” کہا ہے اور چونکہ نسخ بیان ہے (اس لیے کہ ناسخ منسوخ کی انتہائے مدت کا بیان ہوتا ہے)، چنانچہ اگر قرآن بھی سنت کو منسوخ کرنے والا ہو تو قرآن بھی سنت کا “مبیِن” ٹھہرے گا اور یوں دونوں ایک دوسرے کے “مبین” ہو جائیں گے، جبکہ آیت میں صرف نبیﷺ کو قران کا مبین کہا گیا ہے نہ کہ قرآن کو سنت کا مبین۔ برعکس صورت یعنی نسخ القرآن بالسنة کی ممانعت کی رائے کے لئے یہ کہا گیا کہ اس آیت میں نبیﷺ کو قرآن کا مبین قرار دیا گیا ہے نہ کہ ناسخ، اور نسخ بیان کے منافی ہے۔ امام رازی شافعی (م 606 ھ) نے یہ اعتراضات لکھ کر ان کے تین جوابات دئیے ہیں:
• اولا یہاں بیان بدون نسخ مراد لینے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آیت میں صرف “مجمل و تخصیص کا بیان” مراد ہو،
• ثانیا اگر مان لیا جائے کہ اس آیت میں بیان مجمل وتخصیص ہی مراد ہے تب بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سنت کا وظیفہ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ یعنی یہ دلیل ایسے مفہوم مخالف پر قائم ہے جو قابل قبول نہیں،
• اگر مان لیں کہ آیت بیان مجمل و تخصیص سے متعلق ہے تب بھی یہ نسخ القرآن بالسنة کے خلاف نہیں اس لئے کہ نسخ بیان ہی ہے جیسے تخصیص بیان ہے، فرق یہ ہےکہ اول الذکر زمانے کی تخصیص ہے اور مؤخر الذکر اعیان (یا افراد) کی
آپ جمہور کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس آیت میں لفظ بیان ابلاغ و اظہار کے معنی میں آیا ہے نہ کہ صرف اجمال وتخصیص کے بیان کے معنی میں۔ آپ فرماتے ہیں:
وحمله على هذا أولى لأنه عام في كل القرآن أما حمله على بيان المراد فهو تخصيص ببعض ما أنزل وهو ما كان مجملا أو عاما مخصوصا وحمل اللفظ على ما يطابق الظاهر أولى من حمله على ما يوجب ترك الظاهر (المحصول فی الاصول)
مفہوم: اور بیان سے یہ (ابلاغ کا معنی) مراد لینا اولی ہے کیونکہ یہ پورے قرآن کے بارے میں عام ہے جبکہ اسے (سابقہ کلام کی) بیان مراد پر محمول کریں تو اس میں صرف مجمل و تخصیص کا بیان شامل ہوتا ہے اور یہ اسے نازل شدہ (قرآن) کے بعض کے ساتھ خاص کردینا ہے۔ چنانچہ (زبان فہمی کا قاعدہ ہے کہ) لفظ کے ظاہری معنی لینا اس مراد سے بہتر ہے جس سے ظاہر کو چھوڑنا پڑے (یعنی عام معنی خاص ہوجائے)۔
اسی طرح آپ کہتے ہیں:
أن النسخ لا ينافي البيان لأنه تخصيص للحكم بالأزمان كما أن التخصيص تخصيص للحكم بالأعيان (المحصول فی الاصول)
مفہوم: نسخ بیان کے منافی نہیں کیونکہ یہ حکم کی زمانوں کے لحاظ سے تخصیص ہے، جس طرح حکم کی افراد کے لحاظ سے تخصیص ہوتی ہے۔
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس آیت کے تحت اختلاف کی نوعیت یہ نہ تھی کہ “پہلے معنی دوسرے میں شامل نہیں اور دوسرے پہلے میں نہیں اور نیز ان میں تباین کی نسبت ہے”، بلکہ ان دونوں توجیہات میں لفظ کے ایک معنی کے اطلاقات میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے کہ پہلی توجیہ کے مصداق میں دوسری توجیہ کا مصداق شامل ہی شامل ہے۔ با الفاظ دیگر یہاں بات یوں ہے:
• بیان: پوری شریعت کا ابلاغ [= بیان ابتدائی + بیان بنائی]
• بیان: شریعت کے بعض کا ابلاغ [= بیان بنائی بصورت مجمل کا بیان]
یہ “ابلاغ بمقابلہ شرح و وضاحت نہیں” بلکہ “ابلاغ بمقابلہ ابلاغ” ہی ہے، بس دونوں توجیہات میں فرق یہ ہے کہ پہلی میں ابلاغ کا مفعول دوسری سے زیادہ عام ہے۔
امام رازی کے کلام میں نسخ القرآن بالسنة کے عدم جواز والوں کی طرف سے جس دلیل کی طرف اشارہ ہوا کہ نسخ رفع ہے نہ کہ بیان لہذا نسخ القرآن بالسنة جائز نہیں ہونا چاہئے، اس کا جواب علامہ آمدی شافعی (م 631 ھ) نے بھی مختلف مدارج میں دیا جس میں سے ایک نکتہ وہی ہے جو اوپر گزرا کہ یہ مقدمہ ہی قبول نہیں کہ نسخ بیان نہیں۔ دوسرا جواب بھی اوپر اجاگر ہوچکا کہ زیر بحث آیت میں عموم مراد ہونا چاہیے کہ اللہ کے نبی سب کچھ ظاہر فرمائیں جس میں نسخ بھی شامل ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
يجب حمل قوله “لتبين للناس” على معنى لتظهر للناس لكونه أعم من بيان المجمل والعموم لأنه يتناول إظهار كل شيء حتى المنسوخ، وإظهار المنسوخ أعم من إظهاره بالقرآن (الاحکام فی اصول الاحکام)
مفہوم: اللہ تعالی کے فرمان: “لتبين للناس” کو لوگوں کو ظاہر کرنے کے معنی میں ہونا چاہیے کیونکہ یہ بیان مجمل و بیان عموم (بیان تخصیص) سے زیادہ وسیع ہے کہ اس میں ہر شے کا اظہار شامل ہے حتی کہ نسخ کا بھی، اور منسوخ کا (مطلق) اظہار قرآن کے ذریعے منسوخ کے اظہار سے زیادہ وسیع اور عام ہے۔”
علامہ آمدی کا کلام اس حوالے سے بالکل واضح ہے کہ انہوں نے انہی خطوط پر جواب دیا جن پر امام رازی کا جواب تھا اور سورة النحل کی زیر بحث آیت میں پہلی توجیہ کو ترجیح دیتے ہوئے آپ نے اسے دوسری توجیہ سے زیادہ عام کہا یہاں تک کہ سنت میں مذکور نسخ بھی اس میں شامل ہوسکے۔
امام رازی و امام آمدی سے بہت قبل علامہ جصاص حنفی (م 370 ھ) نے بھی اس آیت کے تحت چلے آنے والے اس اختلاف کو اسی رنگ میں پیش کیا کہ اگر جمہور کے معنی مراد لیے جائیں تو امام شافعی کے موقف کی رو سے آیت کا جو مصداق تشکیل پاتا ہے وہ اس میں شامل ہی شامل ہے۔ مزید برآں اگر امام شافعی صاحب کا موقف مراد لے کر اس آیت کو بیان مجمل میں بند کر دیا جائے تب بھی اس سے غیر مجمل کے بیان کی نفی نہیں ہوتی کہ آیت ماسوا کی نفی پر دلالت نہیں کر رہی۔ آپ نسخ القرآن بالسنة کے جواز کے لیے سورة النحل کی اسی آیت کو بنیاد بنا کر واضح کرتے ہیں کہ نسخ چونکہ انتہائے مدت کا بیان ہی ہے لہذا اس آیت کی رو سے نسخ القرآن بالسنة بطور تبیین جائز ہوا کہ آیت کو تبیین کی تمام صورتوں پر حاوی ہونا چاہیے۔ اس کے بعد آپ کہتے ہیں کہ اگر کوئی یہ کہے کہ ‘نسخ تو بیان نہیں ہوتا لہذا نبیﷺ نسخ نہیں کرسکتے’، تو یہ محل نزاع ہی کو دلیل بنا لینا ہے کہ ہمارے اور نسخ القرآن بالسنة کے مانعین کے مابین محل نزاع اسی پر ہے کہ نسخ بیان ہے یا نہیں، لہذا مانعین کا یہ دعوی مصادرة على المطلوب ہونے کی وجہ سے درست نہیں۔ اسکے بعد آپ مانعین کی جانب سے ایک دلیل یہ بھی لاتے ہیں کہ اس آیت میں تبیین کے معنی “تبلیغ مانزل الیھم” ہے، لہذا نسخ یہاں مراد نہیں ہوسکتا۔ اس کا جواب آپ یوں دیتے ہیں:
فإن قال قائل: المراد به إظهار ما أنزل وتبليغه. قيل له: هذا أحد ما تناوله اللفظ، ولم ينف غيره من سائر ضروب البيان (الفصول فی الاصول)
مفہوم: اگر کوئی کہنے والا کہے کہ اس سے مقصود اتارے گئے کا اظہار وتبلیغ ہے، تو اس سے کہا جائے گا کہ لفظ بیان کے مصداق میں سے یہ (صرف) ایک ہے اور اس سے بیان کی دیگر صورتوں کی نفی نہیں ہوتی۔
آپ سورة النحل کی توجیہ میں بیان کی تمام انواع واقسام، خاص طور سے نسخ، کو شامل کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ اگرچہ قرآن کا اظہار اس میں شامل ہے لیکن صرف یہی شامل نہیں بلکہ بیان کی دیگر اقسام، بشمول نسخ، بھی اس میں شامل ہیں۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ امام شافعی صاحب سے اختلاف کرتے ہوئے اس آیت کے مفہوم کو “مجمل کے بیان” کے ساتھ خاص نہیں کر رہے تھے، دراصل وہ اس میں ہر قسم کا بیان شامل ہونا مراد لے رہے تھے اور محل نزاع یہ نہ تھا کہ کسی چیز کو “بلا کم وکاست پہنچانا” مراد ہے یا “اس کی صرف شرح و وضاحت کرنا” مراد ہے جیسا کہ غامدی صاحب کا خیال ہے بلکہ دونوں ہی فریق “بلا کم وکاست” پہنچانے کی بات کر رہے تھے لیکن بحث یہ تھی کہ شریعت کے کتنے حصے کا ابلاغ اس آیت کا مصداق ہے۔ یہ وہ تناظر تھا جس میں اس آیت کے تحت اصولی و تفسیری روایت یکسوئی کے ساتھ گفتگو کرتی رہی جہاں دونوں کا اتفاق تھا کہ اس آیت کے تحت نبیﷺ کی جانب سے “مجمل کا بیان تفسیر” شامل ہے اور اختلاف اس امر میں تھا کہ آیا اس کے علاوہ بھی کچھ اس میں شامل ہے یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی توجیہ والے دوسری توجیہ والوں کو جواب دیتے ہوئے اس پر زور دیتے ہیں کہ ہماری توجیہ زیادہ عام ہے کہ اس سے پوری شریعت کے معنی شامل ہوجاتے ہیں (بشمول بیان ابتدائی و بنائی، یعنی قرآن کا وہ حصہ بھی جو بیان کا محتاج نہیں اور وہ بھی جو محتاج ہے، اور وہ سب بھی جو آپﷺ نے اس کے بیان میں فرمایا چاہے مجمل کا بیان ہو یا تخصیص و نسخ)۔ اس طرح اصولیین ابلاغ و بیان بنائی میں عموم خصوص کی نسبت قائم کرتے ہوئے اسے ان دو اطلاقات میں برتتے ہیں۔ ان دونوں استعمالات کا لفظ بیان کے دو لغوی معنی ہونے سے سرے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان سے اظہار الشیء اور اظہار مافی الشیء کے مابین تباین کی نسبت کا کوئی استدلال کیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں توجیہات میں “ابلاغ و اظہار بمقابلہ شرح” نہیں بلکہ “ابلاغ و اظہار بمقابلہ ابلاغ و اظہار” ہی ہے، بس پہلی توجیہ میں ابلاغ و اظہار کا متعلق (یعنی جس کا اظہار کیا جا رہا ہے) دوسری توجیہ کے متعلق سے زیادہ وسیع اور عام ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس بحث میں “تبیین مانزل الیھم” کے تحت “صرف قرآن بلاکم و کاست پہنچانا” کوئی بھی فریق مراد نہیں لیتا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…