بیان و سورۃ نحل آیت : 44 ، ابن عاشور اور غامدی صاحب – قسط اول

Published On September 27, 2025
تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (2)

تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (2)

حسان بن علی اور یہ واضح رہے کہ انکارِ حجیتِ حدیث کے حوالے سے غلام احمد پرویز، اسی طرح عبداللہ چکڑالوی کا درجہ ایک سا ہے کہ وہ اسے کسی طور دین میں حجت ماننے کے لیے تیار نہیں (غلام احمد پرویز حديث کو صرف سیرت کی باب میں قبول کرتے ہیں، دیکھیے کتاب مقام حدیث) اور اس سے کم...

تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (1)

تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (1)

حسان بن علی غامدی صاحب کے اسلاف میں ماضی کی ایک اور شخصیت غلام قادیانی، حدیث کے مقام کے تعین میں لکھتے ہیں : "مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لیے تین چیزیں ہیں. ١) قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جسے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ...

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف

حسان بن علی غامدی صاحب کے اسلاف میں ايک اور شخصیت، معروف بطور منکرِ حجيتِ حدیث، اسلم جيراجپوری صاحب، حقیقت حدیث بیان کرتے ہوئے اختتامیہ ان الفاظ میں کرتے ہیں "قرآن دین کی مستقل کتاب ہے اور اجتماعی اور انفرادی ہر لحاظ سے ہدایت کے لیے کافی ہے وہ انسانی عقل کے سامنے ہر...

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...

حدیث کی نئی تعیین

حدیث کی نئی تعیین

محمد دین جوہر   میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ”قرآن مجید تاریخ ہے“۔ اب محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف تاریخ کی کتاب ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو محترم غامدی صاحب قرآن مجید کو بھی تاریخ (سرگزشت انذار) ہی...

ڈاکٹر زاہد مغل ، مشرف بیگ اشرف

قرآن و سنت کے مابین باہمی ربط کے ضمن میں بیان کی بحث کلیدی اہمیت کی حامل ہے اور جناب غامدی صاحب نے اس حوالے سے یہ موقف اپنایا ہے کہ بیان کے لغوی طور پر دو معنی ہیں جو کسی مشترک لفظ کے دو معانی کی طرح بیک وقت مراد نہیں لئے جاسکتے:
1) اظہار الشيء: یعنی کسی شے کو ظاہر کرنا یا اس کا بعینہ ابلاغ کرنا
2) اظہار ما فی الشيء: اس موجود شے کی شرح و وضاحت کرنا ہے۔ غامدی صاحب کا “شرح و وضاحت” کا تصور بھی منفرد ہے جس میں وہ سابقہ کلام کا بیان تفسیر، بیان تخصیص و تقیید اور بیان نسخ شامل نہیں کرتے جیسا کہ اصول فقہ کے ماہرین کرتے ہیں۔ ان کے ہاں اس میں سابقہ کلام کے صرف ایسے اطلاقات شامل ہوتے ہیں جو کلام کی پیدائش کے وقت ہی سے اس میں لغوی و عقلی طور پر مضمر ہوتے ہیں اور ایک مجتہد متکلم کی مراجعت کے بغیر انہیں جان سکتا ہے۔ غامدی صاحب کے نظام فکر میں احادیث (جنہیں وہ اخبار احاد کہتے ہیں) میں مذکور توضیحات کا دائرہ صرف یہی احکام ہیں جس کے لیے وہ “بیان فرع” کی اصطلاح بھی برتتے ہیں۔ ہم نے ان کے تصور “بیان شرح” پر جو غور و خوض کیا اور ان کی فقہی جزئیات کا تجزیہ کیا، اس کے مطابق علمی اصطلاحات کے رو سے بیان شرح کے اس تصور میں صرف تین امور ہونے چاہیئں:
الف) تخریج مناط (عقلی استنباط علت)
ب) تحقیق مناط (علت یا معنی کا انطباق)
ج) کسی محتمل الوجوہ حکم کے اطلاق کی ترجیح جو غیر وجوبی ہوتی ہے۔
ان کے علاوہ ایک اور صورت “بیان فطرت” کی بھی ہے لیکن وہ قرآن سے متعلق نہیں۔ قرآن کے حوالے سے غامدی صاحب کے مطابق نبیﷺ کے فرض منصبی میں قرآن کو بعینہ پہنچانا تھا (اس کے علاوہ وہ ایک خاص مفہوم کی سنت پہنچانے کو بھی لازمی سمجھتے ہیں)، اور قرآن کی ان کے مفہوم والی شرح و وضاحت اس فرض منصبی میں شامل نہیں، اس کے برعکس اصولیین کی علمی روایت میں قرآن کی شرح بمعنی بیان تفسیر، تخصیص، تقیید و نسخ بھی نبیﷺ کا فرض منصبی تسلیم کی گئی ہے (البتہ بعض شوافع بیان نسخ کے قائل نہیں رہے)۔ اس بحث میں سورۃ النحل آیت 44 کلیدی اہمیت کی حامل رہی ہے:
وَأَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ (۴۴)
اس آیت میں چونکہ “تبيين ما نزل إليهم” کو نبی کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے، اس لئے غامدی صاحب نے بھی اپنے تصور بیان پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے اس آیت کی ایسی توجیہ کی جو ان کے نظریہ بیان سے ہم آہنگ ہو۔ آیت کے حوالے سے ان کا موقف یہ ہے کہ یہاں “تبيين ما نزل إليهم” سے مراد قرآن کو “بلا کم وکاست” پہنچانا ہے نہ کہ اس کی شرح و وضاحت، یعنی یہاں بیان پہلے (اظہار الشیئ کے) معنی میں آیا ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ بنا کہ “(اے نبی جی) ہم نے یہ یاد دہانی آپ کی طرف اِس لیے اتاری ہے کہ آپ اسے بے کم و کاست ان لوگوں تک پہنچا دیں تاکہ اُس کی روشنی میں اُن حقائق کو سمجھ سکیں جن کو سمجھانا خدا کے پیش نظر ہے”۔ اس موقف کی تائید میں ان کا کہنا ہے کہ ہماری تفسیری روایت نے بھی اس آیت کے دو معنی لیے ہیں اور ان کے طے کردہ دوگانہ معانی اس علمی روایت کی صدائے بازگشت ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے بعض مفسرین (علامہ طبری (م 310 ھ)، علامہ زمخشری (م 535 ھ)، امام رازی (م 606 ھ) اور علامہ ابن کثیر (م 774 ھ)) کو نمونے کے طور پر پیش کیا ہے تاہم ان کا اصل تکیہ تیونس کے مشہور مالکی عالم علامہ ابن عاشور (م 1393 ھ / 1973 ء) پر ہے جنہوں نے ان کے مطابق وضوح کے ساتھ اس آیت کے تحت ان دو معانی کو لکھا جس کے یہ قائل ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن عاشور کی تفسیر “التحرير والتنوير” میں مذکور اس آیت کی دو توجیہات کو غامدی صاحب نے اپنے وضع کردہ بیان کے دوگانہ معنی سے مربوط قرار دیا اور اس سے قائم ہونے والے تاثر کو بنیاد بنا کر انہوں نے قدیم مفسرین کے ہاں بھی بیان کے اپنے وضع کردہ دو معنی کو پڑھنا شروع کردیا۔
اس تحریر میں ہم علامہ ابن عاشور کے کلام کا تفصیلی تجزیہ پیش کر کے یہ واضح کریں گے کہ ان کی دوگانہ توجیہات اور غامدی صاحب کے وضع کردہ دوگانہ معنی دو الگ سمت میں کھڑے ہیں اور حقیقت میں یہ توجیہات امت میں پہلے سے چلے آتے اس اختلاف کی بازگشت ہیں جو “قرآن وسنت کے باہمی نسخ” کے حوالے سے ہوا اور ہمارے مفسرین جو اصولی بھی تھے اسی کے ضمن میں اس آیت پر کلام کر رہے تھے۔ اس لیے علامہ ابن عاشور کی عبارت کے تجزیے سے پہلے اس آیت کے تحت ہونے والے اس اختلاف کو ایک لازمی مقدمے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…