بیان و سورۃ نحل آیت : 44 ، ابن عاشور اور غامدی صاحب – قسط اول

Published On September 27, 2025
بینکوں کا سود اور جاوید احمد غامدی صاحب

بینکوں کا سود اور جاوید احمد غامدی صاحب

سلمان احمد شیخ جناب جاوید صاحب نے اپنے حالیہ عوامی لیکچرز میں اس بات کی تائید کی ہے کہ روایتی بینکوں سے اثاثہ کی خریداری کے لیے کسی بھی قسم کا قرض لینا اسلام میں جائز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فائنانس لیز اور مارٹگیج فائنانسنگ سب اسلام میں جائز ہیں۔ وہ یہ بھی اصرار کرتے...

نزول عیسی اور قرآن، غامدی صاحب اور میزان : فلسفہ اتمام حجت

نزول عیسی اور قرآن، غامدی صاحب اور میزان : فلسفہ اتمام حجت

حسن بن علی نزول عیسی کی بابت قرآن میں تصریح بھی ہے (وإنه لعلم للساعة فلا تمترن بها واتبعون، سورة الزخرف - 61) اور ایماء بھی (وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ،سورة النساء - 159؛ ويكلم الناس في المهد وكهلا، سورة آل عمران - 46؛ أفمن كان على بينة من ربه ويتلوه...

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

ڈاکٹر محمد مشتاق ردِّ عمل کی نفسیات نائن الیون کے بعد پاکستان میں بم دھماکوں اورخود کش حملوں کا بھی ایک طویل سلسلہ چل پڑا اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے علاوہ سوات اور دیر میں بھی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن کیے گئے۔ جنرل مشرف اور حکومت کا ساتھ...

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط سوم

ڈاکٹر محمد مشتاق بادشاہ کے بجائے بادشاہ گر یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان اسلامک فرنٹ کے تجربے کی ناکامی کے بعد بھی غامدی صاحب اور آپ کے ساتھی عملی سیاست سے یکسر الگ تھلگ نہیں ہوئے اور اگلے تجربے کےلیے انھوں نے پاکستان تحریکِ انصاف اور عمران خان کی طرف رخ کیا۔ ڈاکٹر...

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق اتمامِ حجت اور تاویل کی غلطی ۔1980ء کی دہائی کے وسط میں جناب غامدی نے ’نبی اور رسول‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو اس وقت میزان حصۂ اول میں شائع کیا گیا۔ یہ مضمون دراصل مولانا اصلاحی کے تصور ’اتمامِ حجت‘ کی توضیح پر مبنی تھا اور اس میں انھوں نے مولانا...

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق ۔22 جنوری 2015ء کو روزنامہ جنگ نے’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘ کے عنوان سے جناب غامدی کا ایک کالم شائع کیا۔ اس’جوابی بیانیے‘ کے ذریعے غامدی صاحب نے نہ صرف ’دہشت گردی‘کو مذہبی تصورات کے ساتھ جوڑا، بلکہ دہشت گردی پر تنقید میں آگے بڑھ کر اسلامی...

ڈاکٹر زاہد مغل ، مشرف بیگ اشرف

قرآن و سنت کے مابین باہمی ربط کے ضمن میں بیان کی بحث کلیدی اہمیت کی حامل ہے اور جناب غامدی صاحب نے اس حوالے سے یہ موقف اپنایا ہے کہ بیان کے لغوی طور پر دو معنی ہیں جو کسی مشترک لفظ کے دو معانی کی طرح بیک وقت مراد نہیں لئے جاسکتے:
1) اظہار الشيء: یعنی کسی شے کو ظاہر کرنا یا اس کا بعینہ ابلاغ کرنا
2) اظہار ما فی الشيء: اس موجود شے کی شرح و وضاحت کرنا ہے۔ غامدی صاحب کا “شرح و وضاحت” کا تصور بھی منفرد ہے جس میں وہ سابقہ کلام کا بیان تفسیر، بیان تخصیص و تقیید اور بیان نسخ شامل نہیں کرتے جیسا کہ اصول فقہ کے ماہرین کرتے ہیں۔ ان کے ہاں اس میں سابقہ کلام کے صرف ایسے اطلاقات شامل ہوتے ہیں جو کلام کی پیدائش کے وقت ہی سے اس میں لغوی و عقلی طور پر مضمر ہوتے ہیں اور ایک مجتہد متکلم کی مراجعت کے بغیر انہیں جان سکتا ہے۔ غامدی صاحب کے نظام فکر میں احادیث (جنہیں وہ اخبار احاد کہتے ہیں) میں مذکور توضیحات کا دائرہ صرف یہی احکام ہیں جس کے لیے وہ “بیان فرع” کی اصطلاح بھی برتتے ہیں۔ ہم نے ان کے تصور “بیان شرح” پر جو غور و خوض کیا اور ان کی فقہی جزئیات کا تجزیہ کیا، اس کے مطابق علمی اصطلاحات کے رو سے بیان شرح کے اس تصور میں صرف تین امور ہونے چاہیئں:
الف) تخریج مناط (عقلی استنباط علت)
ب) تحقیق مناط (علت یا معنی کا انطباق)
ج) کسی محتمل الوجوہ حکم کے اطلاق کی ترجیح جو غیر وجوبی ہوتی ہے۔
ان کے علاوہ ایک اور صورت “بیان فطرت” کی بھی ہے لیکن وہ قرآن سے متعلق نہیں۔ قرآن کے حوالے سے غامدی صاحب کے مطابق نبیﷺ کے فرض منصبی میں قرآن کو بعینہ پہنچانا تھا (اس کے علاوہ وہ ایک خاص مفہوم کی سنت پہنچانے کو بھی لازمی سمجھتے ہیں)، اور قرآن کی ان کے مفہوم والی شرح و وضاحت اس فرض منصبی میں شامل نہیں، اس کے برعکس اصولیین کی علمی روایت میں قرآن کی شرح بمعنی بیان تفسیر، تخصیص، تقیید و نسخ بھی نبیﷺ کا فرض منصبی تسلیم کی گئی ہے (البتہ بعض شوافع بیان نسخ کے قائل نہیں رہے)۔ اس بحث میں سورۃ النحل آیت 44 کلیدی اہمیت کی حامل رہی ہے:
وَأَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ (۴۴)
اس آیت میں چونکہ “تبيين ما نزل إليهم” کو نبی کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے، اس لئے غامدی صاحب نے بھی اپنے تصور بیان پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے اس آیت کی ایسی توجیہ کی جو ان کے نظریہ بیان سے ہم آہنگ ہو۔ آیت کے حوالے سے ان کا موقف یہ ہے کہ یہاں “تبيين ما نزل إليهم” سے مراد قرآن کو “بلا کم وکاست” پہنچانا ہے نہ کہ اس کی شرح و وضاحت، یعنی یہاں بیان پہلے (اظہار الشیئ کے) معنی میں آیا ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ بنا کہ “(اے نبی جی) ہم نے یہ یاد دہانی آپ کی طرف اِس لیے اتاری ہے کہ آپ اسے بے کم و کاست ان لوگوں تک پہنچا دیں تاکہ اُس کی روشنی میں اُن حقائق کو سمجھ سکیں جن کو سمجھانا خدا کے پیش نظر ہے”۔ اس موقف کی تائید میں ان کا کہنا ہے کہ ہماری تفسیری روایت نے بھی اس آیت کے دو معنی لیے ہیں اور ان کے طے کردہ دوگانہ معانی اس علمی روایت کی صدائے بازگشت ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے بعض مفسرین (علامہ طبری (م 310 ھ)، علامہ زمخشری (م 535 ھ)، امام رازی (م 606 ھ) اور علامہ ابن کثیر (م 774 ھ)) کو نمونے کے طور پر پیش کیا ہے تاہم ان کا اصل تکیہ تیونس کے مشہور مالکی عالم علامہ ابن عاشور (م 1393 ھ / 1973 ء) پر ہے جنہوں نے ان کے مطابق وضوح کے ساتھ اس آیت کے تحت ان دو معانی کو لکھا جس کے یہ قائل ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن عاشور کی تفسیر “التحرير والتنوير” میں مذکور اس آیت کی دو توجیہات کو غامدی صاحب نے اپنے وضع کردہ بیان کے دوگانہ معنی سے مربوط قرار دیا اور اس سے قائم ہونے والے تاثر کو بنیاد بنا کر انہوں نے قدیم مفسرین کے ہاں بھی بیان کے اپنے وضع کردہ دو معنی کو پڑھنا شروع کردیا۔
اس تحریر میں ہم علامہ ابن عاشور کے کلام کا تفصیلی تجزیہ پیش کر کے یہ واضح کریں گے کہ ان کی دوگانہ توجیہات اور غامدی صاحب کے وضع کردہ دوگانہ معنی دو الگ سمت میں کھڑے ہیں اور حقیقت میں یہ توجیہات امت میں پہلے سے چلے آتے اس اختلاف کی بازگشت ہیں جو “قرآن وسنت کے باہمی نسخ” کے حوالے سے ہوا اور ہمارے مفسرین جو اصولی بھی تھے اسی کے ضمن میں اس آیت پر کلام کر رہے تھے۔ اس لیے علامہ ابن عاشور کی عبارت کے تجزیے سے پہلے اس آیت کے تحت ہونے والے اس اختلاف کو ایک لازمی مقدمے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…