احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 5

Published On September 27, 2025
غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ بقرۃ پر ان کی وضاحت پر تبصرہ

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ بقرۃ پر ان کی وضاحت پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل کچھ عرصہ قبل ایک تحریر میں متعدد مثالوں کے ذریعے یہ واضح کیا گیا تھا کہ اصولیین جسے نسخ، تقیید و تخصیص (اصطلاحاً بیان تبدیل و تغییر) کہتے ہیں، قرآن کے محاورے میں وہ سب “بیان” ہی کہلاتا ہے اور اس حوالے سے محترم مولانا اصلاحی صاحب اور محترم جاوید احمد...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب نے اپنی دینی فکر میں بہت ساری باتیں، خود سے وضع کی ہیں۔ ان کے تصورات درحقیقت مقدمات ہیں، جن سے اپنے من پسند نتائج تک وہ رسائی چاہتے ہیں۔ "قیامِ شھادت" کا تصور درحقیقت ایک اور تصور کی بنیاد ہے۔ اسی طرح نبوت و رسالت کے فرق کا مقدمہ بھی ایک اور...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط سوم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب نے بعض دینی تصورات خود سے وضع کئے ہیں یا پھر ان کی تعریف ایسی کی ہے جو خانہ زاد ہے۔ ان تصورات میں "نبوت" اور "رسالت" سب سے نمایاں ہیں۔ ان کے نزدیک انبیاء و رسل دونوں کا فارسی متبادل "پیغمبر" ہے۔ نبی بھی پیغمبر ہے اور رسول بھی پیغمبر ہے۔ مگر...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط دوم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی کے تصور "سنت" کے متعلق غلط فہمی  پیدا کرنا ہمارا مقصد ہے اور نہ غلط بیانی ہمارے مقصد کو باریاب کر سکتی ہے۔ اگر غامدی صاحب کے پیش نظر "سنت" منزل من اللہ اعمال کا نام ہے اور یہ اعمال آنجناب علیہ السلام پر اسی طرح وحی ہوئے ہیں جیسے قرآن مجید ہوا ہے...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط اول)

ڈاکٹر خضر یسین یہ خالصتا علمی انتقادی معروضات ہیں۔ غامدی صاحب نے اپنی تحریر و تقریر میں جو بیان کیا ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنی معروضات پیش کر رہے ہیں۔ محترم غامدی صاحب کے موقف کو بیان کرنے میں یا سمجھنے میں غلطی ممکن ہے۔ غامدی صاحب کے متبعین سے توقع کرتا ہوں،...

جناب جاوید احمد غامدی کی  دینی سیاسی فکرکا ارتقائی جائزہ

جناب جاوید احمد غامدی کی دینی سیاسی فکرکا ارتقائی جائزہ

 ڈاکٹر سید متین احمد شاہ بیسویں صدی میں مسلم دنیا کی سیاسی بالادستی کے اختتام اور نوآبادیاتی نظام کی تشکیل کے بعد جہاں ہماری سیاسی اور مغرب کے ساتھ تعامل کی پالیسیوں پر عملی فرق پڑا ، وہاں ہماری دینی فکر میں بھی دور رس تبدیلیاں آئیں۔دینی سیاسی فکر میں سب سے بڑی تبدیلی...

مفتی عبد الواحد

  1. فرشتوں کی بات سننا اور ان سے فائدہ اٹھانے کو یہ کہنا کہ وحی آتی ہے، بہت ہی بڑی نادانی ہے اور وحی کے شرعی معنی سے ناواقعی کی بڑی دلیل ہے۔ وحی تو صرف اس کلام الہی کو کہتے ہیں جو کسی نبی کی طرف نازل کیا گیا ہو۔

جب یہ معلوم ہو گیا کہ صرف وہی خاصہ نبوت ہے اور وحی اس کلام الہی کو کہتے ہیں جو کسی نبی کی طرف نازل کیا گیا ہو، تو کسی غیر نبی کا فرشتوں کو دیکھنا یا ان کی بات سننا یا اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا نظارہ کرنا یا باذن خداوندی کسی امر غیب کو جان لینا، اگرچہ لوح محفوظ پر نظر کر کے ہو یا اس کا آسمان کی سیر کرنا یا اللہ تعالی کا اس سے گفتگو کرنا، ان باتوں کی وجہ سے یہ الزام دینا کہ وہ غیر نبی حریم نبوت میں نقب لگا چکا، کس قدر انصاف سے بعید ہے۔

  1. غامدی صاحب کا یہ اعتراض کہ یہ اکابر عصمت کے بھی مدعی ہیں، تو اس کی حقیقت شاہ اسماعیل شہید اپنی کتاب عبقات میں یوں دیتے ہیں:
    “علامات ان کتابوں میں سے ہے جس کے بکثرت حوالے نقل کر کے غامدی صاحب نے اپنے مضمون ‘اسلام اور تصوف میں صوفیہ کی گمراہی کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے’ میں ذکر کیا ہے۔”

بعض لوگوں کو اس مسئلہ پر شدت سے اصرار ہے کہ پیغمبروں کے سوا عصمت کی صفت کا انتساب کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اس سے کیا مطلب ہے؟ اگر یہ فرض ہے کہ پیغمبروں کے سوا کسی دوسرے کے لیے عصمت کی صفت شریعت سے ثابت نہیں، تو علاوہ اس اعتراض کے یعنی آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا:
“الحق ينطق على لسان عمر”
یا حضرت علی کے متعلق فرمایا:
“دار الحق مع علی حيث دار”
پیغمبر کے ان اقوال یا ان ہی جیسے دوسرے اقوال جن کا مقصد یہی ہے، ان سب کی خواہ مخواہ تاویل کرنی پڑے گی۔

اور اگر ان کی غرض یہ ہے کہ واقعہ میں پیغمبروں کے سوا عصمت کی صفت کسی دوسرے انسان کے لیے ثابت نہیں ہو سکتی، تو ظاہر ہے کہ اس دعویٰ کے اثبات میں دلیل پیش کرنا ان کا فرض ہے، کیونکہ شرعی طور پر زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ شریعت پیغمبروں کے سوا دوسروں کی عصمت کے متعلق خاموش ہے، لیکن کسی چیز سے خاموشی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ شریعت اس کی منکر ہے۔

علاوہ ازیں، مسئلہ میں کچھ تفصیل بھی ہو سکتی ہے، یعنی عصمت کی دو قسمیں ہیں:

  • ایک عصمت مطلقہ، جس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے سارے شعبوں، اقوال، اعمال و افعال اور علوم میں عصمت کو ثابت کیا جائے۔

  • دوسری قسم عصمت مقیدہ، جس کا مطلب یہ ہے کہ خاص خاص قسم کے افعال و اعمال و اقوال و علوم میں عصمت کو ثابت کیا جائے۔

بالفاظ دیگر یوں کہا جائے کہ جس منصب کے فرائض اس شخص کے سپرد ہوئے ہیں، اس منصب سے جن امور کا تعلق ہے، ان میں وہ معصوم ہوتا ہے، یعنی صرف ان خاص امور میں اس سے صادر نہیں ہو سکتی۔ [عبقات: ۱۱، شمارہ ۴]

اس کا حاصل یہ ہے کہ عصمت مطلقہ نبی کو حاصل ہو اور عصمت مقیدہ کسی ولی کو حاصل ہو۔

  1. غامدی صاحب نے ابن عربی پر یہ الزام بھی لگایا کہ ان کے نزدیک ختم نبوت کے معنی صرف یہ ہیں کہ منصب تشریح اب کسی شخص کو حاصل نہ ہوگا۔ نبوت کا مقام اور اس کے کمالات اس طرح باقی ہیں اور یہ اب بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ غامدی صاحب یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ابن عربی وغیرہ کے نزدیک صاحب شریعت نہیں، تو نہیں، البتہ ایسا نہیں ہو سکتا جو صاحب شریعت نہ ہو۔ غامدی صاحب اگر ابن عربی کی فتوحات کا یہ ٹکڑا بھی ملاحظہ کر لیتے تو شاید ان کو بہتر فیصلہ کرنے کی توفیق ہوتی۔

اعلم أن الملك ياتي النبي بالوحى على حالين تارة ينزل على قلبه وتارة ياتيه في صورة جسدية من خارج ….. و هذا باب أغلق بعد موت محمد فلا يفتح أحد إلى يوم القيامة ولكن بقى للأولياء وحى الإلهام الذي لا تشريع فيه. [باب: ۱۴]

فرشتہ دو حالتوں میں وحی لاتا ہے۔ کبھی تو اس کے قلب پر نازل ہوتا ہے اور کبھی اس کے پاس خارج سے صورت جسدی میں آتا ہے۔ یہ ایک باب ہے جو وفات نبوی کے بعد بند کر دیا گیا اور قیامت تک کسی کے لیے نہ کھلے گا۔ لیکن اولیاء کے لیے وہ وحی جس کی حقیقت الہام ہے، باقی رہ گئی ہے، جس میں تشریع (یعنی احکام) نہیں ہیں۔

لا يصح لأحد منا دخول مقام النبوة [باب: ۳۶۲]
ہم (اولیاء) میں سے کسی کو مقام نبوت میں داخل ہونا ممکن نہیں۔

البته کمالات نبوت وہ اوصاف نہیں ہیں جن کی تحصیل امت کے لیے مطلوب ہے۔ ہاں اس درجے تک جو نبی کو حاصل تھے، امت کے لیے تحصیل ممکن نہیں۔

  1. سورہ کہف میں حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں صراحت ہے کہ وہ عالم امر میں ذات خداوندی کے آلہ اور غلام تھے۔ اگر اللہ تعالی ایسے ہی کسی اور کو بھی بتائیں تو کیا مستجد ہے؟ لیکن غامدی صاحب کو قرآن کی یہ بیان کردہ غلامی خدا کی بادشاہی میں شرکت نظر آتی ہے اور یہ غامدی صاحب کی دینی بصیرت کے انتہائی ضعف پر واضح دلیل ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

No Results Found

The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.