احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 5

Published On September 27, 2025
غامدی اور خضریاسین: تفسیر وتفہیم کے معاملے پر میرا نقطہ نظر

غامدی اور خضریاسین: تفسیر وتفہیم کے معاملے پر میرا نقطہ نظر

گل رحمان ہمدرد غامدی صاحب نے مقامات میں دبستانِ شبلی کے بارے بتایا ہے کہ اس کے دو اساسی اصولوں میں سے ایک اصول یہ تھا کہ دین کی حقیقت جاننے کےلیۓ ہمیں پیچھے کی طرف جانا ہوگا ”یہاں تک کہ اُس دور میں پہنچ جاٸیں جب قرآن اتر رہا تھا اور جب خدا کا آخری پیغمبر خود انسانوں...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 5)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 5)

مولانا واصل واسطی ہم نے اوپر جناب غامدی کی ایک عبارت پیش کی ہے کہ ،، چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہوسکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیاجاسکتاہے (میزان ص15) میں نے کہیں جناب غامدی کا اپنا قول غالبا،، اشراق ،، کے کسی شمارے میں...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 5)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 4)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی صاحب آگے اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ  " دین لاریب انھی دوصورتوں میں ہے ۔ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے نہ اسے دین قرار دیا جاسکتاہے ( میزان ص15)" ہم عرض کرتے ہیں کہ جناب غامدی نے دین کو بہت مختصر کر دیا ہے  کیونکہ جن 25 سنن کو انھوں...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 5)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 3)

مولانا واصل واسطی گذشتہ بحث سے معلوم ہوا کہ جناب غامدی نے ،، سنت ،، کی صرف الگ اصطلاح ہی نہیں بنائی ، بلکہ اس میں ایسے تصرفات بھی کیے ہیں جن کی بنا پر وہ بالکل الگ چیز بن گئی ہے ۔ دیکھئے کہ فقھاء اوراصولیین کی ایک جماعت نے بھی ،، حدیث ،، اور ،، سنت ،، میں فرق کیا ہے ۔...

ایک تہائی مال سے زائد کی وصیت پر غامدی صاحب  کے موقف کا تنقیدی جائزہ

ایک تہائی مال سے زائد کی وصیت پر غامدی صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ

وقار اکبر چیمہ   تعارف دینِ اسلام میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے انسان کو عطاء کئے گئے مال میں سے صرف ایک تہائی پر اسے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اس کی وصیت جس کو چاہے کر سکتا ہے۔ جبکہ باقی مال اس کی موت کے بعد اسی وراثت کے قانون کے تحت تقسیم کیا جائے گا جسے اللہ نے...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 5)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 2)

مولانا واصل واسطی ہم نے پہلی پوسٹ میں لکھاہے کہ جناب غامدی کلی طور پرمنکرِحدیث ہیں ، کہ وہ حدیث کو سرے سے ماخذِدین اور مصدرِشریعت نہیں مانتے ، انہوں نے اپنی فکرکی ترویج کے لیے جن اصطلاحات کو وضع کیاہے ان میں سے ایک اصطلاح  ،، سنت ،، کی بھی ہے ، عام علماء کرام ،، حدیث...

مفتی عبد الواحد

  1. فرشتوں کی بات سننا اور ان سے فائدہ اٹھانے کو یہ کہنا کہ وحی آتی ہے، بہت ہی بڑی نادانی ہے اور وحی کے شرعی معنی سے ناواقعی کی بڑی دلیل ہے۔ وحی تو صرف اس کلام الہی کو کہتے ہیں جو کسی نبی کی طرف نازل کیا گیا ہو۔

جب یہ معلوم ہو گیا کہ صرف وہی خاصہ نبوت ہے اور وحی اس کلام الہی کو کہتے ہیں جو کسی نبی کی طرف نازل کیا گیا ہو، تو کسی غیر نبی کا فرشتوں کو دیکھنا یا ان کی بات سننا یا اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا نظارہ کرنا یا باذن خداوندی کسی امر غیب کو جان لینا، اگرچہ لوح محفوظ پر نظر کر کے ہو یا اس کا آسمان کی سیر کرنا یا اللہ تعالی کا اس سے گفتگو کرنا، ان باتوں کی وجہ سے یہ الزام دینا کہ وہ غیر نبی حریم نبوت میں نقب لگا چکا، کس قدر انصاف سے بعید ہے۔

  1. غامدی صاحب کا یہ اعتراض کہ یہ اکابر عصمت کے بھی مدعی ہیں، تو اس کی حقیقت شاہ اسماعیل شہید اپنی کتاب عبقات میں یوں دیتے ہیں:
    “علامات ان کتابوں میں سے ہے جس کے بکثرت حوالے نقل کر کے غامدی صاحب نے اپنے مضمون ‘اسلام اور تصوف میں صوفیہ کی گمراہی کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے’ میں ذکر کیا ہے۔”

بعض لوگوں کو اس مسئلہ پر شدت سے اصرار ہے کہ پیغمبروں کے سوا عصمت کی صفت کا انتساب کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اس سے کیا مطلب ہے؟ اگر یہ فرض ہے کہ پیغمبروں کے سوا کسی دوسرے کے لیے عصمت کی صفت شریعت سے ثابت نہیں، تو علاوہ اس اعتراض کے یعنی آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا:
“الحق ينطق على لسان عمر”
یا حضرت علی کے متعلق فرمایا:
“دار الحق مع علی حيث دار”
پیغمبر کے ان اقوال یا ان ہی جیسے دوسرے اقوال جن کا مقصد یہی ہے، ان سب کی خواہ مخواہ تاویل کرنی پڑے گی۔

اور اگر ان کی غرض یہ ہے کہ واقعہ میں پیغمبروں کے سوا عصمت کی صفت کسی دوسرے انسان کے لیے ثابت نہیں ہو سکتی، تو ظاہر ہے کہ اس دعویٰ کے اثبات میں دلیل پیش کرنا ان کا فرض ہے، کیونکہ شرعی طور پر زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ شریعت پیغمبروں کے سوا دوسروں کی عصمت کے متعلق خاموش ہے، لیکن کسی چیز سے خاموشی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ شریعت اس کی منکر ہے۔

علاوہ ازیں، مسئلہ میں کچھ تفصیل بھی ہو سکتی ہے، یعنی عصمت کی دو قسمیں ہیں:

  • ایک عصمت مطلقہ، جس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے سارے شعبوں، اقوال، اعمال و افعال اور علوم میں عصمت کو ثابت کیا جائے۔

  • دوسری قسم عصمت مقیدہ، جس کا مطلب یہ ہے کہ خاص خاص قسم کے افعال و اعمال و اقوال و علوم میں عصمت کو ثابت کیا جائے۔

بالفاظ دیگر یوں کہا جائے کہ جس منصب کے فرائض اس شخص کے سپرد ہوئے ہیں، اس منصب سے جن امور کا تعلق ہے، ان میں وہ معصوم ہوتا ہے، یعنی صرف ان خاص امور میں اس سے صادر نہیں ہو سکتی۔ [عبقات: ۱۱، شمارہ ۴]

اس کا حاصل یہ ہے کہ عصمت مطلقہ نبی کو حاصل ہو اور عصمت مقیدہ کسی ولی کو حاصل ہو۔

  1. غامدی صاحب نے ابن عربی پر یہ الزام بھی لگایا کہ ان کے نزدیک ختم نبوت کے معنی صرف یہ ہیں کہ منصب تشریح اب کسی شخص کو حاصل نہ ہوگا۔ نبوت کا مقام اور اس کے کمالات اس طرح باقی ہیں اور یہ اب بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ غامدی صاحب یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ابن عربی وغیرہ کے نزدیک صاحب شریعت نہیں، تو نہیں، البتہ ایسا نہیں ہو سکتا جو صاحب شریعت نہ ہو۔ غامدی صاحب اگر ابن عربی کی فتوحات کا یہ ٹکڑا بھی ملاحظہ کر لیتے تو شاید ان کو بہتر فیصلہ کرنے کی توفیق ہوتی۔

اعلم أن الملك ياتي النبي بالوحى على حالين تارة ينزل على قلبه وتارة ياتيه في صورة جسدية من خارج ….. و هذا باب أغلق بعد موت محمد فلا يفتح أحد إلى يوم القيامة ولكن بقى للأولياء وحى الإلهام الذي لا تشريع فيه. [باب: ۱۴]

فرشتہ دو حالتوں میں وحی لاتا ہے۔ کبھی تو اس کے قلب پر نازل ہوتا ہے اور کبھی اس کے پاس خارج سے صورت جسدی میں آتا ہے۔ یہ ایک باب ہے جو وفات نبوی کے بعد بند کر دیا گیا اور قیامت تک کسی کے لیے نہ کھلے گا۔ لیکن اولیاء کے لیے وہ وحی جس کی حقیقت الہام ہے، باقی رہ گئی ہے، جس میں تشریع (یعنی احکام) نہیں ہیں۔

لا يصح لأحد منا دخول مقام النبوة [باب: ۳۶۲]
ہم (اولیاء) میں سے کسی کو مقام نبوت میں داخل ہونا ممکن نہیں۔

البته کمالات نبوت وہ اوصاف نہیں ہیں جن کی تحصیل امت کے لیے مطلوب ہے۔ ہاں اس درجے تک جو نبی کو حاصل تھے، امت کے لیے تحصیل ممکن نہیں۔

  1. سورہ کہف میں حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں صراحت ہے کہ وہ عالم امر میں ذات خداوندی کے آلہ اور غلام تھے۔ اگر اللہ تعالی ایسے ہی کسی اور کو بھی بتائیں تو کیا مستجد ہے؟ لیکن غامدی صاحب کو قرآن کی یہ بیان کردہ غلامی خدا کی بادشاہی میں شرکت نظر آتی ہے اور یہ غامدی صاحب کی دینی بصیرت کے انتہائی ضعف پر واضح دلیل ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

No Results Found

The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.