ناقد :مفتی عبد الواحد قریشی تلخیص : وقار احمد غامدی صاحب کی ضلالت کو پکڑنا مشکل کام ہے اس لیے کہ ان کی باتیں عام عوام کو بالکل سمجھ نہیں آتیںمیں یہاں کچھ مثالیں دیتا ہوںالف ۔ غامدی صاحب اپنی کتاب میزان میں لکھتے ہیں کہ " قرآنِ مجید کی ایک ہی قرآت ہے جو ہمارے مصاحف...
احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 4
منطقی مغالطے : جاوید احمد غامدی صاحب پر ایک نقد
عمران شاہد بھنڈر جاوید احمد غامدی اپنی مختصر گفتگو میں بھی منطقی مغالطوں کا انبار لگا دیتے ہیں۔ ان کی ایک گفتگو میں موجود چند مغالطے ملاحظہ ہوں۔ “عقل اور وحی کے بارے میں جب جاوید احمد غامدی صاحب سے سوال کیا گیا، تو بجائے اس کے کہ غامدی صاحب اس کا سیدھا اور دو ٹوک جواب...
حیات و نزولِ عیسی
سوال کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین جاوید احمد غامدی کے بارے میں، جس کے درجِ ذیل عقائد وخیالات ہیں اور ان کی دعوت واشاعت میں ہمہ تن مصروف ہے ۔حیات ونزول عیسیٰ کا منکر ہے ،۔ کہتا ہے عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے ہیں۔﴿میزان،ص۷۸۱﴾۔ظہور مہدی کا بھی منکر ہے ،...
نظریات جاوید احمد غامدی
سوال دین اسلام کامل و مکمل دین اور ربانی ضابطۂ حیات ہے، جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ بزرگ و برتر نے اپنے ذمہ لی ہے، اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں بہت سے فتنوں نے جنم لیا اور اسلامی عمارت کو ڈھانے کی بھر پور کوشش کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے علمائے امت کے ہاتھوں ان...
من سب نبیا فاقتلوہ
سوال : حدیث "من سب نبیا فاقتلوہ" کی تحقیق مطلوب ہے، آیا یہ حدیث صحیح اور قابل اعتبار ہے یا کہ نہیں؟غامدی چینل والے اس کو ناقابل اعتبار قرار دےرہے ہیں۔اس کا کیا جواب ہے؟ جواب اگرچہ بظاہربعض تجدد پسند لوگ حدیث کی قبولیت کے لیے قرآنی موافقت کو شرط قرار دیتے ہیں اور اسناد...
جاوید احمد غامدی کے نظریات
سوال : جاوید احمد غامدی کے نظریات کے بارے میں راہ نمائی فرمائیں، کہاں تک ان کا اعتبار کرنا درست ہے؟ جواب جاوید احمد غامدی کے بہت سے نظریات قرآن و حدیث کے صریح نصوص کے خلاف اور اہلِ سنت و الجماعت کے اجماعی و اتفاقی عقائد سے متصادم ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں الف۔ ...
مفتی عبد الواحد
یہ تو توحید کے بارے میں غامدی صاحب کے فہم کا حاصل تھا۔ اب ذرا نبوت کے بارے میں بھی ان کے فرمودات ملاحظہ کیجئے۔ لکھتے ہیں:
“قرآن کی رو سے نبوت محمد عربی ﷺ پر ختم ہوگئی۔ اس کے معنی بالید اہریں یہ ہیں کہ اب نہ کسی کے لیے وحی والہام اور مشاہدہ غیب کا کوئی امکان ہے اور نہ اس بنا پر کوئی عصمت و حفاظت اب کسی کو حاصل ہو سکتی ہے۔ ختم نبوت کے یہ معنی خود نبی ﷺ نے بالصراحت بیان فرمائے ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے:
لم يبق من النبوة إلا المبشرات. قالوا وما المبشرات؟ قال الرويا الصالحة.“
نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں۔ لوگوں نے پوچھا یہ مبشرات کیا ہیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا اچھا خواب۔
اہل تصوف کے دین میں یہ سب چیزیں اب بھی حاصل ہو سکتی ہیں۔ ان کے نزدیک وحی اب بھی آتی ہے، فرشتے اب بھی اترتے ہیں، عالم غیب کا مشاہدہ اب بھی ہوتا ہے، اور ان کے اکابر اللہ کی ہدایت اب بھی وہیں سے پاتے ہیں جہاں سے جبریل امین اسے پاتے اور جہاں سے یہ بھی اللہ کے نبیوں نے پائی تھی۔
ان اکابر کا الہام ان کی عصمت کی وجہ سے قرآن مجید ہی کی طرح ہر شائبہ باطل سے پاک اور ہر شبہ سے بالا ہوتا ہے۔
ان کے نزدیک مقامات وہیہ میں سے پہلے مقام پر فائز ہستی اگر نمونہ کی مقلد بھی بظاہر نظر آتی ہے تو صرف اس وجہ سے کہ اسے غیب سے اس کی تائید کا حکم دیا جاتا ہے، ورنہ حقیقت یہی ہے کہ وہ ہدایت الہی اور علوم غیب کو پانے کے لیے کسی نبی یا فرشتے کی محتاج نہیں ہوتی۔
یہ بستی جب زمین پر موجود ہوتی ہے تو حق وہی قرار پاتا ہے جو اس کی زبان سے نکلتا ہے اور اس کے وجود سے صادر ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث کی حجت بھی اس کے سامنے اس کی اپنی حجت کے تابع ہوتی ہے۔
چنانچہ وہ دعوی کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی طرح ان کے بعض اکابر بھی آسمان پر گئے، تجلیات کا نظارہ کیا اور وہاں آپ ہی کی طرح مخاطبہ الہی سے سرفراز ہوئے۔
ان کا عقیدہ ہے کہ انسان کامل کی حیثیت سے نبی ہی ہر زمانے میں ان اکابر کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ بالصراحت کہتے ہیں کہ ختم نبوت کے معنی صرف یہی ہیں کہ منصب تشریح اب کسی شخص کو حاصل نہ ہوگا۔ نبوت کا مقام اور اس کے کمالات اسی طرح حاصل ہوتے ہیں اور سیاب بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔
اس کے بعد وہ آگے بڑھتے ہیں اور حریم نبوت میں یہ نقب لگانے کے بعد یہ واں یہ کمند آور، اے ہمت مردانہ کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے لامکاں کی پہنائیوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس وقت ان کے علم و تصرف کا عالم کیا ہوتا ہے؟
چنانچہ خدا کی بادشاہی میں وہ اس شان سے اس کے شریک ہو جاتے ہیں کہ خامرہ تقدیر کو لوح محفوظ پر لکھتے ہوئے ہر لحظہ دیکھتے، دل کے خیالات کو جانتے، اس عالم کی صبح و شام تھامتے، سنبھالتے اور عالم امر میں ذات خداوندی کا آلہ بن جاتے ہیں۔ [برہان ص 167-157، بحذف حوالجات]
توحید کی طرح نبوت کے میدان میں بھی غامدی صاحب نے صوفیہ کے بارے میں اپنی بدنظری کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ ذیل میں ہم ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں:
-
یہ حدیث کہ نبوت سے صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں اور ان سے مراد اچھا خواب ہے، اس سے غامدی صاحب کا یہ استدلال کہ الہام اور کشف اور مشاہدہ غیب کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں، باطل ہے۔ کیونکہ بخاری اور مسلم کی حدیث ہے:
“ولقد كان فيما قبلكم من الامم محدثون فان یک فی امتی احد فانه عمر”
تم سے پہلی امتوں میں محدث یعنی ایسے لوگ ہوتے تھے جن سے فرشتے باتیں کرتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی ایک بھی ایسا ہے تو وہ عمر ہیں۔
اس حدیث کا مقصد یہی بتاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی فرشتے باتیں کرتے تھے۔ نبی نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ وصف صرف میری حیات تک محدود ہے، بلکہ یہ وصف زندگی بھر کا ہے۔ لہٰذا یہ حدیث مبشرات والی حدیث کے لیے مزید تخصیص کا باعث ہے۔ علاوہ ازیں کشف، الہام اور مشاہدہ غیب نبوت کا خاصہ نہیں ہے۔ نبوت کا خاصہ تو وحی ہے جو اس کلام الہی کو کہتے ہیں جو کسی نبی کی طرف اتارا گیا ہے۔ ختم نبوت کی وجہ سے خواص نبوت کا انقطاع تو معقول ہے، غیر خواص کے انقطاع کی کوئی وجہ بھی تو نہیں۔ علاوہ ازیں یہ بات انسانی تجربات کے بھی خلاف ہے، اگرچہ یہ تجربات خاص خاص لوگوں کو ہوئے ہوں، مثلاً شاہ ولی اللہ، مجدد الف ثانی اور امام غزالی رحمہم اللہ۔
غرض ان تمام وجوہ سے یہ بات واضح ہے کہ حدیث کا مطلب صرف انقطاع وحی کو ذکر کرتا ہے، اور انکشاف غیب کے دیگر ذرائع جو خواص نبوت نہیں ہیں، مثلاً اچھے خواب اور کشف و الہام وغیرہ، یہ مستقلی ہیں۔ آخر اچھا خواب بھی تو انکشاف غیب ہی کا ذریعہ ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
No Results Found
The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.