طارق محمود ہاشمی تکفیر کے جواز کے بارے میں بعض متجددین نے ایک خلطِ مبحث پیدا کر دیا ہے، اسی سلسلے کی ایک کڑی جاوید غامدی صاحب کا ”جوابی بیانیہ“ بھی ہے، جس میں تکفیر کے مسئلے میں متشددانہ نقطہ اختیار کیا گیا ہے۔ ایک تو تکفیر کو سرے سے ممنوع قرار دیا ہے جس کی غرض یہ...
احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 2
غامدی صاحب کا اسلام : ارتداد کی سزا
ناقد : مفتی یاسر ندیم واجدی تلخیص : زید حسن سائل نوید افضل : غامدی صاحب "اعتراضات کا جائزہ" کے عنوان سے جوابات دے رہے ہیں ۔ جس میں ارتداد کی سزا کی بابت انہوں نے فرمایا ہے کہ اس کی سزا قتل نہیں ہے ۔ اسکی تین وجوہات انہوں نے ذکر کی ہیں ۔ اول ۔ لا اکراہ فی الدین سے...
فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن قطعی الدلالہ یا ظنی الدلالہ (قسط ششم)
ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر تلخیص : وقار احمد اس ویڈیو میں ہم میزان کے باب کلام کی دلالت پر گفتگو کریں گے غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ " دنیا کی ہر زندہ زبان کے الفاظ و اسالیب جن مفاہیم پر دلالت کرتے ہیں ، وہ سب متواترات پر مبنی اور ہر لحاظ سے بالکل قطعی ہوتے ہیں ۔ لغت و...
فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن فہمی کے بنیادی اصول (قسط پنجم)
ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر تلخیص : وقار احمد اس ویڈیو میں جمع و تدوین قرآن سے متعلق غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ لیا گیا ہے ، غامدی صاحب نے ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰنَہٗ ، فَاِذَا قَرَاْنٰہٗ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ ، ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ.(القیامہ ۷۵:...
اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط پنجم
مسرور اعظم فرخ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ریاست کو اسلامی قرار دینے کے بعد غامدی صاحب کے نزدیک’’تفریق پیدا ہو جانے سے مسلمانوں میں فساد برپا ہو گیا ‘‘تو یہ تفریق یا فساد ریاست کو اسلامی قرار دینے کے تصور نے پیدا نہیں کیا، بلکہ یہ اُنہی ’’بے توفیق فقیہان حرم کی‘‘...
اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط چہارم
مسرور اعظم فرخ ہر معاشرت ایک سیاسی نظام کے تحت ہی پنپتی ہے کسی عقیدے ہی کے تحت اپنی ساخت کو بروئے کار لاتی ہے اور اسے برقرار رکھتی ہے۔دنیا کی پوری سیاسی تاریخ میں کوئی ایک ریاست بھی ایسی نہیں گزری جو بغیر کسی عقیدے کی بنیاد کے وجود میں آگئی ہو۔ریاست کے اسلامی تصورّ سے...
مفتی عبد الواحد
-
زید اپنی تخلیقی قوت سے جس وقت عالم خیال میں بادشاہی مسجد کو پیدا کرتا ہے تو نہ زید بادشاہی مسجد بن جاتا ہے اور نہ ہی بادشاہی مسجد زید بن جاتی ہے۔ اس کے باوجود خیالی اور علمی بادشاہی مسجد کا وجود زید کے وجود اور ارادہ سے جدا نہیں ہے۔
-
زید جس وقت اپنی خیالی بادشاہی مسجد کو ذہن میں پیدا کرتا ہے تو اس کے کسی بھی حصہ سے اپنے آپ کو غائب نہیں پاتا۔
-
زید اپنی دینی و علمی مسجد کے مینار کو توڑ دے یا اس کے کسی حصہ میں کوئی خوشبو فرض کر لے تو اس توڑ پھوڑ اور خوشبو کا اثر زید پر نہیں پڑتا۔
-
زید جب خیالی بادشاہی مسجد کو پیدا کرتا ہے تو جہاں زید ہوتا ہے وہیں بادشاہی مسجد بھی ہوتی ہے۔
اس کے بعد ہم کہتے ہیں کہ ازل میں صرف اللہ تعالیٰ تھے اور ان کے ساتھ ان کے لامحدود کمالات و صفات تھے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات و صفات کا علم تھا۔
اللہ تعالی نے ازل ہی میں اپنی متعدد صفات کی بنیاد پر لا تعداد اشیائے عالم کا تصور کیا، مثلا انسان کے لیے اللہ تعالی نے اپنی صفت علم، مفت کلام، صفت قدرت، صفت تسمع و بصر، صفت حیات وغیرہ بہت سی صفات و کمالات کو ایک خاص مقدار میں اور ایک خاص ترتیب میں تصور کیا۔ ان کو اعیان ثابتہ کہا جاتا ہے اور ان کے تصور کو تو اتائی کہا جاتا ہے۔ پھر اس ترتیب کے ظہور کے لیے ایک وقت بھی مقرر فرما دیا۔
جب وہ مقررہ وقت آتا ہے تو علم الہی میں موجود یہ صورتیں شفاف آئینہ کی طرح پھیلے ہوئے نور کے وجود منبسط پر عکس کی طرح نظر آنے لگتے ہیں۔
جیسے آئینہ میں جو عکس نظر آتا ہے وہ محض خیال اور وہم ہوتا ہے، اس کا مستقل وجود نہیں ہوتا اور اس کی حقیقت وہ جسم ہوتا ہے جو آئینہ کے محاذی ہوتا ہے۔ اسی طرح اصل حقائق وہ اعیان ثابتہ ہیں جو علم الہی میں موجود ہیں اور سرسری نظر میں ہمیں خارج میں جو اشیاء نظر آتی ہیں وہ دراصل ان حقائق کے عکوس ہیں۔
خارجی وجود تو حقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کو حاصل ہے۔ اور اعیان ثابتہ کو اس حیثیت سے کہ وہ صفت علم ہے، ان کو بھی خارجی وجود اصل ہے۔ ان کے علاوہ اس طرح کا سا خارج میں موجود کوئی اور نہیں ہے۔ مذکورہ بالا امور کی بنا پر صوفیہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی طرح کا کسی کو خارج میں ماننا شرک ہے۔ یہ نہیں کہ وہ عالم کے وجود کو نہیں مانتے بلکہ ذات و صفات کے مقابلہ میں ان کے وجود کو عکس کی حیثیت دیتے ہیں۔
یہ وجود منضبط کیا ہے؟ یہ اللہ تعالی سے صادر ہونے والا سب سے پہلا طور ہے۔ اس کو ایسے خیال کریں جیسے آدمی کے لیے اس کا ذہنی میدان یا اس کی خواب کی دنیا، کہ ان کا صدور آدمی سے ہوتا ہے اور ان کا وجود آدمی کے وجود سے ہوتا ہے لیکن ان کا وجود بھی نہ آدمی کا وجود ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
No Results Found
The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.