احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 2

Published On September 27, 2025
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 40)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 40)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے اسی مسئلے پرآگے لکھا ہے کہ بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں ، چنگال والے پرندوں ، اورپالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایاہے ۔ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اسی فطرت کا بیان ہے   جس کا علم انسان...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 40)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 39)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی ،،طیبات اورخبائث ،، کی اس مبحث کو بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ،، جانوروں کی حلت وحرمت میں شریعت کا موضوع اصلا یہی چارہی چیزیں ہیں ۔چنانچہ قرآن نے بعض جگہ ،، قل لااجد فی ما اوحی الیّ ،، اور بعض جگہ ،، انما ،، کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 40)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 38)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی طیبات اورخبائث کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے اگے لکھتے ہیں ،، چانچہ شریعت کا موضوع اس باب میں صرف وہ جانوراور ان کے وہ متعلقات  ہیں   جن کی حلت وحرمت کا فیصلہ تنہا عقل وفطرت کی راہنمائی میں کرلینا انسان کےلیے ممکن نہ تھا...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 40)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 37)

مولانا واصل واسطی دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ  جناب غامدی صاحب  اپنی  باتیں اس طرح پیش کرتے ہیں  جیسے وہ دنیا کے مسلمہ حقائق ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ ،، انسانوں کی عادات کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ان کی بڑی تعداد اس معاملے   یعنی طیبات اور خبائث کے پہچاننے کے معاملے ،،...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 40)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 36)

مولانا واصل واسطی جمہورامت اس بات پر متفق ہیں  کہ مذکورہ تحریر میں درج  قرانی آیت مخصوص بالحدیث ہے۔  حج میں عرفہ اور مزدلفہ کے مقامات میں جمع بین الصلواتین ثابت ہے ، جمع تقدیم بھی ثابت ہے اورجمع تاخیر بھی ۔ ہاں اس میں بحث بہرحال موجود ہے کہ یہ سنت ہے یا مستحب ہے یا...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 40)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 35)

مولانا واصل واسطی اب ان مذکورہ سوالات کے بعد ایک اور بات کی طرف ہم دوستوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں ۔ اس کےبعد ہم اس دوسرے مسئلے کی طرف متوجہ ہونگے  جو جناب غامدی نے اس ،، قاعدے ،، کی مدد سے حل کیا ہے ۔ وہ بات یہ ہے کہ ہم جناب غامدی سے اس بات میں ( کچھ وقت کےلیے )...

مفتی عبد الواحد

  1. زید اپنی تخلیقی قوت سے جس وقت عالم خیال میں بادشاہی مسجد کو پیدا کرتا ہے تو نہ زید بادشاہی مسجد بن جاتا ہے اور نہ ہی بادشاہی مسجد زید بن جاتی ہے۔ اس کے باوجود خیالی اور علمی بادشاہی مسجد کا وجود زید کے وجود اور ارادہ سے جدا نہیں ہے۔

  2. زید جس وقت اپنی خیالی بادشاہی مسجد کو ذہن میں پیدا کرتا ہے تو اس کے کسی بھی حصہ سے اپنے آپ کو غائب نہیں پاتا۔

  3. زید اپنی دینی و علمی مسجد کے مینار کو توڑ دے یا اس کے کسی حصہ میں کوئی خوشبو فرض کر لے تو اس توڑ پھوڑ اور خوشبو کا اثر زید پر نہیں پڑتا۔

  4. زید جب خیالی بادشاہی مسجد کو پیدا کرتا ہے تو جہاں زید ہوتا ہے وہیں بادشاہی مسجد بھی ہوتی ہے۔

اس کے بعد ہم کہتے ہیں کہ ازل میں صرف اللہ تعالیٰ تھے اور ان کے ساتھ ان کے لامحدود کمالات و صفات تھے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات و صفات کا علم تھا۔

اللہ تعالی نے ازل ہی میں اپنی متعدد صفات کی بنیاد پر لا تعداد اشیائے عالم کا تصور کیا، مثلا انسان کے لیے اللہ تعالی نے اپنی صفت علم، مفت کلام، صفت قدرت، صفت تسمع و بصر، صفت حیات وغیرہ بہت سی صفات و کمالات کو ایک خاص مقدار میں اور ایک خاص ترتیب میں تصور کیا۔ ان کو اعیان ثابتہ کہا جاتا ہے اور ان کے تصور کو تو اتائی کہا جاتا ہے۔ پھر اس ترتیب کے ظہور کے لیے ایک وقت بھی مقرر فرما دیا۔

جب وہ مقررہ وقت آتا ہے تو علم الہی میں موجود یہ صورتیں شفاف آئینہ کی طرح پھیلے ہوئے نور کے وجود منبسط پر عکس کی طرح نظر آنے لگتے ہیں۔

جیسے آئینہ میں جو عکس نظر آتا ہے وہ محض خیال اور وہم ہوتا ہے، اس کا مستقل وجود نہیں ہوتا اور اس کی حقیقت وہ جسم ہوتا ہے جو آئینہ کے محاذی ہوتا ہے۔ اسی طرح اصل حقائق وہ اعیان ثابتہ ہیں جو علم الہی میں موجود ہیں اور سرسری نظر میں ہمیں خارج میں جو اشیاء نظر آتی ہیں وہ دراصل ان حقائق کے عکوس ہیں۔

خارجی وجود تو حقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کو حاصل ہے۔ اور اعیان ثابتہ کو اس حیثیت سے کہ وہ صفت علم ہے، ان کو بھی خارجی وجود اصل ہے۔ ان کے علاوہ اس طرح کا سا خارج میں موجود کوئی اور نہیں ہے۔ مذکورہ بالا امور کی بنا پر صوفیہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی طرح کا کسی کو خارج میں ماننا شرک ہے۔ یہ نہیں کہ وہ عالم کے وجود کو نہیں مانتے بلکہ ذات و صفات کے مقابلہ میں ان کے وجود کو عکس کی حیثیت دیتے ہیں۔

یہ وجود منضبط کیا ہے؟ یہ اللہ تعالی سے صادر ہونے والا سب سے پہلا طور ہے۔ اس کو ایسے خیال کریں جیسے آدمی کے لیے اس کا ذہنی میدان یا اس کی خواب کی دنیا، کہ ان کا صدور آدمی سے ہوتا ہے اور ان کا وجود آدمی کے وجود سے ہوتا ہے لیکن ان کا وجود بھی نہ آدمی کا وجود ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

No Results Found

The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.