ڈاکٹر محمد زاہد مغل محترم غامدی صاحب سے جناب حسن شگری صاحب نے پروگرام میں سوال کیا کہ آپ وحدت الوجود پر نقد کرتے ہیں تو بتائیے آپ ربط الحادث بالقدیم کے مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں جو جواب دیا گیا وہ حیرت کی آخری حدوں کو چھونے والا تھا کہ اس سوال کا جواب...
احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 1
۔”حقیقت نبوت”: غامدی صاحب کے استدلال کی نوعیت
ڈاکٹر محمد زاہد مغل محترم غامدی صاحب اکثر و بیشتر دعوی تو نہایت عمومی اور قطعی کرتے ہیں لیکن اس کی دلیل میں قرآن کی آیت ایسی پیش کرتے ہیں جو ان کے دعوے سے دور ہوتی ہے۔ اس کا ایک مشاہدہ حقیقت نبوت کی بحث سے ملاحظہ کرتے ہیں، اسی تصور کو بنیاد بنا کر وہ صوفیا کی تبدیع و...
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ہفتم )
مولانا صفی اللہ مظاہر العلوم ، کوہاٹ اقدامی جہاد اور عام اخلاقی دائرہ:۔ یہاں اس بات کا جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جہا د اقدامی اور اس سے متعلقہ احکامات عام اخلاقی دائرے سے باہر ہیں یا نہیں؟ خالق کا ئنات نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر پیدا کیا ہے واذ قال ربك...
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )
مولانا صفی اللہ مظاہر العلوم ، کوہاٹ اقدامات صحابہ اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ قرآن وحدیث کے بعد اگلا مقدمہ یہ قائم کرتے ہیں کہ صحابہ کے جنگی اقدامات کے جغرافیائی اہداف محدود اور متعین تھے اور وہ جہاد اور فتوحات کے دائرے کو وسیع کرنے کی بجائے محدود رکھنے کے خواہش...
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط پنجم )
مولانا صفی اللہ مظاہر العلوم ، کوہاٹ احادیث اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو کوئی بھی ایک حدیث ایسی پیش نہیں کر سکے جو اس بات کی تائید کرے کہ جہاد کے اہداف محدود ہیں اور اس مشن کے پیش نظر صرف روم اور فارس کی سلطنتیں ہیں ۔ تاہم ایک حدیث ایسی...
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط چہارم )
مولانا صفی اللہ مظاہر العلوم ، کوہاٹ احکامات اسلام اور خطابات قرآنیہ کی عمومیت:۔ غامدی حضرات کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اقدامی قتال یا اسلام ، جزیہ اور قتل کا مطالبہ سامنے رکھنا عام خلاقی دائرے سے باہر ہے اس لیے وہ آیات واحادیث جن میں اس قسم کے احکامات مذکور ہیں ان کے...
مفتی عبد الواحد
غامدی صاحب عربی اشعار کی کچھ واقعیت اور اسلوب بیان کی نزاکتوں کے اختراع کو اپنی پونجی بتا کر عالمگیر منصف بن گئے ہیں اور ان کے قلم نے یہ فیصلہ بھی صادر کر دیا ہے کہ امام غزالی، حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ، حضرت سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید اور سلسلہ تصوف سے مسلک تمام حضرات عالمگیر ضلالت و گمراہی میں جتلا تھے۔
لکھتے ہیں:
“اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اللہ کی ہدایت یعنی اسلام کے مقابلے میں تصوف وہ عالمگیر ضلالت ہے جس نے دنیا کے ذہین ترین لوگوں کو متاثر کیا ہے۔” [رہبان: ۱۵۲]
غامدی صاحب کے ایسا کہنے کی وجہ دراصل ان کی بدنہنی ہے۔ صوفیاء کی بعض باتوں کی حقیقت یہ کچھ سمجھ نہ پائے اور جو کچھ غلط سمجھا اس پر اپنا فیصلہ دے دیا۔
بات یہ ہے کہ یہ انسانی فکری تاریخ کا پرانا سوال ہے کہ عالم کی حقیقت کیا ہے اور خدا نے عالم کو کسی طرح پیدا کیا ہے؟ دیگر مذاہب والوں نے بھی اس بارے میں خیال آرائی کی ہے اور فلاسفہ بھی اس عقدہ کو حل کرنے میں لگے رہے۔ محققین صوفیاء نے قرآن و سنت کی پوری پوری رعایت کرتے ہوئے اس سوال کا جواب دیا اور اس عقدہ کو حل کیا اور اس حل کا نام وحدۃ الوجود مشہور ہوا۔
ہمارے مادی عالم کی حقیقت کیا ہے؟ سائنسدان کہتے ہیں کہ یہاں جو کچھ ہے صرف Energy اور توانائی کی مختلف شکلیں ہیں۔ یہ توانائی کہاں سے آئی؟
ہم آگے کچھ کہیں، اس سے پہلے اس پر غور کریں کہ انسان جب عالم خیال میں عمل کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ میں اپنی ذہن کی دنیا میں مثلا بادشاہی مسجد کو پیدا کروں تو وہ ارادہ کرتا ہے اور بغیر کسی پتھر چونے کے محض اپنے علم اور اپنی معلومات کی بنیاد پر بادشاہی مسجد کو اپنے سامنے کھڑا پاتا ہے۔
اس طرح وہ اپنے علم میں بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی ہر قسم کی چیزوں کو پیدا کرتا ہے۔ فلاسفہ اسلام اور صوفیہ کا نظریہ ہے کہ انسان کو جب کسی چیز کا علم حواس کے ذریعہ سے ہوتا ہے تو اس علمی اثر کے بعد انسان میں اس کی قدرت پیدا ہو جاتی ہے کہ اپنی معلوم کی ہوئی شے کو اپنی خیالی قوت سے پیدا کرے اور یہی انسان کا تخلیقی محمل ہے۔
انسان کی خیالی و علمی مخلوقات کے ساتھ اس کے تعلقات ملاحظہ ہوں:
-
ہمارے خیال و علم میں بھی کوئی مادہ نہیں ہوتا، محض اپنے ارادہ سے اپنی معلومات کو ہم وجود عطا کرتے ہیں۔
-
ہماری تخلیقی قوت چونکہ ضعیف ہوتی ہے، اس لیے عام طور سے ہماری ذہنی مخلوقات کا وجود صرف ذہنی ہوتا ہے، خارجی نہیں ہوتا۔ صرف ذہنی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ہم عام طور سے کسی خیالی تلوق پر چند سیکنڈ سے زیادہ اپنی توجہ قائم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن وہ لوگ جو دیر تک کسی ایک نقطہ پر توجہ کو مرکوز کرنے کی مشق بہم پہنچا لیتے ہیں، بتدریج ان کی ذہنی مخلوقات بھی خارجی وجود کا بھیس بدلنے لگتی ہیں، حتی کہ دوسروں کو بھی اس کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جادوگروں کی نظر بندی سے رسیاں دوڑتے ہوئے سانپ نظر آنے لگے۔ بعض بیماریوں میں Hallucinations یعنی خیالات جسمانی تشکلات اختیار کر لیتے ہیں جن کو آدمی اپنے حواس سے محسوس کرتا ہے۔
-
صرف توجہ ہٹا لینے سے ہماری خیالی مخلوقات کوئی مادہ چھوڑے بغیر معدوم ہو جاتی ہیں۔
-
ہماری خیالی مخلوقات ہر لحظہ اور ہر لمحہ اپنے قیام و بقا میں بھی ہماری توجہ اور التفات کی محتاج ہوتی ہیں۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
No Results Found
The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.