احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 1

Published On September 27, 2025
عدت میں نکاح: جناب محمد حسن الیاس کی عذر خواہی پر تبصرہ : قسط اول

عدت میں نکاح: جناب محمد حسن الیاس کی عذر خواہی پر تبصرہ : قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت میں نکاح کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی اور جناب محمد حسن الیاس کی وڈیو کلپ پر میں نے تبصرہ کیا تھا اور ان کے موقف کی غلطیاں واضح کی تھیں۔ (حسب معمول) غامدی صاحب نے تو جواب دینے سے گریز کی راہ اختیار کی ہے، لیکن حسن صاحب کی عذر خواہی آگئی ہے۔...

عدت کے دوران نکاح پر غامدی صاحب اور انکے داماد کی غلط فہمیاں

عدت کے دوران نکاح پر غامدی صاحب اور انکے داماد کی غلط فہمیاں

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت کے دوران میں نکاح کے متعلق غامدی صاحب اور ان کے داماد کی گفتگو کا ایک کلپ کسی نے شیئر کیا اور اسے دیکھ کر پھر افسوس ہوا کہ بغیر ضروری تحقیق کیے دھڑلے سے بڑی بڑی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اگر غامدی صاحب اور ان کے داماد صرف اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے،...

حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع الی السماء اور غامدی موقف

حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع الی السماء اور غامدی موقف

مولانا محبوب احمد سرگودھا اسلامی عقائد انتہائی محکم ، واضح اور مدلل و مبرہن ہیں ، ان میں تشکیک و تو ہم کی گنجائش نہیں ہے۔ ابتدا ہی سے عقائد کا معاملہ انتہائی نازک رہا ہے، عقائد کی حفاظت سے اسلامی قلعہ محفوظ رہتا ہے۔ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہی سے کئی افراد اور جماعتوں...

مسئلہ نزولِ عیسی اور قرآن

مسئلہ نزولِ عیسی اور قرآن

بنیاد پرست غامدی صاحب لکھتے ہیں :۔ ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہو جانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ لیکن موقعِ بیان کے باوجود اس واقعہ کی طرف کوئی ادنی اشارہ بھی قرآن کے بین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ علم و عقل اس خاموشی پر مطمئن ہو سکتے ہیں...

مسئلہ حیاتِ عیسی اور قرآن : لفظِ توفی کی قرآن سے وضاحت

مسئلہ حیاتِ عیسی اور قرآن : لفظِ توفی کی قرآن سے وضاحت

بنیاد پرست قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ جب یہود نے عیسی علیہ السلام کو صلیب دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تو قرآن نے جو فرمایا کہ” اللہ نے انہیں اپنی طرف بلند کر دیا “وہ حقیقت میں انہیں بلند نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کے درجات بلند کر دیے گئے تھے ، اس جگہ پر درجات کے بلندی کا...

غامدی صاحب کا استدلال کیوں غلط ہے ؟

غامدی صاحب کا استدلال کیوں غلط ہے ؟

صفتین خان غامدی صاحب کا تازہ بیان سن کر صدمے اور افسوس کے ملے جلے جذبات ہیں۔ یہ توقع نہیں تھی وہ اس حد تک جا کر خاکی فصیل کا دفاع کریں گے۔ یہ خود ان کے اوپر اتمام حجت ہے۔ ان کے انکار کے باوجود فوجی بیانیہ کے خلاف ان کے تمام سابقہ فلسفے اس تازہ کلام سے منسوخ و کالعدم...

مفتی عبد الواحد

غامدی صاحب عربی اشعار کی کچھ واقعیت اور اسلوب بیان کی نزاکتوں کے اختراع کو اپنی پونجی بتا کر عالمگیر منصف بن گئے ہیں اور ان کے قلم نے یہ فیصلہ بھی صادر کر دیا ہے کہ امام غزالی، حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ، حضرت سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید اور سلسلہ تصوف سے مسلک تمام حضرات عالمگیر ضلالت و گمراہی میں جتلا تھے۔

لکھتے ہیں:
“اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اللہ کی ہدایت یعنی اسلام کے مقابلے میں تصوف وہ عالمگیر ضلالت ہے جس نے دنیا کے ذہین ترین لوگوں کو متاثر کیا ہے۔” [رہبان: ۱۵۲]

غامدی صاحب کے ایسا کہنے کی وجہ دراصل ان کی بدنہنی ہے۔ صوفیاء کی بعض باتوں کی حقیقت یہ کچھ سمجھ نہ پائے اور جو کچھ غلط سمجھا اس پر اپنا فیصلہ دے دیا۔

بات یہ ہے کہ یہ انسانی فکری تاریخ کا پرانا سوال ہے کہ عالم کی حقیقت کیا ہے اور خدا نے عالم کو کسی طرح پیدا کیا ہے؟ دیگر مذاہب والوں نے بھی اس بارے میں خیال آرائی کی ہے اور فلاسفہ بھی اس عقدہ کو حل کرنے میں لگے رہے۔ محققین صوفیاء نے قرآن و سنت کی پوری پوری رعایت کرتے ہوئے اس سوال کا جواب دیا اور اس عقدہ کو حل کیا اور اس حل کا نام وحدۃ الوجود مشہور ہوا۔

ہمارے مادی عالم کی حقیقت کیا ہے؟ سائنسدان کہتے ہیں کہ یہاں جو کچھ ہے صرف Energy اور توانائی کی مختلف شکلیں ہیں۔ یہ توانائی کہاں سے آئی؟

ہم آگے کچھ کہیں، اس سے پہلے اس پر غور کریں کہ انسان جب عالم خیال میں عمل کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ میں اپنی ذہن کی دنیا میں مثلا بادشاہی مسجد کو پیدا کروں تو وہ ارادہ کرتا ہے اور بغیر کسی پتھر چونے کے محض اپنے علم اور اپنی معلومات کی بنیاد پر بادشاہی مسجد کو اپنے سامنے کھڑا پاتا ہے۔

اس طرح وہ اپنے علم میں بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی ہر قسم کی چیزوں کو پیدا کرتا ہے۔ فلاسفہ اسلام اور صوفیہ کا نظریہ ہے کہ انسان کو جب کسی چیز کا علم حواس کے ذریعہ سے ہوتا ہے تو اس علمی اثر کے بعد انسان میں اس کی قدرت پیدا ہو جاتی ہے کہ اپنی معلوم کی ہوئی شے کو اپنی خیالی قوت سے پیدا کرے اور یہی انسان کا تخلیقی محمل ہے۔

انسان کی خیالی و علمی مخلوقات کے ساتھ اس کے تعلقات ملاحظہ ہوں:

  1. ہمارے خیال و علم میں بھی کوئی مادہ نہیں ہوتا، محض اپنے ارادہ سے اپنی معلومات کو ہم وجود عطا کرتے ہیں۔

  2. ہماری تخلیقی قوت چونکہ ضعیف ہوتی ہے، اس لیے عام طور سے ہماری ذہنی مخلوقات کا وجود صرف ذہنی ہوتا ہے، خارجی نہیں ہوتا۔ صرف ذہنی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ہم عام طور سے کسی خیالی تلوق پر چند سیکنڈ سے زیادہ اپنی توجہ قائم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن وہ لوگ جو دیر تک کسی ایک نقطہ پر توجہ کو مرکوز کرنے کی مشق بہم پہنچا لیتے ہیں، بتدریج ان کی ذہنی مخلوقات بھی خارجی وجود کا بھیس بدلنے لگتی ہیں، حتی کہ دوسروں کو بھی اس کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جادوگروں کی نظر بندی سے رسیاں دوڑتے ہوئے سانپ نظر آنے لگے۔ بعض بیماریوں میں Hallucinations یعنی خیالات جسمانی تشکلات اختیار کر لیتے ہیں جن کو آدمی اپنے حواس سے محسوس کرتا ہے۔

  3. صرف توجہ ہٹا لینے سے ہماری خیالی مخلوقات کوئی مادہ چھوڑے بغیر معدوم ہو جاتی ہیں۔

  4. ہماری خیالی مخلوقات ہر لحظہ اور ہر لمحہ اپنے قیام و بقا میں بھی ہماری توجہ اور التفات کی محتاج ہوتی ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

No Results Found

The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.