احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 1

Published On September 27, 2025
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط سوم

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط سوم

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر امام شاطبیؒ کا موقف امام شاطبیؒ کا موقف بھی وہی ہے جو کہ امام شافعی ؒ کاہے کہ سنت نہ توقرآن کو منسوخ کرتی ہے اور نہ ہی اس کے کسی حکم پر اضافہ کرتی ہے بلکہ یہ اس کا بیان(یعنی قرآن کے اجمال کیتفصیل‘ مشکل کا بیان‘مطلق کی مقید اور عام کی مخصص) ہے۔امام...

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط سوم

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط دوم

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر قرآن وسنت کا باہمی تعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے مُبَیّن(وضاحت اورتشریح کرنے والے) ہیں اور جناب غامدی صاحب بھی اس بات کو مانتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب ’برہان‘ میں قرآن و سنت کے باہمی تعلق کے عنوان سے اس موضوع پر مفصل گفتگو کی...

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط سوم

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط اول

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر ہر دور میں انسان اپنے’ ما فی الضمیر ‘ کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے زبان کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ انسان اپنے خیالات ‘افکار ‘نظریات‘جذبات اور احساسات کو اپنے ہی جیسے دوسرے افراد تک پہنچانے کے لیے الفاظ کو وضع کرتے ہیں۔ کسی بھی زبان...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسط ہشتم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسط ہشتم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ایک اور مغالطہ انگیزی اور علماپر طعنہ زنی  غامدی صاحب فرماتے ہیں ’’الائمۃ من قریش مشہور روایت ہے؛ (مسند احمد،رقم 11898 ) اس حدیث کے ظاہر الفاظ سے ہمارے علما اس غلط فہمی میں مبتلاہو گئے کہ مسلما نوں کے حکم ران صرف قریش میں سے ہوں گے، دراں...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسط ہشتم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسط ہفتم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف روایات رجم میں جمع و تطبیق کے بعدباہم کوئی تعارض نہیں رہتا روایات رجم کے اس تبصرۂ نا مر ضیہ میں البتہ دو چیزوں نہایت قابل غور ہیں جو ان فی ذلک لعبرۃ لمن کان لہ قلب او القی السمع وھو شھید کی مصداق ہیں ایک یہ کہ رجم کی کئی حدیثوں میں اس حد کو...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسط ہشتم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسط ششم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف آیت محاربہ کی رْو سے عہد رسالت کے مجرم سزا کے نہیں ،معافی کے مستحق تھے فراہی گروہ کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آئی کہ محاربہ کی سزا کی بابت تو ا للہ نے فرمایا ہے کہ فساد فی الا رض کے یہ مجرم اگر قابو میں آنے سے پہلے ہی تائب ہو جائیں توان کی...

مفتی عبد الواحد

غامدی صاحب عربی اشعار کی کچھ واقعیت اور اسلوب بیان کی نزاکتوں کے اختراع کو اپنی پونجی بتا کر عالمگیر منصف بن گئے ہیں اور ان کے قلم نے یہ فیصلہ بھی صادر کر دیا ہے کہ امام غزالی، حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ، حضرت سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید اور سلسلہ تصوف سے مسلک تمام حضرات عالمگیر ضلالت و گمراہی میں جتلا تھے۔

لکھتے ہیں:
“اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اللہ کی ہدایت یعنی اسلام کے مقابلے میں تصوف وہ عالمگیر ضلالت ہے جس نے دنیا کے ذہین ترین لوگوں کو متاثر کیا ہے۔” [رہبان: ۱۵۲]

غامدی صاحب کے ایسا کہنے کی وجہ دراصل ان کی بدنہنی ہے۔ صوفیاء کی بعض باتوں کی حقیقت یہ کچھ سمجھ نہ پائے اور جو کچھ غلط سمجھا اس پر اپنا فیصلہ دے دیا۔

بات یہ ہے کہ یہ انسانی فکری تاریخ کا پرانا سوال ہے کہ عالم کی حقیقت کیا ہے اور خدا نے عالم کو کسی طرح پیدا کیا ہے؟ دیگر مذاہب والوں نے بھی اس بارے میں خیال آرائی کی ہے اور فلاسفہ بھی اس عقدہ کو حل کرنے میں لگے رہے۔ محققین صوفیاء نے قرآن و سنت کی پوری پوری رعایت کرتے ہوئے اس سوال کا جواب دیا اور اس عقدہ کو حل کیا اور اس حل کا نام وحدۃ الوجود مشہور ہوا۔

ہمارے مادی عالم کی حقیقت کیا ہے؟ سائنسدان کہتے ہیں کہ یہاں جو کچھ ہے صرف Energy اور توانائی کی مختلف شکلیں ہیں۔ یہ توانائی کہاں سے آئی؟

ہم آگے کچھ کہیں، اس سے پہلے اس پر غور کریں کہ انسان جب عالم خیال میں عمل کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ میں اپنی ذہن کی دنیا میں مثلا بادشاہی مسجد کو پیدا کروں تو وہ ارادہ کرتا ہے اور بغیر کسی پتھر چونے کے محض اپنے علم اور اپنی معلومات کی بنیاد پر بادشاہی مسجد کو اپنے سامنے کھڑا پاتا ہے۔

اس طرح وہ اپنے علم میں بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی ہر قسم کی چیزوں کو پیدا کرتا ہے۔ فلاسفہ اسلام اور صوفیہ کا نظریہ ہے کہ انسان کو جب کسی چیز کا علم حواس کے ذریعہ سے ہوتا ہے تو اس علمی اثر کے بعد انسان میں اس کی قدرت پیدا ہو جاتی ہے کہ اپنی معلوم کی ہوئی شے کو اپنی خیالی قوت سے پیدا کرے اور یہی انسان کا تخلیقی محمل ہے۔

انسان کی خیالی و علمی مخلوقات کے ساتھ اس کے تعلقات ملاحظہ ہوں:

  1. ہمارے خیال و علم میں بھی کوئی مادہ نہیں ہوتا، محض اپنے ارادہ سے اپنی معلومات کو ہم وجود عطا کرتے ہیں۔

  2. ہماری تخلیقی قوت چونکہ ضعیف ہوتی ہے، اس لیے عام طور سے ہماری ذہنی مخلوقات کا وجود صرف ذہنی ہوتا ہے، خارجی نہیں ہوتا۔ صرف ذہنی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ہم عام طور سے کسی خیالی تلوق پر چند سیکنڈ سے زیادہ اپنی توجہ قائم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن وہ لوگ جو دیر تک کسی ایک نقطہ پر توجہ کو مرکوز کرنے کی مشق بہم پہنچا لیتے ہیں، بتدریج ان کی ذہنی مخلوقات بھی خارجی وجود کا بھیس بدلنے لگتی ہیں، حتی کہ دوسروں کو بھی اس کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جادوگروں کی نظر بندی سے رسیاں دوڑتے ہوئے سانپ نظر آنے لگے۔ بعض بیماریوں میں Hallucinations یعنی خیالات جسمانی تشکلات اختیار کر لیتے ہیں جن کو آدمی اپنے حواس سے محسوس کرتا ہے۔

  3. صرف توجہ ہٹا لینے سے ہماری خیالی مخلوقات کوئی مادہ چھوڑے بغیر معدوم ہو جاتی ہیں۔

  4. ہماری خیالی مخلوقات ہر لحظہ اور ہر لمحہ اپنے قیام و بقا میں بھی ہماری توجہ اور التفات کی محتاج ہوتی ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

No Results Found

The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.