مولانا واصل واسطی روزہ میں مباشرت اورلزومِ کفارہ کی بات ہم اگے کرلیں گے فی الحال ایک اوربات کی طرف ہم لوگوں کو متوجہ کرنا چاھتے ہیں۔ وہ بات یہ ہے کہ ،، تبیین ،، سنت ،، اور،، آحادیث ،، کے متعلق ہم نے جناب غامدی کی طویل عبارتیں پہلے پیش کی ہیں جس میں انہوں نے چند...
احسان و تصوف اور غامدی صاحب کی بدفہمی – 1
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 57)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی روزہ کو بھی ان سنن میں داخل کرتے ہیں جوان کے بقول ،، دینِ ابراہیمی ،، کے باقیات میں سے ہے ۔ہم اس کے متعلق چند باتیں کرتے ہیں (1) پہلی بات یہ ہے کہ جناب غامدی کو اس سنت کے اثبات کےلیے کہ ،، روزہ ،، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کی نبوت سے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 56)
مولانا واصل واسطی ہم نے گذشتہ قسط میں روزہ کے متعلق جناب غامدی کے تصورکا جائزہ لیا ہے۔ اس میں بہت ساری دیگر باتیں آگئی ہیں اس لیے بات پوری نہیں ہو سکی تھی۔ اب ہم اسی روزے کے تعلق سے چند مزید باتیں ادھر عرض کرتے ہیں (1) پہلی بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے روزہ کے بارے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 55)
مولانا واصل واسطی اس مبحث میں ہم ، روزہ ، وغیرہ پر بات کریں گے ۔ جناب غامدی روزے کے متعلق لکھتے ہیں ،، وہ روزہ اسی طرح رکھتے تھے جس طرح اب ہم رکھتے ہیں ( میزان ص 45) یہ بات بھی جناب غامدی نے حافظ محب کی کتاب سے لی ہے ۔مگر اس بات کے لیے حوالہ دینے میں خوب ڈندی ماری ہے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 54)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی اگلی چیز یعنی سنتِ ابراہیمی نمازِجنازہ کو قرار دیتے ہیں ۔لکھاہے کہ ،، نمازِجنازہ بھی وہ پڑھتے تھے ( میزان ص 45) اس بات کے لیے جناب نے جواد علی کی ،، المفصل فی تاریخ العرب ،، کاحوالہ دیا ہے ۔ یہ کتاب ہمارے پاس نہیں ہے ،نہ ہم نے دیکھی ہے اس...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 53)
مولانا واصل واسطی سنتِ ابراہیمی کے متعلق تیسرے اصول میں جناب غامدی نے یہ بات لکھی ہے ، کہ سنت وہ ہے جو قران کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے شروع ہوجائے ۔ اور وہ عملی چیز ہو ، اس کا ذکر اگر قران میں آتا بھی ہے تو صرف تاکید اورتقویت کےلیے ۔، انہوں نے لکھا ہے...
مفتی عبد الواحد
غامدی صاحب عربی اشعار کی کچھ واقعیت اور اسلوب بیان کی نزاکتوں کے اختراع کو اپنی پونجی بتا کر عالمگیر منصف بن گئے ہیں اور ان کے قلم نے یہ فیصلہ بھی صادر کر دیا ہے کہ امام غزالی، حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ، حضرت سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید اور سلسلہ تصوف سے مسلک تمام حضرات عالمگیر ضلالت و گمراہی میں جتلا تھے۔
لکھتے ہیں:
“اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اللہ کی ہدایت یعنی اسلام کے مقابلے میں تصوف وہ عالمگیر ضلالت ہے جس نے دنیا کے ذہین ترین لوگوں کو متاثر کیا ہے۔” [رہبان: ۱۵۲]
غامدی صاحب کے ایسا کہنے کی وجہ دراصل ان کی بدنہنی ہے۔ صوفیاء کی بعض باتوں کی حقیقت یہ کچھ سمجھ نہ پائے اور جو کچھ غلط سمجھا اس پر اپنا فیصلہ دے دیا۔
بات یہ ہے کہ یہ انسانی فکری تاریخ کا پرانا سوال ہے کہ عالم کی حقیقت کیا ہے اور خدا نے عالم کو کسی طرح پیدا کیا ہے؟ دیگر مذاہب والوں نے بھی اس بارے میں خیال آرائی کی ہے اور فلاسفہ بھی اس عقدہ کو حل کرنے میں لگے رہے۔ محققین صوفیاء نے قرآن و سنت کی پوری پوری رعایت کرتے ہوئے اس سوال کا جواب دیا اور اس عقدہ کو حل کیا اور اس حل کا نام وحدۃ الوجود مشہور ہوا۔
ہمارے مادی عالم کی حقیقت کیا ہے؟ سائنسدان کہتے ہیں کہ یہاں جو کچھ ہے صرف Energy اور توانائی کی مختلف شکلیں ہیں۔ یہ توانائی کہاں سے آئی؟
ہم آگے کچھ کہیں، اس سے پہلے اس پر غور کریں کہ انسان جب عالم خیال میں عمل کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ میں اپنی ذہن کی دنیا میں مثلا بادشاہی مسجد کو پیدا کروں تو وہ ارادہ کرتا ہے اور بغیر کسی پتھر چونے کے محض اپنے علم اور اپنی معلومات کی بنیاد پر بادشاہی مسجد کو اپنے سامنے کھڑا پاتا ہے۔
اس طرح وہ اپنے علم میں بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی ہر قسم کی چیزوں کو پیدا کرتا ہے۔ فلاسفہ اسلام اور صوفیہ کا نظریہ ہے کہ انسان کو جب کسی چیز کا علم حواس کے ذریعہ سے ہوتا ہے تو اس علمی اثر کے بعد انسان میں اس کی قدرت پیدا ہو جاتی ہے کہ اپنی معلوم کی ہوئی شے کو اپنی خیالی قوت سے پیدا کرے اور یہی انسان کا تخلیقی محمل ہے۔
انسان کی خیالی و علمی مخلوقات کے ساتھ اس کے تعلقات ملاحظہ ہوں:
-
ہمارے خیال و علم میں بھی کوئی مادہ نہیں ہوتا، محض اپنے ارادہ سے اپنی معلومات کو ہم وجود عطا کرتے ہیں۔
-
ہماری تخلیقی قوت چونکہ ضعیف ہوتی ہے، اس لیے عام طور سے ہماری ذہنی مخلوقات کا وجود صرف ذہنی ہوتا ہے، خارجی نہیں ہوتا۔ صرف ذہنی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ہم عام طور سے کسی خیالی تلوق پر چند سیکنڈ سے زیادہ اپنی توجہ قائم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن وہ لوگ جو دیر تک کسی ایک نقطہ پر توجہ کو مرکوز کرنے کی مشق بہم پہنچا لیتے ہیں، بتدریج ان کی ذہنی مخلوقات بھی خارجی وجود کا بھیس بدلنے لگتی ہیں، حتی کہ دوسروں کو بھی اس کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جادوگروں کی نظر بندی سے رسیاں دوڑتے ہوئے سانپ نظر آنے لگے۔ بعض بیماریوں میں Hallucinations یعنی خیالات جسمانی تشکلات اختیار کر لیتے ہیں جن کو آدمی اپنے حواس سے محسوس کرتا ہے۔
-
صرف توجہ ہٹا لینے سے ہماری خیالی مخلوقات کوئی مادہ چھوڑے بغیر معدوم ہو جاتی ہیں۔
-
ہماری خیالی مخلوقات ہر لحظہ اور ہر لمحہ اپنے قیام و بقا میں بھی ہماری توجہ اور التفات کی محتاج ہوتی ہیں۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
No Results Found
The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.