غامدی صاحب کی قرآن فہمی- قسط سوم

Published On September 27, 2025
معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق کے جواب میں

معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق کے جواب میں

ابو عمار زاہد الراشدی محترم جاوید احمد غامدی کے بعض ارشادات کے حوالے سے جو گفتگو کچھ عرصے سے چل رہی ہے اس کے ضمن میں ان کے دو شاگردوں جناب معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق خان نے ماہنامہ اشراق لاہور کے مئی ۲۰۰۱ء کے شمارے میں کچھ مزید خیالات کا اظہار کیا ہے جن کے بارے میں...

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط چہارم

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط چہارم

(ڈاکٹر حافظ محمد زبیر) امام ابن قیمؒ کا موقف امام صاحب سنت کے ذریعے قرآن کے نسخ کے قائل نہیں ہیں اور سنت کو ہر صورت میں قرآن کا بیان ہی ثابت کرتے ہیں۔ امام ابن قیمؒ نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ متقدمین علمائے سلف تخصیص ‘تقیید وغیرہ کے لیے بھی نسخ کا لفظ استعمال کر...

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط سوم

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط سوم

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر امام شاطبیؒ کا موقف امام شاطبیؒ کا موقف بھی وہی ہے جو کہ امام شافعی ؒ کاہے کہ سنت نہ توقرآن کو منسوخ کرتی ہے اور نہ ہی اس کے کسی حکم پر اضافہ کرتی ہے بلکہ یہ اس کا بیان(یعنی قرآن کے اجمال کیتفصیل‘ مشکل کا بیان‘مطلق کی مقید اور عام کی مخصص) ہے۔امام...

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط سوم

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط دوم

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر قرآن وسنت کا باہمی تعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے مُبَیّن(وضاحت اورتشریح کرنے والے) ہیں اور جناب غامدی صاحب بھی اس بات کو مانتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب ’برہان‘ میں قرآن و سنت کے باہمی تعلق کے عنوان سے اس موضوع پر مفصل گفتگو کی...

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط سوم

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط اول

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر ہر دور میں انسان اپنے’ ما فی الضمیر ‘ کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے زبان کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ انسان اپنے خیالات ‘افکار ‘نظریات‘جذبات اور احساسات کو اپنے ہی جیسے دوسرے افراد تک پہنچانے کے لیے الفاظ کو وضع کرتے ہیں۔ کسی بھی زبان...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسط ہشتم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسط ہشتم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ایک اور مغالطہ انگیزی اور علماپر طعنہ زنی  غامدی صاحب فرماتے ہیں ’’الائمۃ من قریش مشہور روایت ہے؛ (مسند احمد،رقم 11898 ) اس حدیث کے ظاہر الفاظ سے ہمارے علما اس غلط فہمی میں مبتلاہو گئے کہ مسلما نوں کے حکم ران صرف قریش میں سے ہوں گے، دراں...

مفتی ابو لبابہ

(7) غامدی صاحب نے سورۃ الأعلى کی اس آیت: “قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى” کا ترجمہ کیا ہے:
“یقیناً فلاح پائی جس نے پاکیزگی اختیار کی۔” (میزان، ص: 1102)

یہ ترجمہ اپنی جگہ درست ہے، لیکن آگے چل کر انہوں نے “پاکیزگی اختیار کی” سے مراد “زکوٰۃ الفطر” لینا قرار دیا ہے، حالانکہ اس تفسیر کی نہ کوئی دلیل قرآن سے ہے، نہ حدیث سے اور نہ ہی کسی مفسر نے اس کی تائید کی ہے۔

بلکہ مفسرین کے نزدیک اس آیت میں مراد ہے کہ “فلاح پا گیا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا، گناہوں سے بچا، اور ایمان و عمل صالح اختیار کیا۔”

(8) اسی طرح غامدی صاحب نے سورۃ المدثر کی آیت: “ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا” کا ترجمہ کیا ہے:
“مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔” (میزان، ص: 1120)

یہ ترجمہ بظاہر درست معلوم ہوتا ہے، مگر آگے چل کر وہ “وحیداً” کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ “اس کے پاس کوئی مال و اولاد نہ تھی۔” حالانکہ عربی میں “وحید” کے معنی ہیں “اکیلا”، “تنہا”، اور یہ بات پیدائش کی حالت پر دلالت کرتی ہے۔

لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ “اسے میں نے تنہا پیدا کیا، کسی کے ساتھ نہیں۔” اس کو مال و اولاد کی نفی پر محمول کرنا سیاق کے بھی خلاف ہے اور لغت کے بھی۔

(9) اسی طرح سورۃ العلق کی پہلی وحی کو غامدی صاحب نے “اقْرَأْ” کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مراد “پڑھ کر سنانا” ہے، حالانکہ یہاں “اقْرَأْ” کا مطلب ہے “پڑھنا”، “تلاوت کرنا”، جیسا کہ پوری امت کے مفسرین اور محدثین کا فہم ہے۔

پھر قاعدہ یہ ہے کہ بحث سے متعلق تمام روایات کو ملحوظ رکھ کر الفاظ کا معنی بیان کیا جاتا ہے۔ مگر غامدی صاحب پر تعجب ہے کہ انہوں نے بحث بھی حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ کے حوالہ سے کی ہے جو کہ خود غار حراء میں پہلی وحی میں سورۃ العلق کی ابتدائی آیات کے نزول والی حدیث روایت کرنے والی ہیں۔ اس کو چھوڑ کر اسی بحث سے متعلق روایت کے الفاظ کا ترجمہ کرنے کو اصول سے ناواقفیت نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟

(10) غامدی صاحب نے حضرت ابن عباسؓ کا ارشاد نقل کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے:
“حدِّث الناس كل جمعة مرة.”
یعنی: “لوگوں کو ہر جمعہ کے دن وعظ و نصیحت کیا کرو۔” (میزان، ص: 575)

غامدی صاحب کا “كل جمعة مرة” کا ترجمہ “ہر جمعہ کے دن” کرنا بالکل لفظی ہے، اس لیے کہ اس سے خصوصیت کے ساتھ جمعہ کے دن وعظ و نصیحت کرنا ظاہر ہوتا ہے، جبکہ مراد “ہفتے میں ایک مرتبہ” ہے۔

جیسا کہ اگلے جملے میں خود غامدی صاحب نے ترجمہ کیا ہے: “ہفتے میں دو مرتبہ”، جب کہ “فإن أبيت فمرتين” کا ترجمہ ہے “پھر اگر اس سے زیادہ ہو تو ہفتے میں دو مرتبہ۔” تو “كل جمعة مرة” کا ترجمہ بھی “ہفتے میں ایک مرتبہ” ہی ہوگا۔ اس کا ترجمہ “ہر جمعہ کے دن” کرنا بالکل غلط ہے۔


قارئین کرام!

ہم نے غامدی صاحب کی صرف ایک معرکۃ الآراء کتاب سے چند مثالیں پیش کی ہیں جن سے ان کی عربی زبان میں دسترس کو اجاگر کیا ہے تاکہ عوام الناس جان لیں کہ عربی عبارات کا صحیح ترجمہ بھی نہ کر سکنے والے کے بارے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر اور اس پر بحث کرنے کی اہلیت رکھتا ہے؟

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو ناقلین کے زمرے میں شمار کرنا بھی بددیانتی ہے۔ پھر غامدی صاحب اپنی اس مزعومہ استعداد و صلاحیت کے بل بوتے پر جن ملحدانہ اور گمراہانہ نظریات کا پرچار کر رہے ہیں، ان کے اور ان جیسے دیگر باطل نظریات کا پرچار کرنے والوں کے شر سے اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کی حفاظت فرمائے۔

آمین یا رب العالمین۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…