مولانا واصل واسطی چوتھے اعتراض میں جناب غامدی لکھتے ہیں کہ ،، یہی معاملہ ان روایتوں کا بھی ہے جو سیدنا صدیق اور ان کے بعد سیدنا عثمان کے دور میں قرآن کی جمع وتدوین سے متعلق حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ قران جیسا کہ اس بحث کی ابتداء میں بیان ہوا ، اس معاملے میں...
غامدی صاحب کی قرآن فہمی- قسط سوم
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 29)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی مسئلہِ قراءآت پر چوتھا اعتراض یوں کرتے ہیں "کہ اس میں بعض دیگر چیزیں بھی ملاکر خوب زہرآلود جام بناکرعوام کے سامنے پلانے کےلیے رکھ دیتے ہیں ، ملاحظہ ہو ،، چہارم یہ کہ ہشام کے بارے میں معلوم ہے کہ فتحِ مکہ کے دن ایمان لائے تھے لہذااس روایت...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 28)
مولانا واصل واسطی تیسرااعترض جناب غامدی نے اس روایت پر یہ کیاہے کہ ،، سوم یہ کہ اختلاف اگر الگ الگ قبیلوں کے افراد میں بھی ہوتا تو ،، انزل ،، کالفظ اس روایت میں ناقابلِ توجیہ ہی تھا اس لیے کہ قران نے اپنے متعلق پوری صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے کہ وہ قریش کی زبان میں...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 27)
مولانا واصل واسطی تیسری گزارش جناب غامدی کے اس قول کے حوالے سے یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی صرف معما ہے ۔کوئی بھی اس معما کو امت کی تاریخ میں حل نہیں کرسکا بلکہ وہ حدیث بے معنی ہے ۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ امت نے اس کا مفہوم سمجھ لیا تھا تب ہی تو انھوں اس کے متعلق ،، اجماع...
غامدی صاحب کا تصور تبیین اور لونڈیوں کی سزا پر ان کی وضاحت پر
ڈاکٹر زاہد مغل تبصرہ محترم جناب غامدی صاحب کے تصور تبیین کی قرآن کے محاورے میں غلطی واضح کرنے کے لئے دی گئیں چھ میں سے آخری مثال بدکار مرد و عورت کی سزا سے متعلق تھی۔ سورۃ نور کی آیت 2 میں ان کی سزا 100 کوڑے بیان ہوئی تاہم سورۃ نساء آیت 4 میں ارشاد ہوا کہ بدکار لونڈی...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 26)
مولانا واصل واسطی دوسری گذارش اس اعترض کے حوالے سے یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی ومفہوم بھی اہلِ علم کو معلوم ہے اورانھوں نے اس مسئلے کا حل نکالا بھی ہے۔ بہت سارے محققین نے امام ابن جریر الطبری کی اس رائے کو اختیار کیا ہے ، کہ ،، سبعةاحرف ،، سے مراد مختلف قبیلوں کے لہجے...
مفتی ابو لبابہ
(7) غامدی صاحب نے سورۃ الأعلى کی اس آیت: “قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى” کا ترجمہ کیا ہے:
“یقیناً فلاح پائی جس نے پاکیزگی اختیار کی۔” (میزان، ص: 1102)
یہ ترجمہ اپنی جگہ درست ہے، لیکن آگے چل کر انہوں نے “پاکیزگی اختیار کی” سے مراد “زکوٰۃ الفطر” لینا قرار دیا ہے، حالانکہ اس تفسیر کی نہ کوئی دلیل قرآن سے ہے، نہ حدیث سے اور نہ ہی کسی مفسر نے اس کی تائید کی ہے۔
بلکہ مفسرین کے نزدیک اس آیت میں مراد ہے کہ “فلاح پا گیا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا، گناہوں سے بچا، اور ایمان و عمل صالح اختیار کیا۔”
(8) اسی طرح غامدی صاحب نے سورۃ المدثر کی آیت: “ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا” کا ترجمہ کیا ہے:
“مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔” (میزان، ص: 1120)
یہ ترجمہ بظاہر درست معلوم ہوتا ہے، مگر آگے چل کر وہ “وحیداً” کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ “اس کے پاس کوئی مال و اولاد نہ تھی۔” حالانکہ عربی میں “وحید” کے معنی ہیں “اکیلا”، “تنہا”، اور یہ بات پیدائش کی حالت پر دلالت کرتی ہے۔
لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ “اسے میں نے تنہا پیدا کیا، کسی کے ساتھ نہیں۔” اس کو مال و اولاد کی نفی پر محمول کرنا سیاق کے بھی خلاف ہے اور لغت کے بھی۔
(9) اسی طرح سورۃ العلق کی پہلی وحی کو غامدی صاحب نے “اقْرَأْ” کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مراد “پڑھ کر سنانا” ہے، حالانکہ یہاں “اقْرَأْ” کا مطلب ہے “پڑھنا”، “تلاوت کرنا”، جیسا کہ پوری امت کے مفسرین اور محدثین کا فہم ہے۔
پھر قاعدہ یہ ہے کہ بحث سے متعلق تمام روایات کو ملحوظ رکھ کر الفاظ کا معنی بیان کیا جاتا ہے۔ مگر غامدی صاحب پر تعجب ہے کہ انہوں نے بحث بھی حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ کے حوالہ سے کی ہے جو کہ خود غار حراء میں پہلی وحی میں سورۃ العلق کی ابتدائی آیات کے نزول والی حدیث روایت کرنے والی ہیں۔ اس کو چھوڑ کر اسی بحث سے متعلق روایت کے الفاظ کا ترجمہ کرنے کو اصول سے ناواقفیت نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟
(10) غامدی صاحب نے حضرت ابن عباسؓ کا ارشاد نقل کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے:
“حدِّث الناس كل جمعة مرة.”
یعنی: “لوگوں کو ہر جمعہ کے دن وعظ و نصیحت کیا کرو۔” (میزان، ص: 575)
غامدی صاحب کا “كل جمعة مرة” کا ترجمہ “ہر جمعہ کے دن” کرنا بالکل لفظی ہے، اس لیے کہ اس سے خصوصیت کے ساتھ جمعہ کے دن وعظ و نصیحت کرنا ظاہر ہوتا ہے، جبکہ مراد “ہفتے میں ایک مرتبہ” ہے۔
جیسا کہ اگلے جملے میں خود غامدی صاحب نے ترجمہ کیا ہے: “ہفتے میں دو مرتبہ”، جب کہ “فإن أبيت فمرتين” کا ترجمہ ہے “پھر اگر اس سے زیادہ ہو تو ہفتے میں دو مرتبہ۔” تو “كل جمعة مرة” کا ترجمہ بھی “ہفتے میں ایک مرتبہ” ہی ہوگا۔ اس کا ترجمہ “ہر جمعہ کے دن” کرنا بالکل غلط ہے۔
قارئین کرام!
ہم نے غامدی صاحب کی صرف ایک معرکۃ الآراء کتاب سے چند مثالیں پیش کی ہیں جن سے ان کی عربی زبان میں دسترس کو اجاگر کیا ہے تاکہ عوام الناس جان لیں کہ عربی عبارات کا صحیح ترجمہ بھی نہ کر سکنے والے کے بارے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر اور اس پر بحث کرنے کی اہلیت رکھتا ہے؟
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو ناقلین کے زمرے میں شمار کرنا بھی بددیانتی ہے۔ پھر غامدی صاحب اپنی اس مزعومہ استعداد و صلاحیت کے بل بوتے پر جن ملحدانہ اور گمراہانہ نظریات کا پرچار کر رہے ہیں، ان کے اور ان جیسے دیگر باطل نظریات کا پرچار کرنے والوں کے شر سے اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کی حفاظت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 39)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی ،،طیبات اورخبائث ،، کی اس مبحث کو بڑھاتے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 38)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی طیبات اورخبائث کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کی...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 37)
مولانا واصل واسطی دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جناب غامدی صاحب اپنی...