مولانا واصل واسطی دوسرا نکتہ جناب غامدی نے ان کے اپنے الفاظ میں یہ بیان کیاہے کہ ،، ثانیا آپ کو بتایا ہے کہ یہ دوسری قراءت قران کو جمع کرکے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کردینے کے بعد کی جائے گی ، اور اس کے ساتھ ہی آپ اس بات کے پابند ہوجائیں گے کہ آئندہ اسی قراءت کی پیروی...
غامدی صاحب کی قرآن فہمی- قسط سوم
جاوید احمد غامدی کے فلسفیانہ افکار کا جائزہ قسط اول
عمران شاہد بھنڈر چند ہفتے قبل جاوید احمد غامدی صاحب کی ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں وہ ایک بار پھر قرآن کے تصورِ تخلیق کو بروئے کار لاتے ہوئے’’ وجود‘‘ کے مسئلے کی وضاحت کررہے تھے ۔ غامدی صاحب اپنی بات کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ ’’قرآن سے پہلے سقراط و...
کیا علامہ طبری نے آیت “لتبین للناس” سے وہ مراد لی جو غامدی صاحب فرماتے ہیں؟
ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب نے دو ویڈیوز میں سورۃ نحل کی آیت 43 (وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ) میں لفظ تبیین پر اپنے موقف پر دلائل دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ لغوی طور پر اس لفظ کے دو معانی ہیں: (الف) از خود کسی بات کو...
علامہ زمحشری کی عبارت سے غامدی صاحب کے استدلال پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل علامہ جار اللہ زمحشری (م 538 ھ) کی جس عبارت کو محترم غامدی صاحب نے مسئلہ تبیین پر اپنے مدعا کا بیان قرار دیا، اس عبارت سے کیا جانے والا استدلال بھی مخدوش بے۔ علامہ زمحشری لکھتے ہیں: ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ يعنى ما نزل الله إليهم في الذكر مما أمروا به...
غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ حجاب پر ان کی وضاحت پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل محترم جناب غامدی صاحب کے تصور تبیین کی قرآن کے محاورے میں غلطی واضح کرنے کے لئے دی گئیں چھ میں سے دوسری مثال پر غامدی صاحب نے تبصرہ فرمایا ہے۔ اس مثال میں ہم نے واضح کیا تھا کہ سورۃ نور کی آیت 58 میں پردے کے احکام میں جو تبدیلی کی گئی، قرآن نے اسے تبیین...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 20)
مولانا واصل واسطی اب ہم ان تین نکات کو ترتیب وار لکھتے ہیں جو جناب غامدی نے سورت القیامہ اور سورت الاعلی سے سمجھے ہیں مگر اتنی سی بات پہلے جان لیں کہ جناب غامدی نے ان دو آیات کے ترجمہ میں چند الفاظ داخل کیے ہیں کہ وہ پھر اپنے مدعی کو ثابت کرنے میں ان کو کام آجائیں (...
مفتی ابو لبابہ
(7) غامدی صاحب نے سورۃ الأعلى کی اس آیت: “قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى” کا ترجمہ کیا ہے:
“یقیناً فلاح پائی جس نے پاکیزگی اختیار کی۔” (میزان، ص: 1102)
یہ ترجمہ اپنی جگہ درست ہے، لیکن آگے چل کر انہوں نے “پاکیزگی اختیار کی” سے مراد “زکوٰۃ الفطر” لینا قرار دیا ہے، حالانکہ اس تفسیر کی نہ کوئی دلیل قرآن سے ہے، نہ حدیث سے اور نہ ہی کسی مفسر نے اس کی تائید کی ہے۔
بلکہ مفسرین کے نزدیک اس آیت میں مراد ہے کہ “فلاح پا گیا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا، گناہوں سے بچا، اور ایمان و عمل صالح اختیار کیا۔”
(8) اسی طرح غامدی صاحب نے سورۃ المدثر کی آیت: “ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا” کا ترجمہ کیا ہے:
“مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔” (میزان، ص: 1120)
یہ ترجمہ بظاہر درست معلوم ہوتا ہے، مگر آگے چل کر وہ “وحیداً” کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ “اس کے پاس کوئی مال و اولاد نہ تھی۔” حالانکہ عربی میں “وحید” کے معنی ہیں “اکیلا”، “تنہا”، اور یہ بات پیدائش کی حالت پر دلالت کرتی ہے۔
لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ “اسے میں نے تنہا پیدا کیا، کسی کے ساتھ نہیں۔” اس کو مال و اولاد کی نفی پر محمول کرنا سیاق کے بھی خلاف ہے اور لغت کے بھی۔
(9) اسی طرح سورۃ العلق کی پہلی وحی کو غامدی صاحب نے “اقْرَأْ” کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مراد “پڑھ کر سنانا” ہے، حالانکہ یہاں “اقْرَأْ” کا مطلب ہے “پڑھنا”، “تلاوت کرنا”، جیسا کہ پوری امت کے مفسرین اور محدثین کا فہم ہے۔
پھر قاعدہ یہ ہے کہ بحث سے متعلق تمام روایات کو ملحوظ رکھ کر الفاظ کا معنی بیان کیا جاتا ہے۔ مگر غامدی صاحب پر تعجب ہے کہ انہوں نے بحث بھی حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ کے حوالہ سے کی ہے جو کہ خود غار حراء میں پہلی وحی میں سورۃ العلق کی ابتدائی آیات کے نزول والی حدیث روایت کرنے والی ہیں۔ اس کو چھوڑ کر اسی بحث سے متعلق روایت کے الفاظ کا ترجمہ کرنے کو اصول سے ناواقفیت نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟
(10) غامدی صاحب نے حضرت ابن عباسؓ کا ارشاد نقل کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے:
“حدِّث الناس كل جمعة مرة.”
یعنی: “لوگوں کو ہر جمعہ کے دن وعظ و نصیحت کیا کرو۔” (میزان، ص: 575)
غامدی صاحب کا “كل جمعة مرة” کا ترجمہ “ہر جمعہ کے دن” کرنا بالکل لفظی ہے، اس لیے کہ اس سے خصوصیت کے ساتھ جمعہ کے دن وعظ و نصیحت کرنا ظاہر ہوتا ہے، جبکہ مراد “ہفتے میں ایک مرتبہ” ہے۔
جیسا کہ اگلے جملے میں خود غامدی صاحب نے ترجمہ کیا ہے: “ہفتے میں دو مرتبہ”، جب کہ “فإن أبيت فمرتين” کا ترجمہ ہے “پھر اگر اس سے زیادہ ہو تو ہفتے میں دو مرتبہ۔” تو “كل جمعة مرة” کا ترجمہ بھی “ہفتے میں ایک مرتبہ” ہی ہوگا۔ اس کا ترجمہ “ہر جمعہ کے دن” کرنا بالکل غلط ہے۔
قارئین کرام!
ہم نے غامدی صاحب کی صرف ایک معرکۃ الآراء کتاب سے چند مثالیں پیش کی ہیں جن سے ان کی عربی زبان میں دسترس کو اجاگر کیا ہے تاکہ عوام الناس جان لیں کہ عربی عبارات کا صحیح ترجمہ بھی نہ کر سکنے والے کے بارے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر اور اس پر بحث کرنے کی اہلیت رکھتا ہے؟
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو ناقلین کے زمرے میں شمار کرنا بھی بددیانتی ہے۔ پھر غامدی صاحب اپنی اس مزعومہ استعداد و صلاحیت کے بل بوتے پر جن ملحدانہ اور گمراہانہ نظریات کا پرچار کر رہے ہیں، ان کے اور ان جیسے دیگر باطل نظریات کا پرچار کرنے والوں کے شر سے اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کی حفاظت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
از روئے قرآن بیان نسخ: احکام زنا کی تدریج کی روشنی میں غامدی صاحب کے تصور بیان کا جائزہ
ڈاکٹر زاہد مغل مشرف بیگ اشرف جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے ہاں "تبیین"...
لفظ تبیین میں “ترمیم و تبدیلی” کا مفہوم شامل ہے: قرآن سے دو شہادتیں
ڈاکٹر زاہد مغل ایک تحریر میں قرآن مجید کے متعدد نظائر سے یہ ثابت کیا گیا...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 33)
مولانا واصل واسطی دوسری بات اس حوالے سے یہ ہے کہ جناب غامدی نے لکھاہے کہ...