ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب کے شاگرد محترم ساجد حمید صاحب نے کسی قدر طنز سے کام لیتے ہوئے اصولیین کے اس تصور پر تنقید کی ہے کہ الفاظ قرآن کی دلالت ظنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بگاڑ کی اصل وجہ امام شافعی ہی سے شروع ہوجاتی ہے جس میں اصولیین، فلاسفہ و صوفیا نے بقدر...
غامدی صاحب کی قرآن فہمی- قسط سوم
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 1)
مولانا واصل واسطی ہم نے یہ بات اپنی مختلف پوسٹوں میں صراحت سے بیان کی ہے ، کہ جناب جاوید غامدی، غلام احمدپرویز کی طرح بالکل منکرِحدیث ہیں ۔البتہ ان کا یہ فلسفہ پیچ درپیچ ہے ، وہ اس لیے کہ انھوں نے پرویز وغیرہ کا انجام دیکھ لیا ہے ، اب اس برے انجام سے وہ بچنا چاھتے...
قطعی و ظنی الدلالۃ: امام شافعی پر جناب ساجد حمید صاحب کے نقد پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل جناب ساجد حمید صاحب نے اپنی تحریر “قرآن کیوں قطعی الدلالۃ نہیں؟”میں فرمایا ہے کہ امت میں یہ نظریہ امام شافعی اور ان سے متاثر دیگر اصولیین کی آرا کی وجہ سے راہ پا گیا ہے کہ الفاظ قرآن کی دلالت قطعی نہیں۔ آپ نے امام شافعی کی کتاب الرسالۃ سے یہ تاثر دینے...
امام رازی اور قانون کلی کی تنقید پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل اہل علم متکلمین و اصولیین کے ہاں “قانون کلی ” کی بحث سے واقف ہیں۔ اس بحث کو لے کر شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام غزالی رحمہ اللہ کو ضمناً جبکہ امام رازی رحمہ اللہ کو بالخصوص شد و مد سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امام رازی پر اعتراض یہ ہے کہ ان کے...
تصورِ نظمِ کلام کے مضمرات ( فکرِ غامدی پر نقد)
خضر یسین ہر بامعنی لفظ، ایک اسم ہوتا ہے۔ جس کا مسمی ذہن میں ہو تو معنی یا موضوع اور خارج میں ہو تو مدلول یا معروض کہلاتا ہے۔ لفظ کے بغیر ذہن میں تصور تشکیل نہیں پا سکتا ہے اور نہ تفہیم و تفکر کا عمل ممکن ہو سکتا ہے۔ الفاظ کا مجموعہ کلام نہیں ہوتا، بامعنی الفاظ کی...
نظمِ قران، تاویلِ واحد اور قطعی دلالت
جہانگیر حنیف نظمِ قرآن، تاویلِ واحد اور قطعی دلالت کا نظریہ ایک ہی پراجیکٹ کا حصہ ہیں۔ وہ پراجیکٹ قرآن مجید کے متن کو ایک نئی ہرمیونیٹکس دینا ہے۔ یہ خیال اس احساس سے پیدا ہوا کہ روایتی اور مروج و متداول اصولِ تفسیر قرآن مجید میں اپنی بنیاد نہیں رکھتے۔ ان کا اطلاق قرآن...
مفتی ابو لبابہ
(7) غامدی صاحب نے سورۃ الأعلى کی اس آیت: “قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى” کا ترجمہ کیا ہے:
“یقیناً فلاح پائی جس نے پاکیزگی اختیار کی۔” (میزان، ص: 1102)
یہ ترجمہ اپنی جگہ درست ہے، لیکن آگے چل کر انہوں نے “پاکیزگی اختیار کی” سے مراد “زکوٰۃ الفطر” لینا قرار دیا ہے، حالانکہ اس تفسیر کی نہ کوئی دلیل قرآن سے ہے، نہ حدیث سے اور نہ ہی کسی مفسر نے اس کی تائید کی ہے۔
بلکہ مفسرین کے نزدیک اس آیت میں مراد ہے کہ “فلاح پا گیا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا، گناہوں سے بچا، اور ایمان و عمل صالح اختیار کیا۔”
(8) اسی طرح غامدی صاحب نے سورۃ المدثر کی آیت: “ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا” کا ترجمہ کیا ہے:
“مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔” (میزان، ص: 1120)
یہ ترجمہ بظاہر درست معلوم ہوتا ہے، مگر آگے چل کر وہ “وحیداً” کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ “اس کے پاس کوئی مال و اولاد نہ تھی۔” حالانکہ عربی میں “وحید” کے معنی ہیں “اکیلا”، “تنہا”، اور یہ بات پیدائش کی حالت پر دلالت کرتی ہے۔
لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ “اسے میں نے تنہا پیدا کیا، کسی کے ساتھ نہیں۔” اس کو مال و اولاد کی نفی پر محمول کرنا سیاق کے بھی خلاف ہے اور لغت کے بھی۔
(9) اسی طرح سورۃ العلق کی پہلی وحی کو غامدی صاحب نے “اقْرَأْ” کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مراد “پڑھ کر سنانا” ہے، حالانکہ یہاں “اقْرَأْ” کا مطلب ہے “پڑھنا”، “تلاوت کرنا”، جیسا کہ پوری امت کے مفسرین اور محدثین کا فہم ہے۔
پھر قاعدہ یہ ہے کہ بحث سے متعلق تمام روایات کو ملحوظ رکھ کر الفاظ کا معنی بیان کیا جاتا ہے۔ مگر غامدی صاحب پر تعجب ہے کہ انہوں نے بحث بھی حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ کے حوالہ سے کی ہے جو کہ خود غار حراء میں پہلی وحی میں سورۃ العلق کی ابتدائی آیات کے نزول والی حدیث روایت کرنے والی ہیں۔ اس کو چھوڑ کر اسی بحث سے متعلق روایت کے الفاظ کا ترجمہ کرنے کو اصول سے ناواقفیت نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟
(10) غامدی صاحب نے حضرت ابن عباسؓ کا ارشاد نقل کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے:
“حدِّث الناس كل جمعة مرة.”
یعنی: “لوگوں کو ہر جمعہ کے دن وعظ و نصیحت کیا کرو۔” (میزان، ص: 575)
غامدی صاحب کا “كل جمعة مرة” کا ترجمہ “ہر جمعہ کے دن” کرنا بالکل لفظی ہے، اس لیے کہ اس سے خصوصیت کے ساتھ جمعہ کے دن وعظ و نصیحت کرنا ظاہر ہوتا ہے، جبکہ مراد “ہفتے میں ایک مرتبہ” ہے۔
جیسا کہ اگلے جملے میں خود غامدی صاحب نے ترجمہ کیا ہے: “ہفتے میں دو مرتبہ”، جب کہ “فإن أبيت فمرتين” کا ترجمہ ہے “پھر اگر اس سے زیادہ ہو تو ہفتے میں دو مرتبہ۔” تو “كل جمعة مرة” کا ترجمہ بھی “ہفتے میں ایک مرتبہ” ہی ہوگا۔ اس کا ترجمہ “ہر جمعہ کے دن” کرنا بالکل غلط ہے۔
قارئین کرام!
ہم نے غامدی صاحب کی صرف ایک معرکۃ الآراء کتاب سے چند مثالیں پیش کی ہیں جن سے ان کی عربی زبان میں دسترس کو اجاگر کیا ہے تاکہ عوام الناس جان لیں کہ عربی عبارات کا صحیح ترجمہ بھی نہ کر سکنے والے کے بارے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر اور اس پر بحث کرنے کی اہلیت رکھتا ہے؟
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو ناقلین کے زمرے میں شمار کرنا بھی بددیانتی ہے۔ پھر غامدی صاحب اپنی اس مزعومہ استعداد و صلاحیت کے بل بوتے پر جن ملحدانہ اور گمراہانہ نظریات کا پرچار کر رہے ہیں، ان کے اور ان جیسے دیگر باطل نظریات کا پرچار کرنے والوں کے شر سے اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کی حفاظت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 17)
مولانا واصل واسطی دوسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے قراءتِ قران کے متعلق...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 16)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے دو باتیں پیچھے کہی ہیں جس کاخلاصہ یہ ہے ...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 15)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی دوباتیں باربار دہراتے ہیں مگر ان کے لیے...