غامدی صاحب کی قرآن فہمی- قسط دوم

Published On September 27, 2025
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 30)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 30)

مولانا واصل واسطی چوتھے اعتراض میں جناب غامدی لکھتے ہیں کہ ،، یہی معاملہ ان روایتوں کا بھی ہے جو سیدنا صدیق اور ان کے بعد سیدنا عثمان کے دور میں قرآن کی جمع وتدوین سے متعلق حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ قران  جیسا کہ اس بحث کی ابتداء میں بیان ہوا ، اس معاملے میں...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 30)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 29)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی مسئلہِ قراءآت پر چوتھا اعتراض یوں کرتے ہیں "کہ اس میں بعض دیگر چیزیں بھی ملاکر خوب زہرآلود جام بناکرعوام کے سامنے پلانے کےلیے رکھ دیتے ہیں ، ملاحظہ ہو ،، چہارم یہ کہ ہشام کے بارے میں معلوم ہے کہ فتحِ مکہ کے دن ایمان لائے تھے  لہذااس روایت...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 30)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 28)

مولانا واصل واسطی تیسرااعترض جناب غامدی نے اس روایت پر یہ کیاہے کہ ،، سوم یہ کہ اختلاف اگر الگ الگ قبیلوں کے افراد میں بھی ہوتا تو ،، انزل ،، کالفظ اس روایت میں ناقابلِ توجیہ ہی تھا  اس لیے کہ قران نے اپنے متعلق پوری صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے کہ وہ قریش کی زبان میں...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 30)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 27)

مولانا واصل واسطی تیسری گزارش جناب غامدی کے اس قول کے حوالے سے یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی صرف معما ہے ۔کوئی بھی اس معما کو امت کی تاریخ میں حل نہیں کرسکا بلکہ وہ حدیث بے معنی ہے ۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ امت نے اس کا مفہوم سمجھ لیا تھا   تب ہی تو انھوں اس کے متعلق ،، اجماع...

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور لونڈیوں کی سزا پر ان کی وضاحت پر

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور لونڈیوں کی سزا پر ان کی وضاحت پر

ڈاکٹر زاہد مغل تبصرہ محترم جناب غامدی صاحب کے تصور تبیین کی قرآن کے محاورے میں غلطی واضح کرنے کے لئے دی گئیں چھ میں سے آخری مثال بدکار مرد و عورت کی سزا سے متعلق تھی۔ سورۃ نور کی آیت 2 میں ان کی سزا 100 کوڑے بیان ہوئی تاہم سورۃ نساء آیت 4 میں ارشاد ہوا کہ بدکار لونڈی...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 30)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 26)

مولانا واصل واسطی دوسری گذارش اس اعترض کے حوالے سے یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی ومفہوم بھی اہلِ علم کو معلوم ہے اورانھوں نے اس مسئلے کا حل نکالا بھی ہے۔ بہت سارے محققین نے امام ابن جریر الطبری کی اس رائے کو اختیار کیا ہے ، کہ ،، سبعةاحرف ،، سے مراد مختلف قبیلوں کے لہجے...

مفتی ابو لبابہ

اب آئیے! ان اعتراضات کو تفصیل سے ملاحظہ کیجیے تاکہ ہمارے دعوے کی بنیاد آپ پر کھل جائے۔

(1) عربیت کے خلاف ترجمہ

جیسا کہ ہم نے عرض کیا، “غُثاء” کے معنی ہرگز گھنے سبزے کے نہیں ہیں۔ عربی لغات اس بات پر بالکل متفق ہیں کہ “غُثاء” کے معنی ہیں:

  • سوکھا ہوا گھاس پھونس،

  • ردی کچرا جو سیلاب کے بعد پانی پر تیرتا رہتا ہے،

  • یا وہ بوسیدہ تنکے جو کسی کام کے نہیں رہتے۔

لسان العرب میں ہے:
“الغُثاء ما حمل السيل من الزَّبد والوسخ.”
یعنی: “غُثاء وہ کچرا ہے جو سیلاب اٹھا کر لے آتا ہے، جھاگ اور میل کچیل وغیرہ۔”

پس اس کو گھنے سبزے کے معنی میں لینا سراسر جہالت ہے۔

(2) قرآن کے نظائر کے خلاف ترجمہ

قرآنِ مجید میں جہاں جہاں “غُثاء” آیا ہے وہاں اس کے یہی معنی مراد ہیں۔ مثلاً سورۃ المومنون میں ہے:
“فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَى”
(پھر اس کو سوکھا ہوا، سیاہی مائل کوڑا کرکٹ بنا دیا)۔

یہاں بھی مفہوم وہی ہے جو ہم نے عرض کیا۔ اس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید کے سیاق و سباق میں “غُثاء” کو کبھی بھی گھنے سبزے کے معنوں میں لینا درست نہیں۔

(3) احادیث کے خلاف ترجمہ

احادیثِ رسول ﷺ میں بھی “غُثاء” کے یہی معنی مذکور ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“يوشك أن تداعى عليكم الأمم كما تداعى الأكلة إلى قصعتها. قالوا: أمن قلة نحن يومئذٍ يا رسول الله؟ قال: بل أنتم يومئذ كثير، ولكنكم غثاء كغثاء السيل.”
(ابوداؤد، حدیث: 4297)

ترجمہ: “قریب ہے کہ قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے لوگ دسترخوان پر ٹوٹتے ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: کیا اس وقت ہم کم ہوں گے؟ فرمایا: نہیں، بلکہ تم بہت زیادہ ہوگے لیکن تمہاری حیثیت ایسی ہوگی جیسے سیلاب کا کچرا۔”

یہ حدیث “غُثاء” کے معنی بالکل کھول دیتی ہے کہ یہ ردی، بیکار اور بے وقعت چیز کے لیے بولا جاتا ہے، نہ کہ گھنے سبزے کے لیے۔

(4) اقوالِ صحابہ و تابعین کے خلاف ترجمہ

صحابہ کرام اور تابعین کی تفاسیر میں بھی “غُثاء” کا یہی مطلب بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:
“الغُثاء: ما يبس من النبات فصار هشيماً.”
(تفسیر طبری)
یعنی: “غُثاء وہ ہے جو سبزہ سوکھ کر بوسیدہ تنکوں کی صورت اختیار کر لے۔”

(5) اجماعِ امت کے خلاف ترجمہ

چودہ سو سال میں کسی ایک مفسر نے بھی “غُثاء” کو گھنے سبزے کے معنی میں نہیں لیا۔ یہ صرف غامدی صاحب اور ان کے استاد اصلاحی صاحب کی “خصوصی دریافت” ہے جو اجماعِ امت کے بالکل خلاف ہے۔

(6) اردو مترجمین کے خلاف ترجمہ

آپ اردو کے کسی بھی مترجمِ قرآن کا ترجمہ دیکھ لیجیے۔ سب نے “غُثاء” کے معنی بوسیدہ، ردی، کوڑا کرکٹ کے کیے ہیں۔ مثلاً:

  • مولانا محمود الحسن: “پھر اسے سیاہی مائل کوڑا کرکٹ بنا دیا۔”

  • شاہ عبدالقادر: “پھر کیا اسے کالا کوڑا۔”

  • احمد رضا خان: “پھر اس کو سیاہ کوڑا کردیا۔”

کسی نے بھی گھنے سبزے کا ترجمہ نہیں کیا۔


یہ ہے حقیقت اس “عربی دانی” کی جس پر جناب غامدی صاحب اتنا ناز کرتے ہیں۔ قرآن فہمی کا دعویٰ اور عربیت پر مہارت کا غرور، لیکن انجام یہ کہ قرآن کے الفاظ کو الٹا معنی پہنائے جا رہے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…