ڈاکٹر خضر یسین حدیث کے متعلق غامدی صاحب کا موقف کسی اصول پر مبنی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں اس بات سے دلچسپی ہے کہ حدیث کی فنی حیثیت متعین کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ حدیث کا مدار اعتبار "قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" ہے، نہ کہ "قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم"...
غامدی صاحب کی قرآن فہمی- قسط دوم
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 12)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے یہ بات تولکھی ہے کہ ،، تخصیص وتحدیدِ قران کسی قسم کی وحی سے نہیں ہوسکتی ، اورنہ پیغمبر ہی اس میں کوئی ترمیم وتغیرکرسکتاہے (میزان ص 24) مگر تخصیص اورنسخ میں کوئی فرق وہ بیان نہیں کرتے ہیں حالانکہ اہلِ علم دونوں کے درمیان بہت سے فروق بیان...
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط ہفتم)
ڈاکٹر خضر یسین قرآن مجید کے متعلق غامدی صاحب کی تحریر و تقریر سے یہ تاثر لئے بغیر، آپ نہیں رہ سکتے کہ وہ کسی ادبی کتاب کے متعلق اپنی انتقادی تحسین بیان کر رہے ہیں۔ الوہی ہدایت کے مقابل، ہدایت وصول کرنے والے انسان کا طرزعمل اور احساس و تاثر ایک نقاد کا کبھی نہیں ہوتا۔...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 11)
مولانا واصل واسطی احبابِ کرام جناب غامدی کی توجیہِ حدیث سے پہلے اس حدیث کا ترجمہ ان کے قلم سے پڑھ لیں ، جوکل کی پوسٹ میں گذرگئی ہے ۔وہ لکھتے ہیں :عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ رفاعہ نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو اس کے ساتھ عبدالرحمن بن الزبیر قرظی نے نکاح کرلیا ، سیدہ عائشہ...
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط ششم)
ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب کی دینی فکر اور اس کے پورے تنظیمی ڈھانچے کو سمجھنا خاصہ دشوار کام ہے کیونکہ ان کا بیان ایک منظم فکر کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور نہ دین اور دینی شعور کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔ ممکن ہے، میرا یہ تبصرہ بعض احباب کو سخت گیری کا مظہر لگے۔ لیکن...
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط پنجم)
ڈاکٹر خضر یسین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، خاتم الوحی ہے اور آنجناب علیہ السلام کی ذات، خاتم النبیین ہیں۔ قرآن مجید کے بعد نہ ایسی وحی ممکن ہے جو انسانیت پر واجب الایمان و العمل ہو اور نہ آنجناب علیہ السلام کے بعد کوئی نبی و رسول ممکن ہے۔ آنجناب علیہ...
مفتی ابو لبابہ
اب آئیے! ان اعتراضات کو تفصیل سے ملاحظہ کیجیے تاکہ ہمارے دعوے کی بنیاد آپ پر کھل جائے۔
(1) عربیت کے خلاف ترجمہ
جیسا کہ ہم نے عرض کیا، “غُثاء” کے معنی ہرگز گھنے سبزے کے نہیں ہیں۔ عربی لغات اس بات پر بالکل متفق ہیں کہ “غُثاء” کے معنی ہیں:
-
سوکھا ہوا گھاس پھونس،
-
ردی کچرا جو سیلاب کے بعد پانی پر تیرتا رہتا ہے،
-
یا وہ بوسیدہ تنکے جو کسی کام کے نہیں رہتے۔
لسان العرب میں ہے:
“الغُثاء ما حمل السيل من الزَّبد والوسخ.”
یعنی: “غُثاء وہ کچرا ہے جو سیلاب اٹھا کر لے آتا ہے، جھاگ اور میل کچیل وغیرہ۔”
پس اس کو گھنے سبزے کے معنی میں لینا سراسر جہالت ہے۔
(2) قرآن کے نظائر کے خلاف ترجمہ
قرآنِ مجید میں جہاں جہاں “غُثاء” آیا ہے وہاں اس کے یہی معنی مراد ہیں۔ مثلاً سورۃ المومنون میں ہے:
“فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَى”
(پھر اس کو سوکھا ہوا، سیاہی مائل کوڑا کرکٹ بنا دیا)۔
یہاں بھی مفہوم وہی ہے جو ہم نے عرض کیا۔ اس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید کے سیاق و سباق میں “غُثاء” کو کبھی بھی گھنے سبزے کے معنوں میں لینا درست نہیں۔
(3) احادیث کے خلاف ترجمہ
احادیثِ رسول ﷺ میں بھی “غُثاء” کے یہی معنی مذکور ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“يوشك أن تداعى عليكم الأمم كما تداعى الأكلة إلى قصعتها. قالوا: أمن قلة نحن يومئذٍ يا رسول الله؟ قال: بل أنتم يومئذ كثير، ولكنكم غثاء كغثاء السيل.”
(ابوداؤد، حدیث: 4297)
ترجمہ: “قریب ہے کہ قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے لوگ دسترخوان پر ٹوٹتے ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: کیا اس وقت ہم کم ہوں گے؟ فرمایا: نہیں، بلکہ تم بہت زیادہ ہوگے لیکن تمہاری حیثیت ایسی ہوگی جیسے سیلاب کا کچرا۔”
یہ حدیث “غُثاء” کے معنی بالکل کھول دیتی ہے کہ یہ ردی، بیکار اور بے وقعت چیز کے لیے بولا جاتا ہے، نہ کہ گھنے سبزے کے لیے۔
(4) اقوالِ صحابہ و تابعین کے خلاف ترجمہ
صحابہ کرام اور تابعین کی تفاسیر میں بھی “غُثاء” کا یہی مطلب بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:
“الغُثاء: ما يبس من النبات فصار هشيماً.”
(تفسیر طبری)
یعنی: “غُثاء وہ ہے جو سبزہ سوکھ کر بوسیدہ تنکوں کی صورت اختیار کر لے۔”
(5) اجماعِ امت کے خلاف ترجمہ
چودہ سو سال میں کسی ایک مفسر نے بھی “غُثاء” کو گھنے سبزے کے معنی میں نہیں لیا۔ یہ صرف غامدی صاحب اور ان کے استاد اصلاحی صاحب کی “خصوصی دریافت” ہے جو اجماعِ امت کے بالکل خلاف ہے۔
(6) اردو مترجمین کے خلاف ترجمہ
آپ اردو کے کسی بھی مترجمِ قرآن کا ترجمہ دیکھ لیجیے۔ سب نے “غُثاء” کے معنی بوسیدہ، ردی، کوڑا کرکٹ کے کیے ہیں۔ مثلاً:
-
مولانا محمود الحسن: “پھر اسے سیاہی مائل کوڑا کرکٹ بنا دیا۔”
-
شاہ عبدالقادر: “پھر کیا اسے کالا کوڑا۔”
-
احمد رضا خان: “پھر اس کو سیاہ کوڑا کردیا۔”
کسی نے بھی گھنے سبزے کا ترجمہ نہیں کیا۔
یہ ہے حقیقت اس “عربی دانی” کی جس پر جناب غامدی صاحب اتنا ناز کرتے ہیں۔ قرآن فہمی کا دعویٰ اور عربیت پر مہارت کا غرور، لیکن انجام یہ کہ قرآن کے الفاظ کو الٹا معنی پہنائے جا رہے ہیں۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 26)
مولانا واصل واسطی دوسری گذارش اس اعترض کے حوالے سے یہ ہے کہ اس حدیث کا...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 25)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے اسی مبحث میں اگے ،، سبعةاحرف ،، والی...
غامدی صاحب کے تصور بیان کی اصولی مشکلات: “تاخیر البیان” کی روشنی میں
ڈاکٹر زاہد مغل برادر عمار خان ناصر صاحب نے اپنی کتاب "قرآن و سنت کا باہمی...