مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...
غامدی صاحب کی قرآن فہمی- قسط اول
تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب تلخیص : زید حسن اس ویڈیو میں سپیکر حافظ محمد زبیر صاحب نے " بعض افراد" کے اس دعوے کہ آپ کی تفہیمِ غامدی درست نہیں ، کو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔ لیکن اس پر از راہِ تفنن گفتگو کرنے کے بعد چند اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے اور غامدی منہج پر سوالات...
تراویح کے متعلق غامدی صاحب کے غلط نظریات کا رد
ڈاکٹر نعیم الدین الازہری صاحب تلخیص : زید حسن رمضان المبارک کی بابرکت ساعات میں امتِ مسلمہ روزے اور عبادات میں مشغول ہے ، لیکن سوشل میڈیا پر چند ایسی آوازیں گاہے بگاہے اٹھتی نظر آتی ہیں جن میں ان عبادات کا انکارکیا گیا ہے جن پر امتِ مسلمہ ہزاروں سالوں سے عمل کرنی چلی...
ابن عابدین شامی کی علامہ غامدی کو نصیحت
سمیع اللہ سعدی علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فتاوی شامی میں متعدد مقامات پر مسئلہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :۔و ھذا مما یعلم و یکتم یعنی یہ مسئلہ سیکھنا تو چاہیے ،لیکن عممومی طور پر بتانے سے گریز کیا جائے ۔فقاہت اور دین کی گہری سمجھ کا یہی تقاضا ہے کہ کتابوں میں...
علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب جناب غامدی صاحب علم کلام پر ماہرانہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ علم بے معنی و غیر ضروری ہے اس لئے کہ یہ فلسفے کے اس دور سے متعلق ہے جب وجود کو علمیات پر فوقیت دی جاتی تھی، علم کلام وجودی فکر والوں کے طلسم خانے کا جواب دینے کے لئے وضع کیا...
آنلائن تراویح کا جواز : غامدی صاحب کا نیا فتوی
مفتی طارق مسعود صاحب تلخیص : زید حسن مسئلہ پوچھا گیا ہے کہ کیا تراویح کی نماز یوٹیوب پر لگا کر اسکی اقتداء میں پڑھ سکتے ہیں؟یہ غامدی صاحب نے نیا مسئلہ بیان کر دیا ہے اور اسکی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ آجکل گلوبل ویلج ہے، ایک دوسرے کی حرکات و سکنات دیکھی جا سکتی ہیں اور...
مفتی ابو لبابہ
غامدی صاحب اور ان کا مکتبِ فکر آج کل اپنے اجتہادِ جدید کی روشنی میں وطنِ عزیز کو چکاچوند کرتی روشنیوں اور دمادم کرتی روشن خیالیوں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ اس غرض کے لیے انہوں نے اُمت کے تمام پہلے اور پچھلے اہلِ علم کی تحقیقات کی نفی کرتے ہوئے قرآنِ کریم سے براہِ راست استنباط اور نام نہاد اجتہاد کی راہ ڈال لی ہے۔ اب یہ تو دنیا کو معلوم ہو چکا ہے کہ علومِ عربیت سے ان کی واقفیت اور جدید مغربی علوم سے ان کی شناسائی کس قدر ہے؟ آئیے! آج ذرا قرآن فہمی کے حوالے سے ان کے کام کا جائزہ لیتے ہیں جو ان کی تمام کاوشوں کی بنیاد اور سہارا ہے۔
قرآن فہمی کے جھوٹے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے ان کا پہلا اور آخری سہارا یہ ہے کہ وہ عربی لغت اور ادبِ عربی کو اتنا اچھا سمجھتے ہیں کہ اس کے ذریعے قرآن کے معنی و مفاہیم کو خود متعین کر سکتے ہیں، چاہے اس سے اجماع کا انکار، دینِ اسلام کے مسلمہ احکام کی تردید کرنی پڑے یا پھر سرے سے خود قرآن ہی سے ہاتھ دھو بیٹھنا پڑے۔ آنجناب کو عربیِ معلیٰ (با محاورہ عربی) جاننے کا بڑا زعم ہے اور ان کا یہ فرمان مستند سمجھا جاتا ہے کہ خالص عربیت کو سامنے رکھ کر قرآن کا معنی متعین کرنے میں ان کا مدِّ مقابل کوئی نہیں ہے۔
یہ دعویٰ اتنا ہی بے اصل ہے جتنی آنجناب کی عربیت سے واقفیت کا زعم۔ اگر ہم اپنے قارئین کو یہ حقیقت سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ ان کی عربیت سے واقفیت اتنی ہی ہے جتنی ملعون رشدی کو انگریزی سے، تو یہ سمجھنے میں مشکل نہ رہے گی کہ ملعون کو “سر” کا خطاب اور نامدی صاحب کو اس “اسکالر” کا اعزاز کس مقصد سے ملا ہے؟ ملعون رشدی اور غامدی صاحب میں قدرِ مشترک صرف یہی نہیں کہ جہالتِ عظمٰی کے علی الرغم وہ مغرب کی طرف سے پشت پناہی اور کفالت و حمایت کے حق دار سمجھے جاتے ہیں بلکہ توہینِ رسالت کے پہلو کے حامل کچھ جملے جناب غامدی صاحب کی طرف بھی منسوب کیے جاتے ہیں۔
آئیے! تعصب اور جانبداری کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان “مجتہدِ بن عصر” کے اس دعوے کا کھلے دل اور کھلی نظر سے جائزہ لیتے ہیں۔ اگر اس کی حقیقت آشکارا ہو جائے تو ان کے بقیہ اٹھائے ہوئے مباحث کی حقیقت سمجھنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ ہم پہلی مثال ذرا تفصیلی، دوسری مختصر اور بقیہ مثالیں بہت ہی مختصر دیں گے۔ کیونکہ یہ کوئی مقالہ تو ہے نہیں، بات سمجھنے اور سمجھانے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے۔ جتنی صاف ستھری، براہِ راست اور پیچیدگی سے پاک ہو اتنی ہی مفید رہے گی۔ اللہ تعالیٰ اسے میری قوم کے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنائے۔
سورۃ الاعلیٰ میں ہے:
“وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَى فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَى”
اپنی تفسیر البیان (اس کو بعض صاحبِ ذوق “البیان التغیر” اس لیے کہتے ہیں کہ یہ آخری پارے سے الٹی طرف لکھی جا رہی ہے۔ پہلی جلد میں سورۃ الملک سے سورۃ الناس تک کی تفسیر ہے، بقیہ جلدیں نامکمل ہیں) میں غامدی صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے:
“اور جس نے سبزہ نکالا، پھر اسے گھنا سرسبز و شاداب بنا دیا۔” (البیان، ص 165)
اس کے علاوہ غامدی صاحب کے فکری و نظریاتی امام، مولانا امین احسن اصلاحی بھی اس مقام کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
“اور جس نے نباتات اُگائیں، پھر ان کو گھنا سرسبز و شاداب بنایا۔” (تدبر قرآن، ج 9، ص 311)
یہ دونوں ترجمے بالکل غلط ہیں اور یہ بات ہم اتنی قطعیت کے ساتھ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اس ترجمے اور مفہوم پر درج ذیل اعتراضات ہوتے ہیں:
-
یہ ترجمہ و مفہوم عربیت کے خلاف ہے۔ عربی زبان کی کسی لغت میں “غُثاء” کا لفظ گھنے سبزے کے معنوں میں نہیں آتا۔
-
یہ ترجمہ خود قرآن مجید کے نظائر کے خلاف ہے۔
-
یہ ترجمہ احادیث کے شواہد کے بھی خلاف ہے۔
-
یہ ترجمہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے اقوال کے بھی خلاف ہے۔
-
یہ ترجمہ اجماعِ امت کے بھی خلاف ہے کیونکہ کسی مفسر نے آج تک “غُثاء” کے معنی گھنے سبزے کے نہیں کیے۔
-
یہ ترجمہ اردو کے تمام مترجمین کے ترجموں کے خلاف ہے۔ آج تک کسی ایک مفسر نے ان آیات کا یہ ترجمہ نہیں کیا۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )
مولانا صفی اللہ مظاہر العلوم ، کوہاٹ اقدامات صحابہ اور غامدی صاحب کا...
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط پنجم )
مولانا صفی اللہ مظاہر العلوم ، کوہاٹ احادیث اور غامدی صاحب کا تصور...
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط چہارم )
مولانا صفی اللہ مظاہر العلوم ، کوہاٹ احکامات اسلام اور خطابات قرآنیہ کی...