غامدی صاحب کی قرآن فہمی- قسط اول

Published On September 27, 2025
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط سوم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط سوم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ منصب رسالت اور اس پر متفرع احکام کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ: ۔ ۔1 ۔  منصب رسالت اور نبوت میں یہ تفریق کوئی قطعی بات نہیں ، اس سے اختلاف کی گنجائش ہے اور ہوا بھی ہے اور یہ رائے زیادہ وزنی بھی نہیں ۔ اس کی بنیاد پر قرآنی آیات و...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط دوم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط دوم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ   قرآن اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ قرآن میں جہاد اقدامی اور اس کے عموم اور تا ئید کے سلسلے میں واضح احکامات موجود ہیں جن سے انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ آسانی کے ساتھ انہیں نظر انداز کیا جا...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط اول )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط اول )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ اسلام کا جنگی نظام " جہاد " عرصہ دراز سے مخالفین اسلام کے طعن و تشنیع اور اعتراضات کا ہدف رہا ہے۔ علماء امت ہر زمانے میں اس کے جوابات بھی دیتے رہے ہیں لیکن ماضی قریب میں جب سے برقی ایجادات عام ہو ئیں ، پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ پوری...

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

مفتی ابو لبابہ

غامدی صاحب اور ان کا مکتبِ فکر آج کل اپنے اجتہادِ جدید کی روشنی میں وطنِ عزیز کو چکاچوند کرتی روشنیوں اور دمادم کرتی روشن خیالیوں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ اس غرض کے لیے انہوں نے اُمت کے تمام پہلے اور پچھلے اہلِ علم کی تحقیقات کی نفی کرتے ہوئے قرآنِ کریم سے براہِ راست استنباط اور نام نہاد اجتہاد کی راہ ڈال لی ہے۔ اب یہ تو دنیا کو معلوم ہو چکا ہے کہ علومِ عربیت سے ان کی واقفیت اور جدید مغربی علوم سے ان کی شناسائی کس قدر ہے؟ آئیے! آج ذرا قرآن فہمی کے حوالے سے ان کے کام کا جائزہ لیتے ہیں جو ان کی تمام کاوشوں کی بنیاد اور سہارا ہے۔

قرآن فہمی کے جھوٹے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے ان کا پہلا اور آخری سہارا یہ ہے کہ وہ عربی لغت اور ادبِ عربی کو اتنا اچھا سمجھتے ہیں کہ اس کے ذریعے قرآن کے معنی و مفاہیم کو خود متعین کر سکتے ہیں، چاہے اس سے اجماع کا انکار، دینِ اسلام کے مسلمہ احکام کی تردید کرنی پڑے یا پھر سرے سے خود قرآن ہی سے ہاتھ دھو بیٹھنا پڑے۔ آنجناب کو عربیِ معلیٰ (با محاورہ عربی) جاننے کا بڑا زعم ہے اور ان کا یہ فرمان مستند سمجھا جاتا ہے کہ خالص عربیت کو سامنے رکھ کر قرآن کا معنی متعین کرنے میں ان کا مدِّ مقابل کوئی نہیں ہے۔

یہ دعویٰ اتنا ہی بے اصل ہے جتنی آنجناب کی عربیت سے واقفیت کا زعم۔ اگر ہم اپنے قارئین کو یہ حقیقت سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ ان کی عربیت سے واقفیت اتنی ہی ہے جتنی ملعون رشدی کو انگریزی سے، تو یہ سمجھنے میں مشکل نہ رہے گی کہ ملعون کو “سر” کا خطاب اور نامدی صاحب کو اس “اسکالر” کا اعزاز کس مقصد سے ملا ہے؟ ملعون رشدی اور غامدی صاحب میں قدرِ مشترک صرف یہی نہیں کہ جہالتِ عظمٰی کے علی الرغم وہ مغرب کی طرف سے پشت پناہی اور کفالت و حمایت کے حق دار سمجھے جاتے ہیں بلکہ توہینِ رسالت کے پہلو کے حامل کچھ جملے جناب غامدی صاحب کی طرف بھی منسوب کیے جاتے ہیں۔

آئیے! تعصب اور جانبداری کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان “مجتہدِ بن عصر” کے اس دعوے کا کھلے دل اور کھلی نظر سے جائزہ لیتے ہیں۔ اگر اس کی حقیقت آشکارا ہو جائے تو ان کے بقیہ اٹھائے ہوئے مباحث کی حقیقت سمجھنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ ہم پہلی مثال ذرا تفصیلی، دوسری مختصر اور بقیہ مثالیں بہت ہی مختصر دیں گے۔ کیونکہ یہ کوئی مقالہ تو ہے نہیں، بات سمجھنے اور سمجھانے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے۔ جتنی صاف ستھری، براہِ راست اور پیچیدگی سے پاک ہو اتنی ہی مفید رہے گی۔ اللہ تعالیٰ اسے میری قوم کے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنائے۔

سورۃ الاعلیٰ میں ہے:
“وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَى فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَى”

اپنی تفسیر البیان (اس کو بعض صاحبِ ذوق “البیان التغیر” اس لیے کہتے ہیں کہ یہ آخری پارے سے الٹی طرف لکھی جا رہی ہے۔ پہلی جلد میں سورۃ الملک سے سورۃ الناس تک کی تفسیر ہے، بقیہ جلدیں نامکمل ہیں) میں غامدی صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے:

“اور جس نے سبزہ نکالا، پھر اسے گھنا سرسبز و شاداب بنا دیا۔” (البیان، ص 165)

اس کے علاوہ غامدی صاحب کے فکری و نظریاتی امام، مولانا امین احسن اصلاحی بھی اس مقام کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:

“اور جس نے نباتات اُگائیں، پھر ان کو گھنا سرسبز و شاداب بنایا۔” (تدبر قرآن، ج 9، ص 311)

یہ دونوں ترجمے بالکل غلط ہیں اور یہ بات ہم اتنی قطعیت کے ساتھ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اس ترجمے اور مفہوم پر درج ذیل اعتراضات ہوتے ہیں:

  1. یہ ترجمہ و مفہوم عربیت کے خلاف ہے۔ عربی زبان کی کسی لغت میں “غُثاء” کا لفظ گھنے سبزے کے معنوں میں نہیں آتا۔

  2. یہ ترجمہ خود قرآن مجید کے نظائر کے خلاف ہے۔

  3. یہ ترجمہ احادیث کے شواہد کے بھی خلاف ہے۔

  4. یہ ترجمہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے اقوال کے بھی خلاف ہے۔

  5. یہ ترجمہ اجماعِ امت کے بھی خلاف ہے کیونکہ کسی مفسر نے آج تک “غُثاء” کے معنی گھنے سبزے کے نہیں کیے۔

  6. یہ ترجمہ اردو کے تمام مترجمین کے ترجموں کے خلاف ہے۔ آج تک کسی ایک مفسر نے ان آیات کا یہ ترجمہ نہیں کیا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…