حسان بن علی اور یہ واضح رہے کہ انکارِ حجیتِ حدیث کے حوالے سے غلام احمد پرویز، اسی طرح عبداللہ چکڑالوی کا درجہ ایک سا ہے کہ وہ اسے کسی طور دین میں حجت ماننے کے لیے تیار نہیں (غلام احمد پرویز حديث کو صرف سیرت کی باب میں قبول کرتے ہیں، دیکھیے کتاب مقام حدیث) اور اس سے کم...
تفسیر کے لئے بنیادی شرط اور غامدی صاحب – قسط سوم
تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (1)
حسان بن علی غامدی صاحب کے اسلاف میں ماضی کی ایک اور شخصیت غلام قادیانی، حدیث کے مقام کے تعین میں لکھتے ہیں : "مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لیے تین چیزیں ہیں. ١) قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جسے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ...
تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف
حسان بن علی غامدی صاحب کے اسلاف میں ايک اور شخصیت، معروف بطور منکرِ حجيتِ حدیث، اسلم جيراجپوری صاحب، حقیقت حدیث بیان کرتے ہوئے اختتامیہ ان الفاظ میں کرتے ہیں "قرآن دین کی مستقل کتاب ہے اور اجتماعی اور انفرادی ہر لحاظ سے ہدایت کے لیے کافی ہے وہ انسانی عقل کے سامنے ہر...
بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے
ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...
کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...
حدیث کی نئی تعیین
محمد دین جوہر میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ”قرآن مجید تاریخ ہے“۔ اب محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف تاریخ کی کتاب ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو محترم غامدی صاحب قرآن مجید کو بھی تاریخ (سرگزشت انذار) ہی...
مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمہ اللہ
۔(4) غامدی صاحب نے خطیب بغدادی کی کتاب “الکفایة فی علوم الروایہ” کی عبارت نقل کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے:
“ولا يُقبل خبر الواحد في مناقضة حكم العقل و حكم القرآن الثابت المحکم و السنة المعلومة و الفعل الجاري مجرى السنة و کل دلیل مقطوع بہ” (المیدان: ۶۳)
اس عبارت کے آخری حصّے “و کل دلیل مقطوع بہ” کا عطف ماقبل پر ہے، اس لیے ترجمہ یوں ہوگا: “اور وہ (خبر واحد) کسی دلیل قطعی کے خلاف ہو”۔ مگر غامدی صاحب نے اس جملے کو معطوفہ بنانے کی بجائے اسے مستقل جملہ قرار دے کر ترجمہ کیا، جو معنی کو غیر ضروری طور پر مبہم بناتا ہے۔ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح خبرِ واحد قرآنِ مجید کے کسی ثابت و محکم حکم کے خلاف ہو تو وہ قبول نہیں کی جاتی اسی طرح اگر وہ کسی دلیلِ قطعی کے خلاف ہو تو وہ بھی قابلِ قبول نہ ہوگی۔ غامدی صاحب نے یہاں معانی کے لحاظ سے غلطی کی ہے اور عبارت کو بے دلیل طور پر توڑا ہے۔
۔(5) غامدی صاحب نے بخاری شریف کی ایک روایت نقل کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے:
“فرض رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زکوة الفطر صاعًا من تمرٍ أو صاعًا من شعیرٍ على الحر و العبد”
ترجمہ کرتے ہوئے انہوں نے الفاظ “ہر فرد کے لیے” کا اضافہ کیا، حالانکہ روایت میں ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ اس اضافے سے ترجمہ کا مفہوم بدل جاتا ہے اور یہ اضافی عبارت غیر مستند ہے۔ روایت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ صدقہِ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جؤ یا اسی قسم کے دانے فرض کی گئی ہیں جو غلام ہو یا آزاد، ہر مسلمان کے لیے واجب ہے — مگر اضافی الفاظ روایت کے متن میں موجود نہیں ہیں اور انہیں تراجم میں شامل کرنا درست نہیں۔
۔(6) غامدی صاحب نے مکہ کی حرمت سے متعلق بخاری کی روایت نقل کر کے “لا یعضد شوکہ” کا ترجمہ کیا: “نہ اس کے کانٹوں والے درخت کاٹے جائیں گے” (میزان: ۳۸۴)۔ اس ترجمہ میں دو خامیاں ہیں: پہلی یہ کہ اس جملے کو مضارعِ مستقبل کے معنی میں بیان کیا گیا، جبکہ شراحِ حدیث نے واضح کیا ہے کہ یہ فعلِ مضارع ہونے کے باوجود معنیِ تحریم میں آیا ہے؛ یعنی حکمِ نہی ہے — حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امت سے فرماتے ہیں کہ حرمی علاقوں میں درخت نہ کاٹے جائیں۔ دوسری خامی یہ ہے کہ “شوک” کو “کانٹوں والے درخت” سے تعبیر کر کے یہ ظاہر کیا گیا کہ صرف کانٹوں والے درخت منع ہیں، جبکہ اصل مراد حرمی علاقے کے تمام درخت ہیں، قطعِ درختِ حرم منع ہے چاہے اس میں کانٹے ہوں یا نہ ہوں۔ لہٰذا غامدی صاحب کا “شوک” کو مخصوص معنی دینا غلط ہے۔
۔(7) راقم الحروف نے علمِ ادبِ عربی کی اکثر کتب میں مفسرِ قرآنِ مجید، مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید صاحب سواتی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف پڑھی ہیں۔ دیگر فنون کی مانند اس فن میں بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں کمالِ فہم و ذوق عطا فرمایا تھا؛ وہ لفظ کی لغوی، اصطلاحی، صرفی اور نحوی بحث کے ساتھ ساتھ کلام میں پائے جانے والے حسن و قبح کے اسباب بھی واضح فرماتے تھے۔ ایک موقع پر ایک شعر پر بحث کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک شاعر نے اس کا اردو ترجمہ کیا مگر اس نے معنی کا اُس حصہ بالکل نظر انداز کر دیا، اس لیے کہ شعر میں جس جملے کی وجہ سے حسن پیدا ہوتا ہے اُس حصے کو ختم کر کے مفہوم تباہ کر دیا گیا تھا۔
جب راقم الحروف نے غامدی صاحب کی طرف سے پیش کردہ ایک عبارت اور اس کا ترجمہ دیکھا تو بے ساختہ زبان سے نکلا کہ “اس نے تو ستیا ناس کر دیا ہے”۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ ایک عورت کو اُس کے خاوند نے طلاق دی تو وہ دوسرے شخص سے نکاح کر گئی؛ پھر دوسرے نکاح کے بعد جب وہ دوبارہ پہلے خاوند کی طرف رجوع کرنے کی خواہش کرنے لگی تو اس نے اپنی بیوی کو ایسے القابات سے پکارا جن سے اس کی نامرادی اور شادی کے لائق نہ ہونے کا تاثر ملا۔ اس پر خاوند نے اپنی قوتِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: “كذبت والله يا رسول الله إنّی لأَنْفضُها نفضَ الأَدِيمِ” — “اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول! میں اِسے ایسے جھٹکوں گا جیسے دباغت کرنے والا چمڑے کو جھٹکتا ہے”۔ غامدی صاحب نے “إلى أنفضها نفضَ الأدِيمِ” کا ترجمہ کر کے مفہوم کو بدل دیا؛ وہ مرادِ قائل (نفض کے صیغے) کو نظرانداز کر گئے اور ترجمہ سے مزاحیہ یا ناواقفانہ معنی پیدا ہو گئے۔ اس قسم کے تراجم ان لوگوں کے لیے مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں جو زبانِ عربی سے کچھ واقف ہوں۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
حدیث کی نئی تعیین
محمد دین جوہر میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ...
ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار
محمد خزیمہ الظاہری پہلے بھی عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے باقاعدہ طور پر...
مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟
ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید...