مولانا واصل واسطی جناب غامدی دوباتیں باربار دہراتے ہیں مگر ان کے لیے دلائل فراہم کرنا اپنی ذمہ داری نہیں مانتے ۔ایک بات جو ابھی ابھی گذری ہے کہ قران کے الفاظ کی دلالات اس کے مفہوم پر بالکل قطعی ہیں ، وہ جوکچھ کہنا چاھتاہے پوری قطعیت کے ساتھ کہتاہے اور کسی معاملے میں...
تفسیر کے لئے بنیادی شرط اور غامدی صاحب – قسط سوم
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 14)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی جیساکہ گزرا تمام الفاظ ، جمل ، اورتراکیب و اسالیب کو قطعی الدلالة قراردیتے ہیں ۔انھوں فخرِرازی کی ایک عبارت نقل کی ہے جو ان کے ،، استاد امام ،، نے بھی نقل کی ہے کہ کلامِ لفظی مفیدِقطع ویقین نہیں ہے ۔فخرِرازی کی اس بات پر جناب غامدی نے شاہ...
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط دہم)
ڈاکٹر خضر یسین ہر سنجیدہ متن میں "نظم کلام" بہت ضروری شے ہوتا ہے۔ متن کی نوعیت چاہے علمی ہو، عملی ہو، ادبی ہو یا روحانی، "نظم کلام" کے بغیر قابل فہم ہی نہیں، قابل قرآت بھی نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں بھی "نظم کلام" موجود ہے۔ یہ نظم "سیاق کلام" کا پیدا کردہ ہے۔ غامدی صاحب...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 13)
مولانا واصل واسطی ہم نے گذشتہ پوسٹ میں قران کے قطعی الدلالة ہونے کی طرف اشارہ کیا تھا ، کہ قران کی تمام آیات اپنے مفہوم میں قطعی الدلالة نہیں ہیں ، بعض الفاظ ، اسالیب اور تراکیب ظنی الدلالة بھی ہوتے ہیں ، لیکن جناب غامدی قران کی تمام آیات اور تمام کلمات کو قطعی...
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط نہم)
ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب قرآن مجید کو ہدایت کے بجائے دعوت مانتے ہیں، نہیں صرف دعوت ہی نہیں بلکہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سرگزشت انذار کا عنوان دیتے ہیں۔ جس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ مابعد دور رسالت میں قرآن مجید کی حیثیت الوہی ہدایت کے بجائے، نبی صلی اللہ علیہ...
بیان کی بحث پر غامدی صاحب اور ان کے مدافعین کا خلط مبحث
ڈاکٹر زاہد مغل اس پر ہم پہلے بھی روشنی ڈال چکے ہیں، مزید وضاحت کی کوشش کرتے ہیں۔ محترم غامدی صاحب کا فرمایا ہے کہ تبیین کا مطلب کلام کے اس فحوی کو بیان کرنا ہے جو ابتدا ہی سے کلام میں موجود ہو۔ کلام کے وجود میں آجانے کے بعد کیا جانے والا کسی بھی قسم کا تغیر تبیین نہیں...
مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمہ اللہ
۔(4) غامدی صاحب نے خطیب بغدادی کی کتاب “الکفایة فی علوم الروایہ” کی عبارت نقل کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے:
“ولا يُقبل خبر الواحد في مناقضة حكم العقل و حكم القرآن الثابت المحکم و السنة المعلومة و الفعل الجاري مجرى السنة و کل دلیل مقطوع بہ” (المیدان: ۶۳)
اس عبارت کے آخری حصّے “و کل دلیل مقطوع بہ” کا عطف ماقبل پر ہے، اس لیے ترجمہ یوں ہوگا: “اور وہ (خبر واحد) کسی دلیل قطعی کے خلاف ہو”۔ مگر غامدی صاحب نے اس جملے کو معطوفہ بنانے کی بجائے اسے مستقل جملہ قرار دے کر ترجمہ کیا، جو معنی کو غیر ضروری طور پر مبہم بناتا ہے۔ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح خبرِ واحد قرآنِ مجید کے کسی ثابت و محکم حکم کے خلاف ہو تو وہ قبول نہیں کی جاتی اسی طرح اگر وہ کسی دلیلِ قطعی کے خلاف ہو تو وہ بھی قابلِ قبول نہ ہوگی۔ غامدی صاحب نے یہاں معانی کے لحاظ سے غلطی کی ہے اور عبارت کو بے دلیل طور پر توڑا ہے۔
۔(5) غامدی صاحب نے بخاری شریف کی ایک روایت نقل کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے:
“فرض رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زکوة الفطر صاعًا من تمرٍ أو صاعًا من شعیرٍ على الحر و العبد”
ترجمہ کرتے ہوئے انہوں نے الفاظ “ہر فرد کے لیے” کا اضافہ کیا، حالانکہ روایت میں ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ اس اضافے سے ترجمہ کا مفہوم بدل جاتا ہے اور یہ اضافی عبارت غیر مستند ہے۔ روایت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ صدقہِ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جؤ یا اسی قسم کے دانے فرض کی گئی ہیں جو غلام ہو یا آزاد، ہر مسلمان کے لیے واجب ہے — مگر اضافی الفاظ روایت کے متن میں موجود نہیں ہیں اور انہیں تراجم میں شامل کرنا درست نہیں۔
۔(6) غامدی صاحب نے مکہ کی حرمت سے متعلق بخاری کی روایت نقل کر کے “لا یعضد شوکہ” کا ترجمہ کیا: “نہ اس کے کانٹوں والے درخت کاٹے جائیں گے” (میزان: ۳۸۴)۔ اس ترجمہ میں دو خامیاں ہیں: پہلی یہ کہ اس جملے کو مضارعِ مستقبل کے معنی میں بیان کیا گیا، جبکہ شراحِ حدیث نے واضح کیا ہے کہ یہ فعلِ مضارع ہونے کے باوجود معنیِ تحریم میں آیا ہے؛ یعنی حکمِ نہی ہے — حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امت سے فرماتے ہیں کہ حرمی علاقوں میں درخت نہ کاٹے جائیں۔ دوسری خامی یہ ہے کہ “شوک” کو “کانٹوں والے درخت” سے تعبیر کر کے یہ ظاہر کیا گیا کہ صرف کانٹوں والے درخت منع ہیں، جبکہ اصل مراد حرمی علاقے کے تمام درخت ہیں، قطعِ درختِ حرم منع ہے چاہے اس میں کانٹے ہوں یا نہ ہوں۔ لہٰذا غامدی صاحب کا “شوک” کو مخصوص معنی دینا غلط ہے۔
۔(7) راقم الحروف نے علمِ ادبِ عربی کی اکثر کتب میں مفسرِ قرآنِ مجید، مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید صاحب سواتی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف پڑھی ہیں۔ دیگر فنون کی مانند اس فن میں بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں کمالِ فہم و ذوق عطا فرمایا تھا؛ وہ لفظ کی لغوی، اصطلاحی، صرفی اور نحوی بحث کے ساتھ ساتھ کلام میں پائے جانے والے حسن و قبح کے اسباب بھی واضح فرماتے تھے۔ ایک موقع پر ایک شعر پر بحث کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک شاعر نے اس کا اردو ترجمہ کیا مگر اس نے معنی کا اُس حصہ بالکل نظر انداز کر دیا، اس لیے کہ شعر میں جس جملے کی وجہ سے حسن پیدا ہوتا ہے اُس حصے کو ختم کر کے مفہوم تباہ کر دیا گیا تھا۔
جب راقم الحروف نے غامدی صاحب کی طرف سے پیش کردہ ایک عبارت اور اس کا ترجمہ دیکھا تو بے ساختہ زبان سے نکلا کہ “اس نے تو ستیا ناس کر دیا ہے”۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ ایک عورت کو اُس کے خاوند نے طلاق دی تو وہ دوسرے شخص سے نکاح کر گئی؛ پھر دوسرے نکاح کے بعد جب وہ دوبارہ پہلے خاوند کی طرف رجوع کرنے کی خواہش کرنے لگی تو اس نے اپنی بیوی کو ایسے القابات سے پکارا جن سے اس کی نامرادی اور شادی کے لائق نہ ہونے کا تاثر ملا۔ اس پر خاوند نے اپنی قوتِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: “كذبت والله يا رسول الله إنّی لأَنْفضُها نفضَ الأَدِيمِ” — “اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول! میں اِسے ایسے جھٹکوں گا جیسے دباغت کرنے والا چمڑے کو جھٹکتا ہے”۔ غامدی صاحب نے “إلى أنفضها نفضَ الأدِيمِ” کا ترجمہ کر کے مفہوم کو بدل دیا؛ وہ مرادِ قائل (نفض کے صیغے) کو نظرانداز کر گئے اور ترجمہ سے مزاحیہ یا ناواقفانہ معنی پیدا ہو گئے۔ اس قسم کے تراجم ان لوگوں کے لیے مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں جو زبانِ عربی سے کچھ واقف ہوں۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 29)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی مسئلہِ قراءآت پر چوتھا اعتراض یوں کرتے ہیں...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 28)
مولانا واصل واسطی تیسرااعترض جناب غامدی نے اس روایت پر یہ کیاہے کہ ،، سوم...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 27)
مولانا واصل واسطی تیسری گزارش جناب غامدی کے اس قول کے حوالے سے یہ ہے کہ...