تفسیر کے لئے بنیادی شرط اور غامدی صاحب – قسط دوم

Published On September 27, 2025
جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال

جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے جمعے کی نماز کی فرضیت کا بھی انکار کر دیا ہے ۔ اور روزے کی رخصت میں بھی توسیع فرما دی ہے ۔ جمعے کی نماز کی عدمِ فرضیت پر جناب کا استدلال ہے کہ مسلم ریاست میں خطبہ سربراہِ ریاست یا اسکے حکم سے اسکے نمائندے کا حق...

عورت کی امامت اور غامدی صاحب

عورت کی امامت اور غامدی صاحب

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے عورت کی امامت کو جائز قرار دے دیا ہے ۔ اور دلیل یہ ہے کہ ایسی باقاعدہ ممانعت کہیں بھی نہیں ہے کہ عورت امام نہیں بن سکتی ۔ لیکن ایسا استدلال درست نہیں ہے ۔ ہم انہیں اجماعِ امت سے منع کریں گے کہ صحابہ میں ایسا کبھی...

مسئلہ رجم اور تکفیرِ کافر

مسئلہ رجم اور تکفیرِ کافر

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن اول - جاوید احمد غامدی نے رجم کا انکار کیا ہے ۔ رجم کا مطلب ہے کہ شادی شدہ افراد زنا کریں تو انہیں سنگسار کیا جائے گا ۔انکا استدلال یہ ہے کہ قرآن میں زنا کی سزا رجم نہیں ہے بلکہ کوڑے ہیں ۔ " الزانیۃ الزانی فالجلدوا کل...

واقعہ معراج اور غامدی صاحب

واقعہ معراج اور غامدی صاحب

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن جسمانی معراج کے انکار پر غامدی صاحب کا استدلال " وما جعلنا الرؤیا التی" کے لفظ رویا سے ہے ۔حالانکہ یہاں لفظ رویا میں خواب اور رویت بمعنی منظر دونوں کا احتمال ہے اور واقعے کے جسمانی یا روحانی ہونے پر قرآن کا بیان جہاں سے شروع...

تصوف کے ظروف پر چند غلط العام استدلال

تصوف کے ظروف پر چند غلط العام استدلال

 ڈاکٹر زاہد مغل - پہلا: جب ناقدین سے کہا جائے کہ "قرآن و سنت کو سمجھ کر احکامات اخذ (یعنی "خدا کی رضا" معلوم) کرنے کے لئے اگر یونانیوں کے وضع کردہ طرق استنباط سیکھنا سکھانا اور استعمال کرنا جائز ہے، جب کہ سنت نبوی میں انکی تعلیم کا کوئی بھی ذکر نہیں ملتا، تو صوفیاء...

کیا وحی کے ساتھ الہام، القا اور کشف بھی صرف نبی کے ساتھ مخصوص ہیں؟

کیا وحی کے ساتھ الہام، القا اور کشف بھی صرف نبی کے ساتھ مخصوص ہیں؟

 محمد فیصل شہزاد معترضین ایک حدیث مبارکہ سناتے ہیں، جس میں ارشاد نبوی ہے: مفہوم: "میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی سوائے مبشرات کے، آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھے یا نیک خواب۔‘‘...

مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمہ اللہ

۔(1) غامدی صاحب نے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا ذکر کرتے ہوئے السیرۃ النبوية اور ابن کثیر کے حوالہ سے ولید بن مغیرہ کا کلام نقل کیا ہے، جس کے ابتدائی الفاظ ہیں:
“والله ما منكم رجل أعرف بالأشعار مني، ولا أعلم برِجزه ولا بقصيدة مني ولا بأشعار الجن”
بخدا تم میں سے کوئی شخص مجھ سے زیادہ شعریات میں ماہر نہیں، نہ میں اس کے رجز اور نہ قصیدہ سے واقف ہوں اور نہ جنوں کے اشعار سے۔ (میزان: ۱۷)

اس عبارت میں “ولا بأشعار الجن” کے الفاظ ہیں جس کا غامدی صاحب نے ترجمہ “اور نہ جنوں کے الہام” کیا ہے۔ یہ ترجمہ مناسب نہیں ہے، کیونکہ یہاں عبارتی سیاق و سباق کے اعتبار سے “اشعار” یعنی “اشعارِ جن” کا مفہوم قریب ترین ہے؛ “الہام” کو معنی دینا بعیدِ معنی ہے۔ علاوہ ازیں ترجمعہ کرتے وقت عموم و خصوص کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے؛ یہاں کلام کی فضیلت بیان ہو رہی ہے، اس لیے “اشعار” کا ترجمہ “جنوں کے اشعار” رکھنا زیادہ مناسب ہے۔ الہام کبھی کلامی ہوتا ہے اور کبھی قلبی؛ یہاں “اشعار” کو “الہام” کہنا معنی کو مبتور کر دیتا ہے۔

۔(2) غامدی صاحب نے مسلم شریف کی روایت نقل کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے، الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ کنوارے مرد و عورت کی سزا سو کوڑے اور جلا وطن کرنا ہے، اور شادی شدہ مرد و عورت کی سزا سو کوڑے اور سنگسار ہے۔ اس عبارت کی تشریح شارحین یوں کرتے ہیں کہ “البکر” سے مراد وہ کنوارا مرد یا کنواری عورت ہے جو ابتدا میں نابالغ یا غیر شادی شدہ ہو، اور “الشیب” سے مراد شادی شدہ شخص ہے۔ البکر اور الشیب کا ربط زنی فعل کے ساتھ ہے۔ مگر غامدی صاحب نے ‘باء’ (ب) کو ‘مع’ کے معنٰی میں لے کر ترجمہ کیا ہے کہ “کنوارے کنواریوں کے ساتھ ہوں گے اور شادی شدہ مرد و عورت سزا کے لحاظ سے ساتھ ساتھ ہوں گے”؛ حالانکہ ‘باء’ کو جمع کے معنی میں لینے کا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس ترجمہ کے ساتھ عبارت کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔

۔(3) غامدی صاحب نے دو جگہ امام البلاغۃ زمخشری کی عبارت کو اختصار کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے، جس کا آخری حصہ یوں ہے:
“والاختصار العادة والتعارف قالوا: من حلف ألا يأكل لحمًا فأكل سمكًا لم يحدث، وإن أكل لحماً في الحقيقة” (میزان: ۱۳۱، ۲۶۳۲)

اس عبارت کے آخر میں “وإن أكل لحماً في الحقيقة” میں ‘واو’ وصلیہ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ “اگرچہ اس نے حقیقت میں گوشت کھایا ہے”؛ غامدی صاحب نے اس ‘واو’ کو حالیہ قرار دے کر معنی کیا: “دران حالیکہ اس نے حقیقت میں گوشت کھایا ہے”۔ حالانکہ واؤِ وصلیہ کو حالیہ تصور کرنا محلِ تامل نہیں؛ حال و قید کے لیے مخصوص قرائن ہوتے ہیں۔ اس طرح غامدی صاحب کی اس تحریف سے عبارت کا مفہوم بدل جاتا ہے اور نتیجہ غلط نکلتا ہے۔ اصل مفہوم یہ ہے کہ عرف و عادت کی بنا پر فقہائ نے کہا ہے کہ اگر کسی نے قسم کھائی کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا اور بعد میں مچھلی کھا لی تو اس کی قسم منہ بوجھ نہیں ہوگی، حالانکہ حقیقت میں اس نے گوشت کھایا تھا؛ مگر اس کا مقام اور قرائن مختلف ہیں، اور غامدی صاحب نے ان قرائن سے غفلت کی ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…