تفسیر کے لئے بنیادی شرط اور غامدی صاحب – قسط دوم

Published On September 27, 2025
غامدی صاحب کاجوابی بیانیہ، تکفیر کے مسئلے پر فکری انتشار

غامدی صاحب کاجوابی بیانیہ، تکفیر کے مسئلے پر فکری انتشار

طارق محمود ہاشمی تکفیر کے جواز کے بارے میں بعض متجددین نے ایک خلطِ مبحث پیدا کر دیا ہے، اسی سلسلے کی ایک کڑی جاوید غامدی صاحب کا ”جوابی بیانیہ“ بھی ہے، جس میں تکفیر کے مسئلے میں متشددانہ نقطہ اختیار کیا گیا ہے۔ ایک تو تکفیر کو سرے سے ممنوع قرار دیا ہے جس کی غرض یہ...

غامدی صاحب کا اسلام : ارتداد کی سزا

غامدی صاحب کا اسلام : ارتداد کی سزا

ناقد : مفتی یاسر ندیم واجدی  تلخیص : زید حسن سائل  نوید افضل   : غامدی صاحب "اعتراضات کا جائزہ" کے عنوان سے جوابات دے رہے ہیں ۔ جس میں ارتداد کی سزا کی بابت انہوں نے فرمایا ہے کہ اس کی سزا قتل نہیں ہے ۔ اسکی تین وجوہات انہوں نے ذکر کی ہیں ۔ اول  ۔ لا اکراہ فی الدین سے...

فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن قطعی الدلالہ یا ظنی الدلالہ (قسط ششم)

فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن قطعی الدلالہ یا ظنی الدلالہ (قسط ششم)

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر تلخیص : وقار احمد اس ویڈیو میں ہم میزان کے باب کلام کی دلالت پر گفتگو کریں گے غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ " دنیا کی ہر زندہ زبان کے الفاظ و اسالیب جن مفاہیم پر دلالت کرتے ہیں ، وہ سب متواترات پر مبنی اور ہر لحاظ سے بالکل قطعی ہوتے ہیں ۔ لغت و...

فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن قطعی الدلالہ یا ظنی الدلالہ (قسط ششم)

فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن فہمی کے بنیادی اصول (قسط پنجم)

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر تلخیص : وقار احمد اس ویڈیو میں جمع و تدوین قرآن سے متعلق غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ لیا گیا ہے ، غامدی صاحب نے ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰنَہٗ ، فَاِذَا قَرَاْنٰہٗ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ ، ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ.(القیامہ ۷۵:...

اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط پنجم

اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط پنجم

مسرور اعظم فرخ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ریاست کو اسلامی قرار دینے کے بعد غامدی صاحب کے نزدیک’’تفریق پیدا ہو جانے سے مسلمانوں میں فساد برپا ہو گیا ‘‘تو یہ تفریق یا فساد ریاست کو اسلامی قرار دینے کے تصور نے پیدا نہیں کیا، بلکہ یہ اُنہی ’’بے توفیق فقیہان حرم کی‘‘...

اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط پنجم

اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط چہارم

مسرور اعظم فرخ ہر معاشرت ایک سیاسی نظام کے تحت ہی پنپتی ہے کسی عقیدے ہی کے تحت اپنی ساخت کو بروئے کار لاتی ہے اور اسے برقرار رکھتی ہے۔دنیا کی پوری سیاسی تاریخ میں کوئی ایک ریاست بھی ایسی نہیں گزری جو بغیر کسی عقیدے کی بنیاد کے وجود میں آگئی ہو۔ریاست کے اسلامی تصورّ سے...

مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمہ اللہ

۔(1) غامدی صاحب نے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا ذکر کرتے ہوئے السیرۃ النبوية اور ابن کثیر کے حوالہ سے ولید بن مغیرہ کا کلام نقل کیا ہے، جس کے ابتدائی الفاظ ہیں:
“والله ما منكم رجل أعرف بالأشعار مني، ولا أعلم برِجزه ولا بقصيدة مني ولا بأشعار الجن”
بخدا تم میں سے کوئی شخص مجھ سے زیادہ شعریات میں ماہر نہیں، نہ میں اس کے رجز اور نہ قصیدہ سے واقف ہوں اور نہ جنوں کے اشعار سے۔ (میزان: ۱۷)

اس عبارت میں “ولا بأشعار الجن” کے الفاظ ہیں جس کا غامدی صاحب نے ترجمہ “اور نہ جنوں کے الہام” کیا ہے۔ یہ ترجمہ مناسب نہیں ہے، کیونکہ یہاں عبارتی سیاق و سباق کے اعتبار سے “اشعار” یعنی “اشعارِ جن” کا مفہوم قریب ترین ہے؛ “الہام” کو معنی دینا بعیدِ معنی ہے۔ علاوہ ازیں ترجمعہ کرتے وقت عموم و خصوص کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے؛ یہاں کلام کی فضیلت بیان ہو رہی ہے، اس لیے “اشعار” کا ترجمہ “جنوں کے اشعار” رکھنا زیادہ مناسب ہے۔ الہام کبھی کلامی ہوتا ہے اور کبھی قلبی؛ یہاں “اشعار” کو “الہام” کہنا معنی کو مبتور کر دیتا ہے۔

۔(2) غامدی صاحب نے مسلم شریف کی روایت نقل کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے، الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ کنوارے مرد و عورت کی سزا سو کوڑے اور جلا وطن کرنا ہے، اور شادی شدہ مرد و عورت کی سزا سو کوڑے اور سنگسار ہے۔ اس عبارت کی تشریح شارحین یوں کرتے ہیں کہ “البکر” سے مراد وہ کنوارا مرد یا کنواری عورت ہے جو ابتدا میں نابالغ یا غیر شادی شدہ ہو، اور “الشیب” سے مراد شادی شدہ شخص ہے۔ البکر اور الشیب کا ربط زنی فعل کے ساتھ ہے۔ مگر غامدی صاحب نے ‘باء’ (ب) کو ‘مع’ کے معنٰی میں لے کر ترجمہ کیا ہے کہ “کنوارے کنواریوں کے ساتھ ہوں گے اور شادی شدہ مرد و عورت سزا کے لحاظ سے ساتھ ساتھ ہوں گے”؛ حالانکہ ‘باء’ کو جمع کے معنی میں لینے کا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس ترجمہ کے ساتھ عبارت کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔

۔(3) غامدی صاحب نے دو جگہ امام البلاغۃ زمخشری کی عبارت کو اختصار کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے، جس کا آخری حصہ یوں ہے:
“والاختصار العادة والتعارف قالوا: من حلف ألا يأكل لحمًا فأكل سمكًا لم يحدث، وإن أكل لحماً في الحقيقة” (میزان: ۱۳۱، ۲۶۳۲)

اس عبارت کے آخر میں “وإن أكل لحماً في الحقيقة” میں ‘واو’ وصلیہ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ “اگرچہ اس نے حقیقت میں گوشت کھایا ہے”؛ غامدی صاحب نے اس ‘واو’ کو حالیہ قرار دے کر معنی کیا: “دران حالیکہ اس نے حقیقت میں گوشت کھایا ہے”۔ حالانکہ واؤِ وصلیہ کو حالیہ تصور کرنا محلِ تامل نہیں؛ حال و قید کے لیے مخصوص قرائن ہوتے ہیں۔ اس طرح غامدی صاحب کی اس تحریف سے عبارت کا مفہوم بدل جاتا ہے اور نتیجہ غلط نکلتا ہے۔ اصل مفہوم یہ ہے کہ عرف و عادت کی بنا پر فقہائ نے کہا ہے کہ اگر کسی نے قسم کھائی کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا اور بعد میں مچھلی کھا لی تو اس کی قسم منہ بوجھ نہیں ہوگی، حالانکہ حقیقت میں اس نے گوشت کھایا تھا؛ مگر اس کا مقام اور قرائن مختلف ہیں، اور غامدی صاحب نے ان قرائن سے غفلت کی ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…