تفسیر کے لئے بنیادی شرط اور غامدی صاحب – قسط دوم

Published On September 27, 2025
اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط سوم

اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط سوم

مسرور اعظم فرخ یہ کہنا کہ اسلامی شریعت میں ریاست یا خلافت کے قیام کا سرے سے کوئی حکم ہی موجود نہیں،دوسوالوں کو ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے۔پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ نتیجہ شروع ہی سے موجود تھا، یعنی کیا ماضی کے ہر دور میں اسلامی ریاست کے قیام کے حوالے سے یہ سوچ اور...

اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط سوم

اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط دوم

مسرور اعظم فرخ  گزشتہ کالم میں غامدی صاحب کے موقف پر براہ راست گفتگو کرنے سے پہلے کچھ اصولی چیزیں بیان کی گئیں تاکہ اگلے مراحل کے مباحث کے لئے ایک مدد گار بنیاد فراہم ہو سکے۔غامدی صاحب اپنے پہلے مضمون (جنگ 22 جنوری 2015ء) میں رقمطراز ہیں:’’یہ خیال بے بنیاد ہے کہ ریاست...

اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط سوم

اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط اول

مسرور اعظم فرخ اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘‘اور ’’ریاست اور حکومت‘‘کے عنوانات سے جاوید غامدی صاحب کے دو مضامین روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا 22جنوری2015ء کو اور دوسرا 21فروری 2015ء کو شائع ہوا۔پہلا مضمون اگر محض الجھاؤ کا شکا ر تھا تو اس کی وضاحت میں...

خلافت : ایک قطعی فرضِ الہی

خلافت : ایک قطعی فرضِ الہی

عمر علی اول ۔ امام الجزيری، جو کہ چودھویں صدی ہجری کے معروف عالم ہیں اور ان کی رائے تقابلی فقہ میں مستند مانی جاتی ہے، نے نقل کیا ہے کہ چاروں امام (ابو حنیفہ، مالک، شافعي، احمد،رحمۃ اللہ عليھم) امامت (خلافت) کو ایک فرض سمجھتے تھے اور اس بات پر بھی متفق تھے کہ مسلمانوں...

عورت کا سوال اور غامدی صاحب کا غلط جواب

عورت کا سوال اور غامدی صاحب کا غلط جواب

ناقد : مولانا طارق مسعود صاحب تلخیص : زید حسن غامدی صاحب سے ایک خاتون نے  رجم کی بابت سوال کیا  کہ " امتِ مسلمہ کی روایت میں تمام بڑے آئمہ محصن کے زنا کی سزا رجم بتاتے ہیں لیکن آپ کہتے ہیں کہ اسکی سزا رجم نہیں بلکہ کوڑے ہیں ۔ تو کیا انہیں قرآن سمجھ میں نہیں آیا تھا" ...

منکرینِ حدیث کا رد : جاوید غامدی کو جواب

منکرینِ حدیث کا رد : جاوید غامدی کو جواب

ناقد : سیف اللہ محمدی  صاحب تلخیص : زید حسن منکرینِ حدیث عمل سے بھاگنے اور خود کو بچانے کے لئے احادیث کا انکار کرتے ہیں ۔ کیونکہ قرآن میں احکامات کا اجمال ہے جبکہ اسکی تفصیل احادیث میں موجود ہے ۔ جیسے قرآن کہتا ہے : نماز پڑھو ، زکوۃ دو  یا بیت اللہ کا حج کرو ۔ اب ان...

مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمہ اللہ

۔(1) غامدی صاحب نے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا ذکر کرتے ہوئے السیرۃ النبوية اور ابن کثیر کے حوالہ سے ولید بن مغیرہ کا کلام نقل کیا ہے، جس کے ابتدائی الفاظ ہیں:
“والله ما منكم رجل أعرف بالأشعار مني، ولا أعلم برِجزه ولا بقصيدة مني ولا بأشعار الجن”
بخدا تم میں سے کوئی شخص مجھ سے زیادہ شعریات میں ماہر نہیں، نہ میں اس کے رجز اور نہ قصیدہ سے واقف ہوں اور نہ جنوں کے اشعار سے۔ (میزان: ۱۷)

اس عبارت میں “ولا بأشعار الجن” کے الفاظ ہیں جس کا غامدی صاحب نے ترجمہ “اور نہ جنوں کے الہام” کیا ہے۔ یہ ترجمہ مناسب نہیں ہے، کیونکہ یہاں عبارتی سیاق و سباق کے اعتبار سے “اشعار” یعنی “اشعارِ جن” کا مفہوم قریب ترین ہے؛ “الہام” کو معنی دینا بعیدِ معنی ہے۔ علاوہ ازیں ترجمعہ کرتے وقت عموم و خصوص کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے؛ یہاں کلام کی فضیلت بیان ہو رہی ہے، اس لیے “اشعار” کا ترجمہ “جنوں کے اشعار” رکھنا زیادہ مناسب ہے۔ الہام کبھی کلامی ہوتا ہے اور کبھی قلبی؛ یہاں “اشعار” کو “الہام” کہنا معنی کو مبتور کر دیتا ہے۔

۔(2) غامدی صاحب نے مسلم شریف کی روایت نقل کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے، الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ کنوارے مرد و عورت کی سزا سو کوڑے اور جلا وطن کرنا ہے، اور شادی شدہ مرد و عورت کی سزا سو کوڑے اور سنگسار ہے۔ اس عبارت کی تشریح شارحین یوں کرتے ہیں کہ “البکر” سے مراد وہ کنوارا مرد یا کنواری عورت ہے جو ابتدا میں نابالغ یا غیر شادی شدہ ہو، اور “الشیب” سے مراد شادی شدہ شخص ہے۔ البکر اور الشیب کا ربط زنی فعل کے ساتھ ہے۔ مگر غامدی صاحب نے ‘باء’ (ب) کو ‘مع’ کے معنٰی میں لے کر ترجمہ کیا ہے کہ “کنوارے کنواریوں کے ساتھ ہوں گے اور شادی شدہ مرد و عورت سزا کے لحاظ سے ساتھ ساتھ ہوں گے”؛ حالانکہ ‘باء’ کو جمع کے معنی میں لینے کا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس ترجمہ کے ساتھ عبارت کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔

۔(3) غامدی صاحب نے دو جگہ امام البلاغۃ زمخشری کی عبارت کو اختصار کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے، جس کا آخری حصہ یوں ہے:
“والاختصار العادة والتعارف قالوا: من حلف ألا يأكل لحمًا فأكل سمكًا لم يحدث، وإن أكل لحماً في الحقيقة” (میزان: ۱۳۱، ۲۶۳۲)

اس عبارت کے آخر میں “وإن أكل لحماً في الحقيقة” میں ‘واو’ وصلیہ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ “اگرچہ اس نے حقیقت میں گوشت کھایا ہے”؛ غامدی صاحب نے اس ‘واو’ کو حالیہ قرار دے کر معنی کیا: “دران حالیکہ اس نے حقیقت میں گوشت کھایا ہے”۔ حالانکہ واؤِ وصلیہ کو حالیہ تصور کرنا محلِ تامل نہیں؛ حال و قید کے لیے مخصوص قرائن ہوتے ہیں۔ اس طرح غامدی صاحب کی اس تحریف سے عبارت کا مفہوم بدل جاتا ہے اور نتیجہ غلط نکلتا ہے۔ اصل مفہوم یہ ہے کہ عرف و عادت کی بنا پر فقہائ نے کہا ہے کہ اگر کسی نے قسم کھائی کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا اور بعد میں مچھلی کھا لی تو اس کی قسم منہ بوجھ نہیں ہوگی، حالانکہ حقیقت میں اس نے گوشت کھایا تھا؛ مگر اس کا مقام اور قرائن مختلف ہیں، اور غامدی صاحب نے ان قرائن سے غفلت کی ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…