مولانا واصل واسطی جناب غامدی کےاس کلیہ پرہم نےمختصر بحث گذشتہ مضمون میں کی تھی ۔مگر احبابِ کرام اس کو تازہ کرنے کے لیے ذرا جناب غامدی کی عبارت کا وہ ٹکڑا ایک بار پھر دیکھ لیں وہ لکھتے ہیں ۔"پہلی ( بات) یہ کہ قران کے باہر کوئی وحی خفی یا جلی ، یہاں تک کے خداکا وہ...
تفسیر کے لئے بنیادی شرط اور غامدی صاحب – قسط دوم
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 9)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے دوسری ایک ایسی بات لکھی ہے کہ جس کو ہم جیسے گناہ گار بندوں کو بھی کہنے سے ڈرلگتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ،، یہاں تک کہ خداکا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ (قران) نازل ہواہے ، اس کےکسی حکم کی تحدید وتخصیص یا اس میں کوئی ترمیم وتغیرنہیں کرسکتا ۔ پتہ...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 8)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے جو تیسری آیت اس سلسلہ میں استدلال کے لیے پیش کی ہے وہ سورۃ المائدہ کی 48 نمبر آیت ہے ۔وہ پھر ان تین آیتوں سے کچھ مصنوعی قواعد بناتے ہیں ۔ جس کا ہم آگے چل کر تجزیہ پیش کرینگے ۔ مگر اس آیت کا تعلق ماضی کے صحیفوں سے ہے ۔کہ قرآن ان پر...
دورانِ عدت نکاح پر غامدی صاحب کی غلط فہمیاں
پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت کے دوران میں نکاح کے متعلق غامدی صاحب اور ان کے داماد کی گفتگو کا ایک کلپ کسی نے شیئر کیا اور اسے دیکھ کر پھر افسوس ہوا کہ بغیر ضروری تحقیق کیے دھڑلے سے بڑی بڑی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اگر غامدی صاحب اور ان کے داماد صرف اپنا نقطۂ نظر...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 7)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے قرآن مجید کے متعلق بھی مختصر سی بحث کی ہے ۔جس پر بہت کچھ کہنے کے لیے موجود ہے مگر ہم اس کی تفصیل کرنے سے بقصدِ اختصار اعراض کرتے ہیں ۔ جناب نے قرآن کے اوصاف میں ایک وصف ،، فرقان ،، ذکر کیاہے ۔اور دوسرا وصف ،، میزان ،، ذکرکیاہے ۔پھراس...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 6)
مولانا واصل واسطی ہم اس وقت ،، حدیث وسنت ،، کے موضوع سے ایک اور بحث کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ کیونکہ جناب غامدی نے ،، حدیث اور سنت ،، نے مبحث کو مختلف مقامات میں پھیلا رکھاہے۔درمیان میں دیگر مباحث چھیڑ دیئے ہیں ، ہم بھی انہیں کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جاوید غامدی نے...
مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمہ اللہ
۔(1) غامدی صاحب نے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا ذکر کرتے ہوئے السیرۃ النبوية اور ابن کثیر کے حوالہ سے ولید بن مغیرہ کا کلام نقل کیا ہے، جس کے ابتدائی الفاظ ہیں:
“والله ما منكم رجل أعرف بالأشعار مني، ولا أعلم برِجزه ولا بقصيدة مني ولا بأشعار الجن”
بخدا تم میں سے کوئی شخص مجھ سے زیادہ شعریات میں ماہر نہیں، نہ میں اس کے رجز اور نہ قصیدہ سے واقف ہوں اور نہ جنوں کے اشعار سے۔ (میزان: ۱۷)
اس عبارت میں “ولا بأشعار الجن” کے الفاظ ہیں جس کا غامدی صاحب نے ترجمہ “اور نہ جنوں کے الہام” کیا ہے۔ یہ ترجمہ مناسب نہیں ہے، کیونکہ یہاں عبارتی سیاق و سباق کے اعتبار سے “اشعار” یعنی “اشعارِ جن” کا مفہوم قریب ترین ہے؛ “الہام” کو معنی دینا بعیدِ معنی ہے۔ علاوہ ازیں ترجمعہ کرتے وقت عموم و خصوص کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے؛ یہاں کلام کی فضیلت بیان ہو رہی ہے، اس لیے “اشعار” کا ترجمہ “جنوں کے اشعار” رکھنا زیادہ مناسب ہے۔ الہام کبھی کلامی ہوتا ہے اور کبھی قلبی؛ یہاں “اشعار” کو “الہام” کہنا معنی کو مبتور کر دیتا ہے۔
۔(2) غامدی صاحب نے مسلم شریف کی روایت نقل کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے، الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ کنوارے مرد و عورت کی سزا سو کوڑے اور جلا وطن کرنا ہے، اور شادی شدہ مرد و عورت کی سزا سو کوڑے اور سنگسار ہے۔ اس عبارت کی تشریح شارحین یوں کرتے ہیں کہ “البکر” سے مراد وہ کنوارا مرد یا کنواری عورت ہے جو ابتدا میں نابالغ یا غیر شادی شدہ ہو، اور “الشیب” سے مراد شادی شدہ شخص ہے۔ البکر اور الشیب کا ربط زنی فعل کے ساتھ ہے۔ مگر غامدی صاحب نے ‘باء’ (ب) کو ‘مع’ کے معنٰی میں لے کر ترجمہ کیا ہے کہ “کنوارے کنواریوں کے ساتھ ہوں گے اور شادی شدہ مرد و عورت سزا کے لحاظ سے ساتھ ساتھ ہوں گے”؛ حالانکہ ‘باء’ کو جمع کے معنی میں لینے کا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس ترجمہ کے ساتھ عبارت کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔
۔(3) غامدی صاحب نے دو جگہ امام البلاغۃ زمخشری کی عبارت کو اختصار کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے، جس کا آخری حصہ یوں ہے:
“والاختصار العادة والتعارف قالوا: من حلف ألا يأكل لحمًا فأكل سمكًا لم يحدث، وإن أكل لحماً في الحقيقة” (میزان: ۱۳۱، ۲۶۳۲)
اس عبارت کے آخر میں “وإن أكل لحماً في الحقيقة” میں ‘واو’ وصلیہ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ “اگرچہ اس نے حقیقت میں گوشت کھایا ہے”؛ غامدی صاحب نے اس ‘واو’ کو حالیہ قرار دے کر معنی کیا: “دران حالیکہ اس نے حقیقت میں گوشت کھایا ہے”۔ حالانکہ واؤِ وصلیہ کو حالیہ تصور کرنا محلِ تامل نہیں؛ حال و قید کے لیے مخصوص قرائن ہوتے ہیں۔ اس طرح غامدی صاحب کی اس تحریف سے عبارت کا مفہوم بدل جاتا ہے اور نتیجہ غلط نکلتا ہے۔ اصل مفہوم یہ ہے کہ عرف و عادت کی بنا پر فقہائ نے کہا ہے کہ اگر کسی نے قسم کھائی کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا اور بعد میں مچھلی کھا لی تو اس کی قسم منہ بوجھ نہیں ہوگی، حالانکہ حقیقت میں اس نے گوشت کھایا تھا؛ مگر اس کا مقام اور قرائن مختلف ہیں، اور غامدی صاحب نے ان قرائن سے غفلت کی ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 21)
مولانا واصل واسطی دوسرا نکتہ جناب غامدی نے ان کے اپنے الفاظ میں یہ بیان...
کیا علامہ طبری نے آیت “لتبین للناس” سے وہ مراد لی جو غامدی صاحب فرماتے ہیں؟
ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب نے دو ویڈیوز میں سورۃ نحل کی آیت 43...
علامہ زمحشری کی عبارت سے غامدی صاحب کے استدلال پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل علامہ جار اللہ زمحشری (م 538 ھ) کی جس عبارت کو محترم غامدی...