غامدی صاحب لکھتے ہیں "مسلمانوں کے کسی فرد کی تکفیر کا حق قرآن و سنت کی رو سے کسی داعی کو حاصل نہیں ہے، یہ ہوسکتا ہے کہ دین سے جہالت کی بنا پر مسلمانوں میں سے کوئی شخص کفر و شرک کا مرتکب ہو، لیکن وہ اگر اس کو کفر و شرک سمجھ کر خود اس کا اقرار نہیں کرتا تو اس کفرو شرک...
تفسیر کے لئے بنیادی شرط اور غامدی صاحب – قسط اول
غامدی صاحب اور حدیث
مقدمہ 1: غامدی صاحب اپنا ایک اصول حدیث لکھتے ہیں کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنہیں بالعموم 'حدیث' کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہرگز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔" (...
غامدی صاحب اور شرعی پردہ
عور ت کے پردے کے بارے میں جناب جاوید احمدغامدی صاحب کا کوئی ایک موقف نہیں ہے بلکہ وہ وقت اور حالات کے مطابق اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں :کبھی فرماتے ہیں کہ عورت کے لئے چادر، برقعے، دوپٹے اور اوڑھنی کا تعلق دورنبوی کی عرب تہذیب و تمدن سے ہے اور اسلام میں ان کے بارے میں...
غامدی صاحب اور مرتد کی سزا
نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كی مستند احادیث كى بنا پر علماے امت كا مرتد كى سزا قتل ہونے پر اجماع ہے، كتب ِاحاديث اور معتبر كتب ِتاريخ سے ثابت ہے كہ چاروں خلفاے راشدين نے اپنے اپنے دور ِخلافت ميں مرتدين كو ہميشہ قتل كى سزا دى ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدوں کیخلاف...
قرآن اور غامدی صاحب
ایک تحریر میں ہم غامدی صاحب کی قرآن کی معنوی تحریف کی چند مثالیں پیش کرچکے مزید ایک تشریح ملاحظہ فرمائیں۔غامدى صاحب 'اسلام كے حدود و تعزيرات' پر خامہ سرائى كرتے ہوئے لكھتے ہيں: "موت كى سزا قرآن كى رو سے قتل اور فساد فى الارض كے سوا كسى جرم ميں نہيں دى جاسكتى- اللہ...
رجم کی حد اور غامدی صاحب
اسلام میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر ہے جو کہ حد شرعی ہے اس پر دس سے زائد صحیح احادیث موجود ہیں جن سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ آزاد زانیوں پر کوڑوں کی بجائے رجم کی سزانافذ کی۔ ۔ غامدی صاحب اسکے انکاری ہیں ۔ وہ...
مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمہ اللہ
نحمدہ و نصلی علی رسوله الکریم۔ أما بعد
علمائے امت نے قرآن کریم کی تفسیر کرنے والے کے لیے جو شرائط مقرر فرمائی ہیں ان میں حدیث، اصولِ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ، علومِ بلاغت، صرف، نحو اور اسبابِ نزول وغیرہ میں مہارت ہونا ضروری ہے۔ اور سب سے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ عربی لغت میں کامل مہارت رکھتا ہو اور عربی کلمات کے لغوی و اصطلاحی معانی اور کلمات کے استعمال کے مواقع بخوبی جانتا ہو۔ عربی زبان میں مہارت صرف تفسیر کرنے والے کے لیے ہی نہیں بلکہ اس کے لیے بھی ضروری ہے جو پہلے سے ہی کسی عبارت کو براہِ راست اپنی زبان میں نقل کرنا چاہتا ہو۔ اس لیے حضرات علما کرام نے ناقل کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ عربی زبان میں بیان کردہ مفہوم کو اپنی زبان میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
بعض حضرات کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوتا مگر وہ خود یا ان کے متعلقین انہیں اس مرتبے کا سمجھ لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ گمراہی پھیلانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے ایسے حضرات کی حقیقت سے عوام الناس کو آگاہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ محض کسی کی توہین و تذلیل کے لیے اس کے عیب و کمزوری کو ظاہر کرنا پسندیدہ عمل نہیں ہے؛ شریعت نے اس سے منع کیا ہے۔ مگر جب عوام الناس کو کسی فتنہگر کے فتنہ سے بچانا اور دین کی حفاظت مقصود ہو تو فتنہگر کے عیب و کمزوری کو ظاہر کرنا نہ صرف جائز بلکہ واجب بھی ہو جاتا ہے، تاکہ عوام الناس اس کی بات اور عمل کو اسی درجے میں سمجھیں جس درجے کا وہ اہل ہے۔ حضرات محدثین کرام کے ہاں جرح و تعدیل کا اصول بھی اسی مصلحت کے تحت ہے۔ راوی پر جرح کرتے ہوئے اُس کے عیب و کمزوری کو ظاہر کیا جاتا ہے تاکہ اس راوی کی روایت اور اس کے قول کو اس کی حیثیت کے مطابق درجہ دیا جا سکے۔
بعض لوگوں کو مبالغہ آرائی کے ساتھ ایسے مقام تک پہنچا دیا جاتا ہے جس کے وہ اہل نہیں ہوتے۔ ان کی حقیقت سے عوام کو آگاہ کرنا دینی رہنماؤں اور پیشواؤں کا فریضہ ہے۔ جب مولانا مودودی صاحب نے اپنے طرزِ عمل سے اور ان کے پیروکاروں نے مبالغہ آمیز انداز میں انہیں اِجتہاد کے منصب کا اہل سمجھ لیا تو علماءِ امت نے نہ صرف ان کے بعض باطل نظریات کی تردید کی بلکہ ان کی علمی کمزوریوں کو بھی واضح فرمایا تاکہ عوام الناس آگاہ ہو جائیں کہ ہر کمزور علمی بنیاد رکھنے والا اجتہادی منصب کا اہل نہیں ہو سکتا۔ مجاہدِ ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تقریروں میں فرمایا کرتے تھے کہ: جب مودودی صاحب ایک وفد کے ہمراہ مصر گئے تو کسی نے ان سے پوچھا: “آپ کب آئے؟” تو مودودی صاحب نے بعض الفاظ کا الٹ استعمال کیا اور وہ صورتِ حال مضحکہ خیز بن گئی۔ مجاہدِ ملت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ: “جس شخص کو ‘أمس’ اور ‘غداً’ میں فرق معلوم نہ ہو وہ اجتہاد کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے؟”
موجودہ دور میں میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے بعض شخصیات کو بے حد شہرت دی ہے۔ پروفیسر جاوید احمد غامدی صاحب کو بھی اسی طرح شہرت ملی۔ وہ صاحبِ مطالعہ اور صاحبِ لسان ہیں اور اپنے اندازِ بیان سے سامعین کو متاثر کرنے کا ہنر رکھتے ہیں، مگر ان کے بیانات اور تصانیف میں وہ علمی گہرائی اور پختگی نظر نہیں آتی جو اہلِ علم کی تصانیف میں پائی جاتی ہے۔ متعدد فضلاء کرام اور پروفیسر حضرات کی تحریروں کا مطالعہ کر کے یہ ایمانداری سے کہا جا سکتا ہے کہ بعض اہلِ علم کا مرتبہ اس معاملے میں غامدی صاحب سے بلند ہے۔ غامدی صاحب خود کو قرآن کریم کی براہِ راست تفسیر کرنے کے اہل سمجھتے ہیں؛ حالانکہ حقیقت میں انہیں ناقلین کے زمرہ میں شمار کرنا بھی دیانتداری کے خلاف ہے، کیونکہ ناقل کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ عبارت کے مفہوم کو سمجھ کر اپنی زبان میں اس کی وضاحت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، جبکہ بعض جگہ غامدی صاحب اس صلاحیت سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔
اس وقت ہمارے پیش نظر ان کی کتاب “میزان” ہے، جو ان کے علمی عروج کے زمانے میں لکھی گئی۔ اس میں انہوں نے اپنے افکار و نظریات پیش کرتے ہوئے نہ صرف بعض مسلمات کو نظر انداز کیا ہے بلکہ کچھ جگہوں پر عقل و شعور کے خلاف تعبیرات بھی پیش کی ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے جس پر مستقل تبصرہ درکار ہے؛ اس وقت ہم صرف اُن مثالوں کو پیش کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے اس کتاب میں عربی عبارات کا ترجمہ کرتے ہوئے پیش کی ہیں۔ انہوں نے کئی احادیث کے ایسے ترجمے بھی پیش کیے ہیں جو عجیب و غریب معلوم ہوتے ہیں؛ ان تمام تر ادھورے یا مشکوک مثالوں کا یہاں ذکر ممکن نہیں، بلکہ ہم انہی جملوں پر تبصرہ کر رہے ہیں جن کے ساتھ اصل عبارت بھی درج ہے۔ قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں!
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
حجیتِ حدیث : قادیانیت و غامدیت
عبد اللہ معتصم احادیث مبارکہ محدثین کی اصطلاح میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم...
تراث ، وراثت اور غامدی صاحب
حسن بن علی تقسیم میراث كى بعض صورتوں میں بالاتفاق یہ صورتحال پیش آتی ہے...
غامدی صاحب اور قراءاتِ متواترہ
اپنی کتاب ' میزان ' میں لکھتے ہیں کہ ''یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی...