ابو عمار زاہد الراشدی محترم جاوید احمد غامدی اور ان کے مکتب فکر کے ترجمان ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور کا اپریل ۲۰۰۸ء کا شمارہ اس وقت میرے سامنے ہے جس میں غامدی صاحب کے رفیق کار جناب محمد رفیع مفتی نے سوال و جواب کے باب میں دو سوالوں کے جواب میں سنت نبوی کے بارے میں غامدی...
تفسیر کے لئے بنیادی شرط اور غامدی صاحب – قسط اول
قانون سازی کا اختیار اور غامدی صاحب
ابو عمار زاہد الراشدی جس طرح بہت سی دواؤں کا سائیڈ ایفیکٹ ہوتا ہے اور ماہر معالجین اس سے تحفظ کے لیے علاج میں معاون دوائیاں شامل کر دیتے ہیں، اسی طرح بہت سی باتوں کا بھی سائیڈ ایفیکٹ ہوتا ہے اور سمجھدار لوگ جب محسوس کرتے ہیں کہ ان کی کسی بات سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 88)
مولانا واصل واسطی پانچویں بات اس سلسلے میں یہ ہے ۔ کہ جناب نے جوکچھ اوپر مبحوث فیہ عبارت میں لکھا ہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ ہم اس فہرستِ سنت میں سے جس کا ذکر قران مجید میں آیا ہے ۔ اس کے مفہوم کاتعین ان روایات ہی کی روشنی میں کرتے ہیں محض قران مجید پراکتفاء نہیں کرتے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 87)
مولانا واصل واسطی تیسری بات اس عبارت میں جناب غامدی نے یہ لکھی ہے کہ "قران میں اس کے جن احکام کا ذکر ہواہے ان کی تفصیلات بھی اسی اجماع وتواترپر مبنی روایت سے متعین ہو ں گی ۔ انہیں قران سے براہِ راست اخذ کرنے کی کوشش نہیں جائے گی " ( میزان ص 47) اس بات پر بھی جناب...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 86)
مولانا واصل واسطی اب دوسری مستثنی صورت کو دیکھتے ہیں: جناب غامدی لکھتے ہیں" دوم یہ کہ کسی معاشرے میں اگرقحبہ عورتیں ہوں توان سے نمٹنے کے لیے قران مجید کی روسے یہی کافی ہے کہ چار مسلمان گواہ طلب کیے جائیں ۔ جو اس بات پر گواہی دیں کہ فلان عورت فی الواقع زنا کی عادی ایک...
خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف
ابو عمار زاہد الراشدی محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے ایک تازہ مضمون میں انکشاف فرمایا ہے کہ ’’خلیفہ‘‘ کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے بلکہ بعد میں مسلمانوں نے اپنے نظام حکمرانی کے لیے یہ اصطلاح اختیار کر لی تھی۔ اور اس کے ساتھ ان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ غزالیؒ ، ابن...
مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمہ اللہ
نحمدہ و نصلی علی رسوله الکریم۔ أما بعد
علمائے امت نے قرآن کریم کی تفسیر کرنے والے کے لیے جو شرائط مقرر فرمائی ہیں ان میں حدیث، اصولِ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ، علومِ بلاغت، صرف، نحو اور اسبابِ نزول وغیرہ میں مہارت ہونا ضروری ہے۔ اور سب سے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ عربی لغت میں کامل مہارت رکھتا ہو اور عربی کلمات کے لغوی و اصطلاحی معانی اور کلمات کے استعمال کے مواقع بخوبی جانتا ہو۔ عربی زبان میں مہارت صرف تفسیر کرنے والے کے لیے ہی نہیں بلکہ اس کے لیے بھی ضروری ہے جو پہلے سے ہی کسی عبارت کو براہِ راست اپنی زبان میں نقل کرنا چاہتا ہو۔ اس لیے حضرات علما کرام نے ناقل کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ عربی زبان میں بیان کردہ مفہوم کو اپنی زبان میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
بعض حضرات کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوتا مگر وہ خود یا ان کے متعلقین انہیں اس مرتبے کا سمجھ لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ گمراہی پھیلانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے ایسے حضرات کی حقیقت سے عوام الناس کو آگاہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ محض کسی کی توہین و تذلیل کے لیے اس کے عیب و کمزوری کو ظاہر کرنا پسندیدہ عمل نہیں ہے؛ شریعت نے اس سے منع کیا ہے۔ مگر جب عوام الناس کو کسی فتنہگر کے فتنہ سے بچانا اور دین کی حفاظت مقصود ہو تو فتنہگر کے عیب و کمزوری کو ظاہر کرنا نہ صرف جائز بلکہ واجب بھی ہو جاتا ہے، تاکہ عوام الناس اس کی بات اور عمل کو اسی درجے میں سمجھیں جس درجے کا وہ اہل ہے۔ حضرات محدثین کرام کے ہاں جرح و تعدیل کا اصول بھی اسی مصلحت کے تحت ہے۔ راوی پر جرح کرتے ہوئے اُس کے عیب و کمزوری کو ظاہر کیا جاتا ہے تاکہ اس راوی کی روایت اور اس کے قول کو اس کی حیثیت کے مطابق درجہ دیا جا سکے۔
بعض لوگوں کو مبالغہ آرائی کے ساتھ ایسے مقام تک پہنچا دیا جاتا ہے جس کے وہ اہل نہیں ہوتے۔ ان کی حقیقت سے عوام کو آگاہ کرنا دینی رہنماؤں اور پیشواؤں کا فریضہ ہے۔ جب مولانا مودودی صاحب نے اپنے طرزِ عمل سے اور ان کے پیروکاروں نے مبالغہ آمیز انداز میں انہیں اِجتہاد کے منصب کا اہل سمجھ لیا تو علماءِ امت نے نہ صرف ان کے بعض باطل نظریات کی تردید کی بلکہ ان کی علمی کمزوریوں کو بھی واضح فرمایا تاکہ عوام الناس آگاہ ہو جائیں کہ ہر کمزور علمی بنیاد رکھنے والا اجتہادی منصب کا اہل نہیں ہو سکتا۔ مجاہدِ ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تقریروں میں فرمایا کرتے تھے کہ: جب مودودی صاحب ایک وفد کے ہمراہ مصر گئے تو کسی نے ان سے پوچھا: “آپ کب آئے؟” تو مودودی صاحب نے بعض الفاظ کا الٹ استعمال کیا اور وہ صورتِ حال مضحکہ خیز بن گئی۔ مجاہدِ ملت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ: “جس شخص کو ‘أمس’ اور ‘غداً’ میں فرق معلوم نہ ہو وہ اجتہاد کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے؟”
موجودہ دور میں میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے بعض شخصیات کو بے حد شہرت دی ہے۔ پروفیسر جاوید احمد غامدی صاحب کو بھی اسی طرح شہرت ملی۔ وہ صاحبِ مطالعہ اور صاحبِ لسان ہیں اور اپنے اندازِ بیان سے سامعین کو متاثر کرنے کا ہنر رکھتے ہیں، مگر ان کے بیانات اور تصانیف میں وہ علمی گہرائی اور پختگی نظر نہیں آتی جو اہلِ علم کی تصانیف میں پائی جاتی ہے۔ متعدد فضلاء کرام اور پروفیسر حضرات کی تحریروں کا مطالعہ کر کے یہ ایمانداری سے کہا جا سکتا ہے کہ بعض اہلِ علم کا مرتبہ اس معاملے میں غامدی صاحب سے بلند ہے۔ غامدی صاحب خود کو قرآن کریم کی براہِ راست تفسیر کرنے کے اہل سمجھتے ہیں؛ حالانکہ حقیقت میں انہیں ناقلین کے زمرہ میں شمار کرنا بھی دیانتداری کے خلاف ہے، کیونکہ ناقل کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ عبارت کے مفہوم کو سمجھ کر اپنی زبان میں اس کی وضاحت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، جبکہ بعض جگہ غامدی صاحب اس صلاحیت سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔
اس وقت ہمارے پیش نظر ان کی کتاب “میزان” ہے، جو ان کے علمی عروج کے زمانے میں لکھی گئی۔ اس میں انہوں نے اپنے افکار و نظریات پیش کرتے ہوئے نہ صرف بعض مسلمات کو نظر انداز کیا ہے بلکہ کچھ جگہوں پر عقل و شعور کے خلاف تعبیرات بھی پیش کی ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے جس پر مستقل تبصرہ درکار ہے؛ اس وقت ہم صرف اُن مثالوں کو پیش کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے اس کتاب میں عربی عبارات کا ترجمہ کرتے ہوئے پیش کی ہیں۔ انہوں نے کئی احادیث کے ایسے ترجمے بھی پیش کیے ہیں جو عجیب و غریب معلوم ہوتے ہیں؛ ان تمام تر ادھورے یا مشکوک مثالوں کا یہاں ذکر ممکن نہیں، بلکہ ہم انہی جملوں پر تبصرہ کر رہے ہیں جن کے ساتھ اصل عبارت بھی درج ہے۔ قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں!
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 72)
مولانا واصل واسطی وہ سورتِ توبہ کی آیات (5۔ 11) کونقل کرنے کےبعد لکحتے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 71)
مولانا واصل واسطی اس تحریر میں ہم دو شبہات کا ان شاءاللہ تفصیلی ذکرکریں...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 70)
مولانا واصل واسطی سنن کی اس فہرست میں ادھر جناب غامدی نے آخری چیز کا ذکر...