تفسیر کے لئے بنیادی شرط اور غامدی صاحب – قسط اول

Published On September 27, 2025
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 15)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 15)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی دوباتیں باربار دہراتے ہیں مگر ان کے لیے دلائل فراہم کرنا اپنی ذمہ داری نہیں مانتے ۔ایک بات جو ابھی ابھی گذری ہے  کہ قران کے الفاظ کی دلالات اس کے مفہوم پر بالکل قطعی ہیں ، وہ جوکچھ کہنا چاھتاہے  پوری قطعیت کے ساتھ کہتاہے اور کسی معاملے میں...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 15)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 14)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی جیساکہ گزرا تمام الفاظ ، جمل ، اورتراکیب و اسالیب کو قطعی الدلالة قراردیتے ہیں ۔انھوں فخرِرازی کی ایک عبارت نقل کی ہے جو ان کے ،، استاد امام ،، نے بھی نقل کی ہے کہ کلامِ لفظی مفیدِقطع ویقین نہیں ہے ۔فخرِرازی کی اس بات پر جناب غامدی نے شاہ...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط دہم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط دہم)

ڈاکٹر خضر یسین ہر سنجیدہ متن میں "نظم کلام" بہت ضروری شے ہوتا ہے۔ متن کی نوعیت چاہے علمی ہو، عملی ہو، ادبی ہو یا روحانی، "نظم کلام" کے بغیر قابل فہم ہی نہیں، قابل قرآت بھی نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں بھی "نظم کلام" موجود ہے۔ یہ نظم "سیاق کلام" کا پیدا کردہ ہے۔ غامدی صاحب...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 15)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 13)

مولانا واصل واسطی ہم نے گذشتہ پوسٹ میں قران کے قطعی الدلالة ہونے کی طرف اشارہ کیا تھا ، کہ قران کی تمام آیات اپنے مفہوم میں قطعی الدلالة نہیں ہیں ، بعض الفاظ ، اسالیب اور تراکیب ظنی الدلالة بھی ہوتے ہیں ، لیکن جناب غامدی قران کی تمام آیات اور تمام کلمات کو قطعی...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط دہم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط نہم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب قرآن مجید کو ہدایت کے بجائے دعوت مانتے ہیں، نہیں صرف دعوت ہی نہیں بلکہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سرگزشت انذار کا عنوان دیتے ہیں۔ جس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ مابعد دور رسالت میں قرآن مجید کی حیثیت الوہی ہدایت کے بجائے، نبی صلی اللہ علیہ...

بیان کی بحث پر غامدی صاحب اور ان کے مدافعین کا خلط مبحث

بیان کی بحث پر غامدی صاحب اور ان کے مدافعین کا خلط مبحث

ڈاکٹر زاہد مغل اس پر ہم پہلے بھی روشنی ڈال چکے ہیں، مزید وضاحت کی کوشش کرتے ہیں۔ محترم غامدی صاحب کا فرمایا ہے کہ تبیین کا مطلب کلام کے اس فحوی کو بیان کرنا ہے جو ابتدا ہی سے کلام میں موجود ہو۔ کلام کے وجود میں آجانے کے بعد کیا جانے والا کسی بھی قسم کا تغیر تبیین نہیں...

مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمہ اللہ

نحمدہ و نصلی علی رسوله الکریم۔ أما بعد

علمائے امت نے قرآن کریم کی تفسیر کرنے والے کے لیے جو شرائط مقرر فرمائی ہیں ان میں حدیث، اصولِ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ، علومِ بلاغت، صرف، نحو اور اسبابِ نزول وغیرہ میں مہارت ہونا ضروری ہے۔ اور سب سے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ عربی لغت میں کامل مہارت رکھتا ہو اور عربی کلمات کے لغوی و اصطلاحی معانی اور کلمات کے استعمال کے مواقع بخوبی جانتا ہو۔ عربی زبان میں مہارت صرف تفسیر کرنے والے کے لیے ہی نہیں بلکہ اس کے لیے بھی ضروری ہے جو پہلے سے ہی کسی عبارت کو براہِ راست اپنی زبان میں نقل کرنا چاہتا ہو۔ اس لیے حضرات علما کرام نے ناقل کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ عربی زبان میں بیان کردہ مفہوم کو اپنی زبان میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

بعض حضرات کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوتا مگر وہ خود یا ان کے متعلقین انہیں اس مرتبے کا سمجھ لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ گمراہی پھیلانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے ایسے حضرات کی حقیقت سے عوام الناس کو آگاہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ محض کسی کی توہین و تذلیل کے لیے اس کے عیب و کمزوری کو ظاہر کرنا پسندیدہ عمل نہیں ہے؛ شریعت نے اس سے منع کیا ہے۔ مگر جب عوام الناس کو کسی فتنہ‌گر کے فتنہ سے بچانا اور دین کی حفاظت مقصود ہو تو فتنہ‌گر کے عیب و کمزوری کو ظاہر کرنا نہ صرف جائز بلکہ واجب بھی ہو جاتا ہے، تاکہ عوام الناس اس کی بات اور عمل کو اسی درجے میں سمجھیں جس درجے کا وہ اہل ہے۔ حضرات محدثین کرام کے ہاں جرح و تعدیل کا اصول بھی اسی مصلحت کے تحت ہے۔ راوی پر جرح کرتے ہوئے اُس کے عیب و کمزوری کو ظاہر کیا جاتا ہے تاکہ اس راوی کی روایت اور اس کے قول کو اس کی حیثیت کے مطابق درجہ دیا جا سکے۔

بعض لوگوں کو مبالغہ آرائی کے ساتھ ایسے مقام تک پہنچا دیا جاتا ہے جس کے وہ اہل نہیں ہوتے۔ ان کی حقیقت سے عوام کو آگاہ کرنا دینی رہنماؤں اور پیشواؤں کا فریضہ ہے۔ جب مولانا مودودی صاحب نے اپنے طرزِ عمل سے اور ان کے پیروکاروں نے مبالغہ آمیز انداز میں انہیں اِجتہاد کے منصب کا اہل سمجھ لیا تو علماءِ امت نے نہ صرف ان کے بعض باطل نظریات کی تردید کی بلکہ ان کی علمی کمزوریوں کو بھی واضح فرمایا تاکہ عوام الناس آگاہ ہو جائیں کہ ہر کمزور علمی بنیاد رکھنے والا اجتہادی منصب کا اہل نہیں ہو سکتا۔ مجاہدِ ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تقریروں میں فرمایا کرتے تھے کہ: جب مودودی صاحب ایک وفد کے ہمراہ مصر گئے تو کسی نے ان سے پوچھا: “آپ کب آئے؟” تو مودودی صاحب نے بعض الفاظ کا الٹ استعمال کیا اور وہ صورتِ حال مضحکہ خیز بن گئی۔ مجاہدِ ملت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ: “جس شخص کو ‘أمس’ اور ‘غداً’ میں فرق معلوم نہ ہو وہ اجتہاد کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے؟”

موجودہ دور میں میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے بعض شخصیات کو بے حد شہرت دی ہے۔ پروفیسر جاوید احمد غامدی صاحب کو بھی اسی طرح شہرت ملی۔ وہ صاحبِ مطالعہ اور صاحبِ لسان ہیں اور اپنے اندازِ بیان سے سامعین کو متاثر کرنے کا ہنر رکھتے ہیں، مگر ان کے بیانات اور تصانیف میں وہ علمی گہرائی اور پختگی نظر نہیں آتی جو اہلِ علم کی تصانیف میں پائی جاتی ہے۔ متعدد فضلاء کرام اور پروفیسر حضرات کی تحریروں کا مطالعہ کر کے یہ ایمانداری سے کہا جا سکتا ہے کہ بعض اہلِ علم کا مرتبہ اس معاملے میں غامدی صاحب سے بلند ہے۔ غامدی صاحب خود کو قرآن کریم کی براہِ راست تفسیر کرنے کے اہل سمجھتے ہیں؛ حالانکہ حقیقت میں انہیں ناقلین کے زمرہ میں شمار کرنا بھی دیانتداری کے خلاف ہے، کیونکہ ناقل کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ عبارت کے مفہوم کو سمجھ کر اپنی زبان میں اس کی وضاحت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، جبکہ بعض جگہ غامدی صاحب اس صلاحیت سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔

اس وقت ہمارے پیش نظر ان کی کتاب “میزان” ہے، جو ان کے علمی عروج کے زمانے میں لکھی گئی۔ اس میں انہوں نے اپنے افکار و نظریات پیش کرتے ہوئے نہ صرف بعض مسلمات کو نظر انداز کیا ہے بلکہ کچھ جگہوں پر عقل و شعور کے خلاف تعبیرات بھی پیش کی ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے جس پر مستقل تبصرہ درکار ہے؛ اس وقت ہم صرف اُن مثالوں کو پیش کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے اس کتاب میں عربی عبارات کا ترجمہ کرتے ہوئے پیش کی ہیں۔ انہوں نے کئی احادیث کے ایسے ترجمے بھی پیش کیے ہیں جو عجیب و غریب معلوم ہوتے ہیں؛ ان تمام تر ادھورے یا مشکوک مثالوں کا یہاں ذکر ممکن نہیں، بلکہ ہم انہی جملوں پر تبصرہ کر رہے ہیں جن کے ساتھ اصل عبارت بھی درج ہے۔ قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں!

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…