حصریہ اسلوب

Published On September 27, 2025
داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب تلخیص : زید حسن اس ویڈیو میں سپیکر حافظ محمد زبیر صاحب نے " بعض افراد" کے اس دعوے کہ آپ کی تفہیمِ غامدی درست نہیں ، کو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔ لیکن اس پر از راہِ تفنن گفتگو کرنے کے بعد چند اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے اور غامدی منہج پر سوالات...

تراویح کے متعلق غامدی صاحب کے غلط نظریات کا رد

تراویح کے متعلق غامدی صاحب کے غلط نظریات کا رد

ڈاکٹر نعیم الدین الازہری صاحب تلخیص : زید حسن رمضان المبارک کی بابرکت ساعات میں امتِ مسلمہ روزے اور عبادات میں مشغول ہے ، لیکن سوشل میڈیا پر چند ایسی آوازیں گاہے بگاہے اٹھتی نظر آتی ہیں جن میں ان عبادات کا انکارکیا گیا ہے جن پر امتِ مسلمہ ہزاروں سالوں سے عمل کرنی چلی...

ابن عابدین شامی کی علامہ غامدی کو نصیحت

ابن عابدین شامی کی علامہ غامدی کو نصیحت

سمیع اللہ سعدی علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فتاوی شامی میں متعدد مقامات پر مسئلہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :۔و ھذا مما یعلم و یکتم یعنی یہ مسئلہ سیکھنا تو چاہیے ،لیکن عممومی طور پر بتانے سے گریز کیا جائے ۔فقاہت اور دین کی گہری سمجھ کا یہی تقاضا ہے کہ کتابوں میں...

علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی

علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب   جناب غامدی صاحب علم کلام پر ماہرانہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ علم بے معنی و غیر ضروری ہے اس لئے کہ یہ فلسفے کے اس دور سے متعلق ہے جب وجود کو علمیات پر فوقیت دی جاتی تھی، علم کلام وجودی فکر والوں کے طلسم خانے کا جواب دینے کے لئے وضع کیا...

آنلائن تراویح کا جواز : غامدی صاحب کا نیا فتوی

آنلائن تراویح کا جواز : غامدی صاحب کا نیا فتوی

مفتی طارق مسعود صاحب تلخیص : زید حسن مسئلہ پوچھا گیا ہے کہ کیا تراویح کی نماز یوٹیوب پر لگا کر اسکی اقتداء میں پڑھ سکتے ہیں؟یہ غامدی صاحب نے نیا مسئلہ بیان کر دیا ہے اور اسکی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ آجکل گلوبل ویلج ہے، ایک دوسرے کی حرکات و سکنات دیکھی جا سکتی ہیں اور...

جہانگیر حنیف

حصر کا مطلب حصار قائم کرنا ہے۔ جس جملے کے بارے میں حصریہ ہونے کا دعوی کیا جائے، وہ اپنے موضوع کے گرد ایک ایسا دائرہ کھینچتا ہے کہ کوئی ایک بھی چیز اس دائرے سے باہر جا سکتی ہے اور نہ پائی جا سکتی ہے۔ حصر اور حصار کے یہی معنی ہے۔ اگر آپ ان معانی کا انکار کرتے ہیں، تو آپ جس حصر کی بات کر رہے ہیں، اس سے فی الوقت ہمیں کوئی تعرض نہیں۔ یہ پہلی چیز ہے، جو ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہیے۔ دوسری یہ کہ جس جملہ کے بارے میں آپ حصر کے دعویدار ہیں، اس جملے کے بارے میں تسلی کرلیں کہ وہ جملہ حصر کے علاوہ کسی دوسری تاویل کا محتمل ہے یا نہیں۔ اگر وہ جملہ کسی دوسری تاویل کا محتمل ہے، تو حصر کا دعوی کمزور پڑ جاتا ہے۔ حصر سے جو قطعیت حاصل ہوتی ہے، وہ قطعیت تاویلِ ثانی کے احتمال سے مجروح رہتی ہے۔ تاویلِ ثانی کا احتمال کلام کی دلالت کو ظنی بناتا ہے۔ دلالت ظنی ہو اور مطلوب قطعیت ہو، تو ایسے تناقص کو رفع کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
اس تمھید کو جاننے کے بعد قرآن مجید کی سورہ انعام کی آیت نمبر ١٤٥ کو دیکھیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیہ مبارکہ ان دونوں شرائط کی رو سے غیر حصریہ اسلوب ہے۔ اس کی پہلی وجہ ہے کہ آیہ مبارکہ میں محض چار چیزوں کی حرمت کو بیان کیا گیا ہے۔ ان چار چیزوں میں پہلی تین چیزیں، مردار، بہایا ہوا خون اور خنزیر کا گوشت ہے، جسے قرآن مجید نے رجس قرار دیا ہے۔ سورہ مائدہ میں قرآن مجید نے خمر کو رجس قرار دیا ہے اور اس سے اجتناب کا حکم صادر کیا ہے۔ لہذا پہلی شرط کہ حصر کے قائم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس دائرے سے باہر اس حصر کا موضوع نہ پایا جائے، پوری نہیں ہوتی۔ خمر کو آپ حلال قرار ریں، یہ قرآن کی رو سے ممکن نہیں۔ خمر اِن چار محرمات میں شامل نہیں۔ لہذا یہ حصر، حصر نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے خمر کی عین وہ علت بیان کی ہے، جو علت مردار، سؤر اور خون کی حرمت کی بیان کی ہے۔
دوسری چیز یہ کہ قرآن مجید کے اپنے مخاطبین کے لحاظ اور ان کے اوہام کے تدارک کے لیے بھی احکامات صادر کرتا ہے۔ مشرکین نے حام، سائبہ اور وصیلہ کی حرمت کو خود سے قائم کر رکھا تھا۔ اس کا کوئی تعلق اللہ تعالیٰ کی وحی سے نہیں تھا۔ جن محرمات کو مشرکین اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے، ان میں سے محض چار محرمات اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ تھے۔ اس آیت میں صنعتِ تضاد کو بروئے کار لاتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی بدعات کا تدارک کیا ہے۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یہ نہیں کہ محض چار چیزیں کھانے کے لیے حرام ہیں۔ بلکہ اس آیہ مبارکہ کا مقصود مناقضہ ہے، تاکہ مخاطبین کے اوہام کو پاش پاش کیا جائے۔ لہذا آیت کا یہ اسلوب ایجابی نہیں۔ بلکہ سلبی ہے۔ طاعم کے نکرہ استعمال ہونے سے ہمارے مقدمہ پر اثر نہیں پڑتا۔ طاعم اُس سیاق میں نکرہ ہے، جس سیاق میں آیہ مبارکہ کا نزول ہوا ہے۔
تیسری چیز جو اس آیت کے حصریہ اسلوب کی حقیقت کھولتی ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے طیبات کو حلال قرار دیا ہے۔ خبائث کی حرمت ان کے خُبث سے جڑی ہے۔ جس کا مطلب ہر حال میں یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو خبائث کی قبیل میں سے ہوگی، اس کی حرمت آپ سے آپ قائم ہوگی۔ سورہ انعام کی آیت مبارکہ کو اس کے ظاہری مدلول یعنی حصر کے اسلوب میں قبول کرنے سے لازم آتا ہے کہ ان چار چیزوں کے علاوہ باقی تمام چیزیں حلال ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں۔ لہذا یہ حصر کچھ مستثنیات کو شامل ہے اور ان کو اپنے نزول کے وقت سے شامل ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ایک حصر کچھ مستثنیات کو اپنے میں سموئے ہوئے ہو، اور آپ خواہ مخواہ اس کے حصر کو موکد کرنے میں قلم توڑے جا رہے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…