حصریہ اسلوب

Published On September 27, 2025
ریاست اور مذہب کا تعلق غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ، خود اُن کی عدالت میں (دوسری قسط)

ریاست اور مذہب کا تعلق غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ، خود اُن کی عدالت میں (دوسری قسط)

شکیل عثمانی تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اُن کی ویب سائٹ www.javedahmadghamidi.com پر ان کے ایک لیکچر کی وڈیو بعنوان Ghamidi on Ahmadiyya Prophethood claim موجود ہے، جس میں انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت اور تحریکِ احمدیت پر گفتگو کی ہے۔ ہم نے جب اس لیکچر...

ریاست اور مذہب کا تعلق غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ، خود اُن کی عدالت میں (دوسری قسط)

ریاست اور مذہب کا تعلق غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ، خود اُن کی عدالت میں (پہلی قسط)

شکیل عثمانی جناب جاوید احمد غامدی کا ایک مضمون  ’’اسلامی ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘‘ اُن کے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور اور چند دوسرے رسائل اور جرائد میں شائع ہوا ہے۔ موضوع کی اہمیت اور دلفریب اندازِ بیان کے سبب یہ مضمون گہرے غور و فکر کا متقاضی سمجھاگیا اور اس پر بحثیں بھی...

تاصیلِ اصول اور غامدی صاحب

تاصیلِ اصول اور غامدی صاحب

حسن بن علی غامدى صاحب چاہے اپنی تعریفات اور اصطلاحات وضع کر لیں (لكل واحد ان يصطلح أو لا مشاحة في الاصطلاح) لیکن اختلاف صرف اصطلاحات كى تعریفات تک محدود نہیں بلکہ قول رسول كى حجیت كو تسلیم کرنے یا نہ تسلیم کرنے کا ہے تو جب غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ دین قرآن و سنت میں...

جناب جاویدغامدی صاحب کی دین فہمی اور اُن کے خود ساختہ اُصول

جناب جاویدغامدی صاحب کی دین فہمی اور اُن کے خود ساختہ اُصول

سید خالد جامعی کسی فکر کی درستگی کا پیمانہ، اصول ، منہاج، فرقان ،دینی فکر‘ امت کی علمی روایت سے مطابقت رکھتی ہو اور امت کے اجتماعی تعامل کے مطابق ہو۔ (پرویز صاحب کا فہم قرآن، غامدی صاحب کی تقریر ،ص: ۴۸۔دارالتذکیر ۲۰۰۴ئ) ۲:…سنت قرآن کے بعد نہیں، بلکہ قرآن سے مقدم ہے۔...

غامدی فکر کی بنیادی گمراہی

غامدی فکر کی بنیادی گمراہی

مولانا یحیی نعمانی ، لکھنئو             جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی گمراہی اور اہل سنت واہل حق سے ان کا اصل انحراف کوئی معمولی قسم کا نہیں ہے۔ افسوس کہ وہ مقام رسالت کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک بنیادی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اہل ہی...

اہل “المورد” قرآن سے بات کیوں نہیں کررہے اور التباس کا مرتکب کون ہے؟

اہل “المورد” قرآن سے بات کیوں نہیں کررہے اور التباس کا مرتکب کون ہے؟

ڈاکٹر زاہد مغل استحسان کی اصطلاح سے امام شافعی جیسے جلیل القدر فقیہہ کو ایسا شبہ لگا کہ انہوں نے اسے شریعت سازی قرار دے دیا، لیکن اس کے باوجود احناف و مالکیہ نے اس اصطلاح کو ترک نہیں کیا بلکہ اس کا مفہوم واضح کیا اور آج تک وہ یہ اصطلاح بولتے ہیں۔ اس کا مفہوم واضح...

جہانگیر حنیف

حصر کا مطلب حصار قائم کرنا ہے۔ جس جملے کے بارے میں حصریہ ہونے کا دعوی کیا جائے، وہ اپنے موضوع کے گرد ایک ایسا دائرہ کھینچتا ہے کہ کوئی ایک بھی چیز اس دائرے سے باہر جا سکتی ہے اور نہ پائی جا سکتی ہے۔ حصر اور حصار کے یہی معنی ہے۔ اگر آپ ان معانی کا انکار کرتے ہیں، تو آپ جس حصر کی بات کر رہے ہیں، اس سے فی الوقت ہمیں کوئی تعرض نہیں۔ یہ پہلی چیز ہے، جو ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہیے۔ دوسری یہ کہ جس جملہ کے بارے میں آپ حصر کے دعویدار ہیں، اس جملے کے بارے میں تسلی کرلیں کہ وہ جملہ حصر کے علاوہ کسی دوسری تاویل کا محتمل ہے یا نہیں۔ اگر وہ جملہ کسی دوسری تاویل کا محتمل ہے، تو حصر کا دعوی کمزور پڑ جاتا ہے۔ حصر سے جو قطعیت حاصل ہوتی ہے، وہ قطعیت تاویلِ ثانی کے احتمال سے مجروح رہتی ہے۔ تاویلِ ثانی کا احتمال کلام کی دلالت کو ظنی بناتا ہے۔ دلالت ظنی ہو اور مطلوب قطعیت ہو، تو ایسے تناقص کو رفع کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
اس تمھید کو جاننے کے بعد قرآن مجید کی سورہ انعام کی آیت نمبر ١٤٥ کو دیکھیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیہ مبارکہ ان دونوں شرائط کی رو سے غیر حصریہ اسلوب ہے۔ اس کی پہلی وجہ ہے کہ آیہ مبارکہ میں محض چار چیزوں کی حرمت کو بیان کیا گیا ہے۔ ان چار چیزوں میں پہلی تین چیزیں، مردار، بہایا ہوا خون اور خنزیر کا گوشت ہے، جسے قرآن مجید نے رجس قرار دیا ہے۔ سورہ مائدہ میں قرآن مجید نے خمر کو رجس قرار دیا ہے اور اس سے اجتناب کا حکم صادر کیا ہے۔ لہذا پہلی شرط کہ حصر کے قائم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس دائرے سے باہر اس حصر کا موضوع نہ پایا جائے، پوری نہیں ہوتی۔ خمر کو آپ حلال قرار ریں، یہ قرآن کی رو سے ممکن نہیں۔ خمر اِن چار محرمات میں شامل نہیں۔ لہذا یہ حصر، حصر نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے خمر کی عین وہ علت بیان کی ہے، جو علت مردار، سؤر اور خون کی حرمت کی بیان کی ہے۔
دوسری چیز یہ کہ قرآن مجید کے اپنے مخاطبین کے لحاظ اور ان کے اوہام کے تدارک کے لیے بھی احکامات صادر کرتا ہے۔ مشرکین نے حام، سائبہ اور وصیلہ کی حرمت کو خود سے قائم کر رکھا تھا۔ اس کا کوئی تعلق اللہ تعالیٰ کی وحی سے نہیں تھا۔ جن محرمات کو مشرکین اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے، ان میں سے محض چار محرمات اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ تھے۔ اس آیت میں صنعتِ تضاد کو بروئے کار لاتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی بدعات کا تدارک کیا ہے۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یہ نہیں کہ محض چار چیزیں کھانے کے لیے حرام ہیں۔ بلکہ اس آیہ مبارکہ کا مقصود مناقضہ ہے، تاکہ مخاطبین کے اوہام کو پاش پاش کیا جائے۔ لہذا آیت کا یہ اسلوب ایجابی نہیں۔ بلکہ سلبی ہے۔ طاعم کے نکرہ استعمال ہونے سے ہمارے مقدمہ پر اثر نہیں پڑتا۔ طاعم اُس سیاق میں نکرہ ہے، جس سیاق میں آیہ مبارکہ کا نزول ہوا ہے۔
تیسری چیز جو اس آیت کے حصریہ اسلوب کی حقیقت کھولتی ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے طیبات کو حلال قرار دیا ہے۔ خبائث کی حرمت ان کے خُبث سے جڑی ہے۔ جس کا مطلب ہر حال میں یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو خبائث کی قبیل میں سے ہوگی، اس کی حرمت آپ سے آپ قائم ہوگی۔ سورہ انعام کی آیت مبارکہ کو اس کے ظاہری مدلول یعنی حصر کے اسلوب میں قبول کرنے سے لازم آتا ہے کہ ان چار چیزوں کے علاوہ باقی تمام چیزیں حلال ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں۔ لہذا یہ حصر کچھ مستثنیات کو شامل ہے اور ان کو اپنے نزول کے وقت سے شامل ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ایک حصر کچھ مستثنیات کو اپنے میں سموئے ہوئے ہو، اور آپ خواہ مخواہ اس کے حصر کو موکد کرنے میں قلم توڑے جا رہے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

No Results Found

The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.