حصریہ اسلوب

Published On September 27, 2025
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 58)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 58)

مولانا واصل واسطی روزہ میں مباشرت اورلزومِ کفارہ کی بات ہم اگے کرلیں گے   فی الحال ایک اوربات کی طرف ہم لوگوں  کو متوجہ کرنا چاھتے ہیں۔ وہ بات یہ ہے کہ ،، تبیین ،، سنت ،، اور،، آحادیث ،،  کے متعلق ہم نے جناب غامدی کی طویل عبارتیں پہلے پیش کی ہیں جس میں انہوں نے چند...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 57)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 57)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی روزہ کو بھی ان سنن میں داخل کرتے ہیں   جوان کے بقول ،، دینِ ابراہیمی ،، کے باقیات میں سے ہے ۔ہم اس کے متعلق چند باتیں کرتے ہیں (1)  پہلی بات یہ ہے کہ جناب غامدی کو اس سنت کے اثبات کےلیے کہ ،، روزہ ،، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کی نبوت سے...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 57)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 56)

مولانا واصل واسطی ہم نے گذشتہ قسط میں روزہ کے متعلق جناب غامدی کے تصورکا جائزہ لیا ہے۔ اس میں بہت ساری دیگر باتیں آگئی ہیں   اس لیے بات پوری نہیں ہو سکی تھی۔ اب ہم اسی روزے کے تعلق سے چند مزید باتیں ادھر عرض کرتے ہیں  (1) پہلی بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے روزہ کے بارے...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 57)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 55)

مولانا واصل واسطی اس مبحث میں ہم ، روزہ ، وغیرہ پر بات کریں گے ۔ جناب غامدی روزے کے متعلق لکھتے ہیں ،، وہ روزہ اسی طرح رکھتے تھے جس  طرح اب ہم رکھتے ہیں ( میزان ص 45) یہ بات بھی جناب غامدی نے حافظ محب کی کتاب سے لی ہے ۔مگر اس بات کے لیے حوالہ دینے میں خوب ڈندی ماری ہے...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 57)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 54)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی اگلی چیز یعنی سنتِ ابراہیمی نمازِجنازہ کو قرار دیتے ہیں ۔لکھاہے کہ ،، نمازِجنازہ بھی وہ پڑھتے تھے ( میزان ص 45) اس بات کے لیے جناب نے جواد علی کی ،، المفصل فی تاریخ العرب ،، کاحوالہ دیا ہے ۔ یہ کتاب ہمارے پاس نہیں ہے ،نہ ہم نے دیکھی ہے  اس...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 57)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 53)

مولانا واصل واسطی سنتِ ابراہیمی کے متعلق تیسرے اصول میں جناب غامدی نے یہ بات لکھی ہے ، کہ سنت وہ ہے جو قران کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے شروع ہوجائے ۔ اور وہ عملی چیز ہو ، اس کا ذکر اگر قران میں آتا بھی ہے تو صرف تاکید اورتقویت کےلیے ۔، انہوں نے لکھا ہے...

جہانگیر حنیف

حصر کا مطلب حصار قائم کرنا ہے۔ جس جملے کے بارے میں حصریہ ہونے کا دعوی کیا جائے، وہ اپنے موضوع کے گرد ایک ایسا دائرہ کھینچتا ہے کہ کوئی ایک بھی چیز اس دائرے سے باہر جا سکتی ہے اور نہ پائی جا سکتی ہے۔ حصر اور حصار کے یہی معنی ہے۔ اگر آپ ان معانی کا انکار کرتے ہیں، تو آپ جس حصر کی بات کر رہے ہیں، اس سے فی الوقت ہمیں کوئی تعرض نہیں۔ یہ پہلی چیز ہے، جو ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہیے۔ دوسری یہ کہ جس جملہ کے بارے میں آپ حصر کے دعویدار ہیں، اس جملے کے بارے میں تسلی کرلیں کہ وہ جملہ حصر کے علاوہ کسی دوسری تاویل کا محتمل ہے یا نہیں۔ اگر وہ جملہ کسی دوسری تاویل کا محتمل ہے، تو حصر کا دعوی کمزور پڑ جاتا ہے۔ حصر سے جو قطعیت حاصل ہوتی ہے، وہ قطعیت تاویلِ ثانی کے احتمال سے مجروح رہتی ہے۔ تاویلِ ثانی کا احتمال کلام کی دلالت کو ظنی بناتا ہے۔ دلالت ظنی ہو اور مطلوب قطعیت ہو، تو ایسے تناقص کو رفع کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
اس تمھید کو جاننے کے بعد قرآن مجید کی سورہ انعام کی آیت نمبر ١٤٥ کو دیکھیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیہ مبارکہ ان دونوں شرائط کی رو سے غیر حصریہ اسلوب ہے۔ اس کی پہلی وجہ ہے کہ آیہ مبارکہ میں محض چار چیزوں کی حرمت کو بیان کیا گیا ہے۔ ان چار چیزوں میں پہلی تین چیزیں، مردار، بہایا ہوا خون اور خنزیر کا گوشت ہے، جسے قرآن مجید نے رجس قرار دیا ہے۔ سورہ مائدہ میں قرآن مجید نے خمر کو رجس قرار دیا ہے اور اس سے اجتناب کا حکم صادر کیا ہے۔ لہذا پہلی شرط کہ حصر کے قائم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس دائرے سے باہر اس حصر کا موضوع نہ پایا جائے، پوری نہیں ہوتی۔ خمر کو آپ حلال قرار ریں، یہ قرآن کی رو سے ممکن نہیں۔ خمر اِن چار محرمات میں شامل نہیں۔ لہذا یہ حصر، حصر نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے خمر کی عین وہ علت بیان کی ہے، جو علت مردار، سؤر اور خون کی حرمت کی بیان کی ہے۔
دوسری چیز یہ کہ قرآن مجید کے اپنے مخاطبین کے لحاظ اور ان کے اوہام کے تدارک کے لیے بھی احکامات صادر کرتا ہے۔ مشرکین نے حام، سائبہ اور وصیلہ کی حرمت کو خود سے قائم کر رکھا تھا۔ اس کا کوئی تعلق اللہ تعالیٰ کی وحی سے نہیں تھا۔ جن محرمات کو مشرکین اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے، ان میں سے محض چار محرمات اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ تھے۔ اس آیت میں صنعتِ تضاد کو بروئے کار لاتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی بدعات کا تدارک کیا ہے۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یہ نہیں کہ محض چار چیزیں کھانے کے لیے حرام ہیں۔ بلکہ اس آیہ مبارکہ کا مقصود مناقضہ ہے، تاکہ مخاطبین کے اوہام کو پاش پاش کیا جائے۔ لہذا آیت کا یہ اسلوب ایجابی نہیں۔ بلکہ سلبی ہے۔ طاعم کے نکرہ استعمال ہونے سے ہمارے مقدمہ پر اثر نہیں پڑتا۔ طاعم اُس سیاق میں نکرہ ہے، جس سیاق میں آیہ مبارکہ کا نزول ہوا ہے۔
تیسری چیز جو اس آیت کے حصریہ اسلوب کی حقیقت کھولتی ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے طیبات کو حلال قرار دیا ہے۔ خبائث کی حرمت ان کے خُبث سے جڑی ہے۔ جس کا مطلب ہر حال میں یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو خبائث کی قبیل میں سے ہوگی، اس کی حرمت آپ سے آپ قائم ہوگی۔ سورہ انعام کی آیت مبارکہ کو اس کے ظاہری مدلول یعنی حصر کے اسلوب میں قبول کرنے سے لازم آتا ہے کہ ان چار چیزوں کے علاوہ باقی تمام چیزیں حلال ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں۔ لہذا یہ حصر کچھ مستثنیات کو شامل ہے اور ان کو اپنے نزول کے وقت سے شامل ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ایک حصر کچھ مستثنیات کو اپنے میں سموئے ہوئے ہو، اور آپ خواہ مخواہ اس کے حصر کو موکد کرنے میں قلم توڑے جا رہے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

No Results Found

The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.