حصریہ اسلوب

Published On September 27, 2025
حضرت عمر رض کی ولی عہدی : غامدی صاحب کی رائے پر تبصرہ

حضرت عمر رض کی ولی عہدی : غامدی صاحب کی رائے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب نے مسئلہ ولی عہدی پر جاری بحث پر ایک ویڈیو میں سوال کے جواب میں فرمایا ہے کہ حضرت عمر کی جانشینی کو ولی عہدی کی نظیر قرار دیتے ہوئے ولی عہدی کو جائز قرار دینا متکلمین و فقہاء کا ایک محل نظر استدلال ہے۔ چونکہ غامدی صاحب بھی انعقاد امامت...

مکتبِ فراہی کے نظمِ قرآن پر احمد جاوید صاحب کی تنقیدی گفتگو

مکتبِ فراہی کے نظمِ قرآن پر احمد جاوید صاحب کی تنقیدی گفتگو

ارشادات : احمد جاوید صاحب ناقل و محرر:محمد اسامہ نظرِ ثانی و تصحیح: زید حسن تمہید مکتب ِفراہی کے تصورِ نظم ِقرآن پر گفتگو کا آغاز کرنا ہے۔ وہ تصورِ نظم جو اپنے تمام اطلاقات کے ساتھ ظاہر ہونے میں غامدی صاحب پر سرِدست تمام ہو گیا۔ اس پر اختصار کے ساتھ باتیں کرتا ہوں...

حدیث میں بیان کردہ امور: فرائض نبوت  یا احسان نبوت؟ مولانا فراہی و اصلاحی صاحبان کی رائے

حدیث میں بیان کردہ امور: فرائض نبوت یا احسان نبوت؟ مولانا فراہی و اصلاحی صاحبان کی رائے

ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب نے قرآن و حدیث کے باہمی تعلق پر گفتگو کرتے ہوئے حالیہ ویڈیوز میں فرمایا ہے کہ احادیث میں بیان شدہ قرآن کی شرح و فرع آپﷺ پر فرض نہیں تھا بلکہ یہ امور آپﷺ نے امت کے حق میں بطور رافت و وحمت اور احسان کئے (تاہم یہ سب امور امتیوں کے لئے واجب...

جاوید احمد غامدی کے منطقی مغالطے

جاوید احمد غامدی کے منطقی مغالطے

عمران شاہد بھنڈر کوئی بھی خیال جب ایک قاعدے کے تحت اصول بن جاتا ہے تو پھر صرف اس سے انکار یا اس کا استرداد اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے کہ جن حقائق پر اس اصول کی تشکیل ہوئی ہے، انہیں باطل ثابت کر دیا جائے۔ بصورتِ دیگر منطقی اصول کی صلابت کو کچھ فرق نہیں پڑتا، البتہ معترض...

تبیین و تخصیص اور غامدی صاحب کا موقف : دلیلِ مسئلہء رجم کا جائزہ: دوسری قسط

تبیین و تخصیص اور غامدی صاحب کا موقف : دلیلِ مسئلہء رجم کا جائزہ: دوسری قسط

ڈاکٹر زاہد مغل محترم جناب غامدی صاحب “رجم  کی سزا” پر لکھے گئے اپنے  مضمون میں کہتے ہیں کہ قرآن مجید اور کلام عرب کے اِن شواہد سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ’تبیین‘ کا لفظ کسی معاملے کی حقیقت کو کھول دینے ، کسی کلام کے مدعا کو واضح کر دینے اور کسی چیز کے خفا کو دور کر کے...

خوابِ ابراہیم ؑ اور مکتبِ فراہی کا موقف ( ایک نقد)

خوابِ ابراہیم ؑ اور مکتبِ فراہی کا موقف ( ایک نقد)

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مولانا فراہی نے یہ تاویل اختیار کی ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خواب سے اصل مقصود یہ تھا کہ وہ اپنے اکلوتے / پہلوٹھے بیٹے کو بیت اللہ کی خدمت کے لیے خاص کردیں۔ اس تاویل کے لیے ان کا بنیادی انحصار ان احکام پر ہے جوتورات میں ان لوگوں...

جہانگیر حنیف

حصر کا مطلب حصار قائم کرنا ہے۔ جس جملے کے بارے میں حصریہ ہونے کا دعوی کیا جائے، وہ اپنے موضوع کے گرد ایک ایسا دائرہ کھینچتا ہے کہ کوئی ایک بھی چیز اس دائرے سے باہر جا سکتی ہے اور نہ پائی جا سکتی ہے۔ حصر اور حصار کے یہی معنی ہے۔ اگر آپ ان معانی کا انکار کرتے ہیں، تو آپ جس حصر کی بات کر رہے ہیں، اس سے فی الوقت ہمیں کوئی تعرض نہیں۔ یہ پہلی چیز ہے، جو ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہیے۔ دوسری یہ کہ جس جملہ کے بارے میں آپ حصر کے دعویدار ہیں، اس جملے کے بارے میں تسلی کرلیں کہ وہ جملہ حصر کے علاوہ کسی دوسری تاویل کا محتمل ہے یا نہیں۔ اگر وہ جملہ کسی دوسری تاویل کا محتمل ہے، تو حصر کا دعوی کمزور پڑ جاتا ہے۔ حصر سے جو قطعیت حاصل ہوتی ہے، وہ قطعیت تاویلِ ثانی کے احتمال سے مجروح رہتی ہے۔ تاویلِ ثانی کا احتمال کلام کی دلالت کو ظنی بناتا ہے۔ دلالت ظنی ہو اور مطلوب قطعیت ہو، تو ایسے تناقص کو رفع کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
اس تمھید کو جاننے کے بعد قرآن مجید کی سورہ انعام کی آیت نمبر ١٤٥ کو دیکھیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیہ مبارکہ ان دونوں شرائط کی رو سے غیر حصریہ اسلوب ہے۔ اس کی پہلی وجہ ہے کہ آیہ مبارکہ میں محض چار چیزوں کی حرمت کو بیان کیا گیا ہے۔ ان چار چیزوں میں پہلی تین چیزیں، مردار، بہایا ہوا خون اور خنزیر کا گوشت ہے، جسے قرآن مجید نے رجس قرار دیا ہے۔ سورہ مائدہ میں قرآن مجید نے خمر کو رجس قرار دیا ہے اور اس سے اجتناب کا حکم صادر کیا ہے۔ لہذا پہلی شرط کہ حصر کے قائم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس دائرے سے باہر اس حصر کا موضوع نہ پایا جائے، پوری نہیں ہوتی۔ خمر کو آپ حلال قرار ریں، یہ قرآن کی رو سے ممکن نہیں۔ خمر اِن چار محرمات میں شامل نہیں۔ لہذا یہ حصر، حصر نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے خمر کی عین وہ علت بیان کی ہے، جو علت مردار، سؤر اور خون کی حرمت کی بیان کی ہے۔
دوسری چیز یہ کہ قرآن مجید کے اپنے مخاطبین کے لحاظ اور ان کے اوہام کے تدارک کے لیے بھی احکامات صادر کرتا ہے۔ مشرکین نے حام، سائبہ اور وصیلہ کی حرمت کو خود سے قائم کر رکھا تھا۔ اس کا کوئی تعلق اللہ تعالیٰ کی وحی سے نہیں تھا۔ جن محرمات کو مشرکین اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے، ان میں سے محض چار محرمات اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ تھے۔ اس آیت میں صنعتِ تضاد کو بروئے کار لاتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی بدعات کا تدارک کیا ہے۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یہ نہیں کہ محض چار چیزیں کھانے کے لیے حرام ہیں۔ بلکہ اس آیہ مبارکہ کا مقصود مناقضہ ہے، تاکہ مخاطبین کے اوہام کو پاش پاش کیا جائے۔ لہذا آیت کا یہ اسلوب ایجابی نہیں۔ بلکہ سلبی ہے۔ طاعم کے نکرہ استعمال ہونے سے ہمارے مقدمہ پر اثر نہیں پڑتا۔ طاعم اُس سیاق میں نکرہ ہے، جس سیاق میں آیہ مبارکہ کا نزول ہوا ہے۔
تیسری چیز جو اس آیت کے حصریہ اسلوب کی حقیقت کھولتی ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے طیبات کو حلال قرار دیا ہے۔ خبائث کی حرمت ان کے خُبث سے جڑی ہے۔ جس کا مطلب ہر حال میں یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو خبائث کی قبیل میں سے ہوگی، اس کی حرمت آپ سے آپ قائم ہوگی۔ سورہ انعام کی آیت مبارکہ کو اس کے ظاہری مدلول یعنی حصر کے اسلوب میں قبول کرنے سے لازم آتا ہے کہ ان چار چیزوں کے علاوہ باقی تمام چیزیں حلال ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں۔ لہذا یہ حصر کچھ مستثنیات کو شامل ہے اور ان کو اپنے نزول کے وقت سے شامل ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ایک حصر کچھ مستثنیات کو اپنے میں سموئے ہوئے ہو، اور آپ خواہ مخواہ اس کے حصر کو موکد کرنے میں قلم توڑے جا رہے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

No Results Found

The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.