غامدی صاحب کا فکری مغالطہ (2)

Published On August 27, 2025
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط پنجم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط پنجم)

ڈاکٹر خضر یسین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، خاتم الوحی ہے اور آنجناب علیہ السلام کی ذات، خاتم النبیین ہیں۔ قرآن مجید کے بعد نہ ایسی وحی ممکن ہے جو انسانیت پر واجب الایمان و العمل ہو اور نہ آنجناب علیہ السلام کے بعد کوئی نبی و رسول ممکن ہے۔ آنجناب علیہ...

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ بقرۃ پر ان کی وضاحت پر تبصرہ

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ بقرۃ پر ان کی وضاحت پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل کچھ عرصہ قبل ایک تحریر میں متعدد مثالوں کے ذریعے یہ واضح کیا گیا تھا کہ اصولیین جسے نسخ، تقیید و تخصیص (اصطلاحاً بیان تبدیل و تغییر) کہتے ہیں، قرآن کے محاورے میں وہ سب “بیان” ہی کہلاتا ہے اور اس حوالے سے محترم مولانا اصلاحی صاحب اور محترم جاوید احمد...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط پنجم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب نے اپنی دینی فکر میں بہت ساری باتیں، خود سے وضع کی ہیں۔ ان کے تصورات درحقیقت مقدمات ہیں، جن سے اپنے من پسند نتائج تک وہ رسائی چاہتے ہیں۔ "قیامِ شھادت" کا تصور درحقیقت ایک اور تصور کی بنیاد ہے۔ اسی طرح نبوت و رسالت کے فرق کا مقدمہ بھی ایک اور...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط پنجم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط سوم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب نے بعض دینی تصورات خود سے وضع کئے ہیں یا پھر ان کی تعریف ایسی کی ہے جو خانہ زاد ہے۔ ان تصورات میں "نبوت" اور "رسالت" سب سے نمایاں ہیں۔ ان کے نزدیک انبیاء و رسل دونوں کا فارسی متبادل "پیغمبر" ہے۔ نبی بھی پیغمبر ہے اور رسول بھی پیغمبر ہے۔ مگر...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط پنجم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط دوم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی کے تصور "سنت" کے متعلق غلط فہمی  پیدا کرنا ہمارا مقصد ہے اور نہ غلط بیانی ہمارے مقصد کو باریاب کر سکتی ہے۔ اگر غامدی صاحب کے پیش نظر "سنت" منزل من اللہ اعمال کا نام ہے اور یہ اعمال آنجناب علیہ السلام پر اسی طرح وحی ہوئے ہیں جیسے قرآن مجید ہوا ہے...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط پنجم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط اول)

ڈاکٹر خضر یسین یہ خالصتا علمی انتقادی معروضات ہیں۔ غامدی صاحب نے اپنی تحریر و تقریر میں جو بیان کیا ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنی معروضات پیش کر رہے ہیں۔ محترم غامدی صاحب کے موقف کو بیان کرنے میں یا سمجھنے میں غلطی ممکن ہے۔ غامدی صاحب کے متبعین سے توقع کرتا ہوں،...

جہانگیر حنیف

غامدی صاحب چار محرماتِ طعام کو شریعت کا اصلاً موضوع قرار دیتے ہیں۔ دوسرے محرماتِ طعام ان کے نزدیک انھی کی فرع ہیں یا وہ فطرت کا بیان ہیں؛ وہ بیانِ شریعت نہیں۔ یہ چار محرمات ہی شریعت کا اصلاً موضوع کیوں ہیں، لکھتے ہیں:۔

”یہ سب بیان فطرت ہی ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ انسان کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اُن کی ایک بڑی تعداد اِس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی۔ چنانچہ شریعت نے اِس طرح کی کسی چیز کو اپنا موضوع نہیں بنایا۔ اِس باب میں شریعت کا موضوع صرف وہ جانور اور اُن کے متعلقات ہیں جن کے طیب یا خبیث ہونے کا فیصلہ تنہا عقل و فطرت کی رہنمائی میں کر لینا انسانوں کے لیے ممکن نہ تھا۔“

غامدی صاحب کے یہ الفاظ ” یہ سب بیانِ فطرت ہی ہے.“ سورہ مائدہ کی اُن آیات پر حاشیہ ہیں، جن میں خمر وغیرہ کو ”رجس“ قرار دے کر ان سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔ خمر کو قرآن مجید نے رجس کا عنوان دیا، غامدی صاحب اِسے بیانِ فطرت قرار دیتے ہیں۔ سورہ مائدہ کی اِن آیات میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں، جو اُنھیں بیانِ شریعت کی بجائے، بیانِ فطرت کی طرف پھیر ڈالے۔ یہ غامدی صاحب کے ذہن میں کوئی فریم ورک ہے، جو ایک جگہ ”رجس“ قرار دی گئی چیزوں کو شریعت اور دوسری جگہ ”رجس“ قرار دی گئی چیزوں کو بیانِ فطرت بنا دیتا ہے۔ سورہ مائدہ کی مذکورہ آیات اور سورہ انعام کی متعلقہ آیات میں ایسا کوئی اشارہ سرے سے موجود ہی نہیں. سورہ انعام میں ارشاد ہے:۔

قُلْ، لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٓٗ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ، فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ، فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ، فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(الانعام ۶: ۱۴۵)

’’اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر کہ) جو وحی میرے پاس آئی ہے، اُس میں تو میں نہیں دیکھتا کہ کسی کھانے والے پر کوئی چیز حرام کی گئی ہے ،جسے وہ کھاتا ہے، سواے اِس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو، اِس لیے کہ یہ ناپاک ہیں، یا خدا کی نافرمانی کرکے کسی جانور کو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ اِس پر بھی جو مجبور ہو جائے، نہ چاہنے والا ہو، نہ حد سے بڑھنے والا تو تیرا پروردگار بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘

غامدی صاحب نے اپنی کتاب ”میزان“ میں خور و نوش کے باب کا آغاز اِن آیات سے کیا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مردار، بہائے ہوئے خون اور سؤر کے گوشت کو قرآن مجید نے ”رجس“ قرار دیا یے۔ یعنی ان چیزوں کی حرمت کی وجہ ان کا رجس ہونا ہے۔ دو احکامات کی علت ایک ہو، تو ان کا حکم کیسے مختلف ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شراب وغیرہ کو رجس قرار دیں، تو وہ غامدی صاحب کے نزدیک بیانِ فطرت ہے اور اللہ تعالیٰ سؤر کے گوشت کو رجس قرار دیں، تو وہ بیانِ شریعت ہے۔ یہ کیسی دو عملی ہے؟ واضح رہے کہ قرآن مجید کی آیات میں دونوں جگہ ایسا کوئی قرینہ نہیں، جو سؤر کے گوشت کو بیانِ شریعت بنا دے اور شراب کو اس کے رجس ہونے کے باوجود بیانِ فطرت میں بدل ڈالے۔ اگر یہ بیانِ فطرت ہے، تو اس کے رجس ہونے کا معیار فطرت ہوگی۔ اور اگر فطرت کے تعین میں مسئلہ ہوگا، تو آپ لامحالہ آیت پیش فرمائیں گے۔ لوگ اگر یہ کہنا شروع کردیں کہ فطرت میں شراب کی حرمت نہیں اور بربنائے فطرت اس کا رجس ہونا بھی واضح نہیں، تو آپ فطرت کے میدان میں اس بحث کو نبٹا نہیں سکیں گے۔ آپ لامحالہ قرآن مجید کی آیت کو اپنے استدلال میں پیش کریں گے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت میں کسی حکم کے وارد ہونے کے بعد اس کی قانونی حیثیت بدل جاتی ہے۔ اُس حکم پر قرآنی نصوص حکومت کرتی ہیں۔ لہذا اس تناظر میں بھی دیکھیں، تو شراب کی حرمت محض فطرت کا بیان نہیں رہتا۔ یہ فطرت کی تشکیل و تعیین تو ہو سکتی ہے۔ محض بیان نہیں ہو سکتا۔

لہذا ہمارے دلائل دو ہیں۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ دو احکام کی علت ایک ہو، تو ان کا حکم بھی ایک ہوتا ہے۔ سؤر کے گوشت کے رجس ہونے اور شراب کے رجس ہونے سے دونوں کی حرمت قرآن مجید سے ثابت ہوتی ہے۔ یہ بیانِ شریعت ہے۔ بیانِ فطرت نہیں۔ مردار، بہائے ہوئے خون اور سؤر کے گوشت کی حرمت کو شریعت قرار دینا اور شراب وغیرہ کو فطرت کا بیان قرار دینا، یہ قرآنِ مجید کی مرادات میں کھلا تضاد قائم کرنا ہے۔ دوسرا یہ کہ اِن چیزوں کی حرمت اصلاً قرآن مجید سے ثابت ہے۔ فطرت قرآن مجید کے بیان کے ماتحت ہے۔ قرآن مجید پر حاکم نہیں ہو سکتی۔ فطرت قرآن مجید کے احکامات کی صحت کو متعین نہیں کرے گی، بلکہ فطرت اپنی درست تشکیل میں قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کرے گی۔ شراب کی نجاست بربنائے نص ثابت ہے۔ ہم فطرت سے اس کے ثبوت کو ثانوی حیثیت دیں گے۔ فطرت کو کسوٹی بنانے کا مطلب ہے کہ جس کی فطرت شراب کی نجاست کو محسوس نہیں کرتی، وہ اس حکم اور اس حکم کے ساتھ ساتھ پورے دین پر سوالات قائم کردے۔ چناچہ سورہ انعام میں بیان کردہ محرماتِ طعام اور سورہ مائدہ میں بیان شراب کی ممانعت شریعت کا بیان ہے۔ ان میں بیانِ شریعت اور بیانِ فطرت کے امتیاز کی لکیر کھینچنا، ان کی مشترک علت یعنی نجس ہونے سے اعراض کرنا ہے۔ جو بوجوہ غلط اور محض گمراہی ہے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ اِن آیات کی جس فریم ورک کے تحت غامدی صاحب نے تفہیم کی ہے، اُس میں اُن کے یہ الفاظ بہت کلیدی اہمیت رکھتے ہیں: ”اِس باب میں شریعت کا موضوع صرف وہ جانور اور اُن کے متعلقات ہیں جن کے طیب یا خبیث ہونے کا فیصلہ تنہا عقل و فطرت کی رہنمائی میں کر لینا انسانوں کے لیے ممکن نہ تھا۔“ یہ غامدی صاحب کی طرف سے قرآن مجید کے متن میں بہت بڑا تصرف ہے، جسے قرآن مجید کے الفاظ یکسر قبول نہیں کرتے۔ ہماری نظر میں اگر غامدی صاحب کے محض اس دعوی کو غلط ثابت کردیا جائے، تو کسی دوسری دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔ غامدی صاحب کے الفاظ ”عقل و فطرت کی رہنمائی میں فیصلہ کرلینا ممکن نہ تھا“ کو سورہ انعام کی متعلقہ آیات پر پیش کرکے دیکھیں، وہ انھیں فوراً اُگل کر پھینک دیں گی۔ پیشگی تصورات اور معتقدات کے بغیر اگر آپ ان آیات کا مطالعہ کریں، تو ان محرمات کے حوالے سے عقل و فطرت کی ناکامی کا کوئی تصور ہمارے ذہن میں نہیں آتا۔ آئیں اِن آیات کو دوبارہ دیکھتے ہیں: قُلْ، لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٓٗ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ، فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ، فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ، فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(الانعام ۶: ۱۴۵) اِن آیاتِ مبارکہ میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ عقل و فطرت اِن چار محرماتِ طعام کو دریافت کرنے سے قاصر ہیں، لہذا ہم تمھیں بتا دیتے ہیں کہ یہ چار چیزیں کھانے والی نہیں ہیں۔ حتی کہ اِن آیات میں اشارتاً بھی کوئی ایسی بات نہیں کہی گئی، جس سے ہمیں یہ معلوم ہو کہ عقل و فطرت اُن کی حرمت کو متعین کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ پورا مقدمہ ہی محلِ نظر ہے کہ شریعت محض اُن چیزوں کی حرمت کو بیان کرتی ہے، جن کی حلت و حرمت انسانی فطرت سے واضح ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ماں کو محرماتِ نکاح کی فہرست میں بیان نہ کیا جاتا۔ دوسرا مردار سے جو طبیعت میں انقباض پیدا ہوتا ہے، اِسے شریعت کا موضوع نہ بنایا جاتا۔ مزید برآں شراب کے نجس ہونے کو قرآن مجید میں بیان نہ کیا جاتا۔ لہذا غامدی صاحب کا یہ پورا فلسفہ ہی قرآن مجید اور شریعت محمدی کے لیے اجنبی چیز یے۔ اس فلسفہ کے تحت کچھ چیزیں شریعت ہیں اور کچھ فطرت کا بیان ہیں۔ حتی کہ قرآن مجید کی واضح نصوص میں وارد احکامات کو غامدی صاحب شریعت ماننے سے انکاری ہیں۔ چناچہ مسئلہ محض احادیث سے ملنے والے دین کے بارے میں نہیں ہے۔ بلکہ قرآن مجید میں بیان احکام بھی غامدی صاحب کے نزدیک بیانِ شریعت نہیں، بلکہ بیانِ فطرت ہیں۔ غامدی صاحب کا فقہی اور اصولی منہج

reductive اور minimalist

ہے۔ یہ شریعت کو سیکڑنے کی کوئی مہم ہے، جس کا ہدف شریعت کو پاکٹ سائز ڈکشنری تک محدود کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس جدید اور تیز ترین دور میں دین کو

survive

کروانا ہے۔ اس کا حل غامدی صاحب نے یہ نکالا ہے کہ اِسے اِس حد تک

reduce

کردو کہ اِسے جیب میں ڈال کر گھومنا ممکن ہو جائے۔ یہ بھی بڑی سعادت کی بات ہوگی۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…