غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 12

Published On August 24, 2025
غامدی صاحب کا الہ اور قرآن

غامدی صاحب کا الہ اور قرآن

ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب اہل تصوف کی فکر کو خارج از اسلام دکھانے کے لئے یہ تاثر قائم کرواتے ہیں کہ توحید سے متعلق ان کے افکار قرآن میں مذکور نہیں۔ اپنے مضمون "اسلام اور تصوف" میں آپ الہ کا یہ مطلب لکھتے ہیں: " ’الٰہ‘ کا لفظ عربی زبان میں اُس ہستی کے لیے بولا...

غلامی : پہلے، اب اور آئندہ

غلامی : پہلے، اب اور آئندہ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد رمضان کے مہینے میں سوشل میڈیا پر عموماًً مذہبی مسائل پر بحث چلتی ہے۔ بعض لوگ ایسے موقع کو مذہب پر اعتراض کےلیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ایک مرغوب موضوع غلامی ہے اور یہ عموماً مسلمانوں کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کےلیے یا تو ماضی کی...

قرآن کی تعلیم: فقہی روایت اور مکتب فراہی ( ایک مکالمہ)

قرآن کی تعلیم: فقہی روایت اور مکتب فراہی ( ایک مکالمہ)

ڈاکٹر زاہد مغل یہ مکالمہ چند امور کو واضح کرنے کے لئے تحریر کیا گیا ہے۔ "م ف" سے مراد مکتب فراہی کے منتسب ہیں اور "ف ر" سے مراد فقہی روایت کے منتسب۔ م ف: مدارس میں براہ راست قرآن مجید کی تعلیم تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں کلام، اصول فقہ، فقہ، حدیث، لغات وغیرہ...

غامدی صاحب اور سائنس

غامدی صاحب اور سائنس

محمد حسنین اشرف "حقائق کی وضاحت حقیقت نہیں ہوتی" یہ بات نہایت اہم ہے کہ آپ کسی علم کے بارے میں عمومی رائے کیا قائم کرتے ہیں۔ کیونکہ یہی عمومی رائے آپ کو پھر اس کی تھیوریز وغیرہ سے متعلق رائے قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس لیے سائنس پر میٹا لیول گفتگو کو پہلے کرنا...

علمِ کلام کی ضرورت و معنویت اور جاوید احمد غامدی صاحب کی رائے پر تبصرہ

علمِ کلام کی ضرورت و معنویت اور جاوید احمد غامدی صاحب کی رائے پر تبصرہ

مشرف بیگ اشرف جس طرح مسلمانوں کی تاریخ میں، قانون کے لیے فقہ، اور قانون کي نظری بنیادوں اور مسلمانوں کے ہاں رائج لسانی نظریات کے لیے اصول فقہ میدان رہا ہے، اسی طرح علمیات، وجودیات، الہیات، قضیہ عقل ونقل اور نظریہ اخلاق کی بحث کے لیے علم کلام میدان رہا ہے۔ یہی وجہ ہے...

نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے...

مولانا عبد الحق بشیر

حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کے بارے میں:۔

پہلا مرحلہ جاوید احمد غامدی صاحب کا تھا۔ دوسرا ان کے وکیل و شاگرد عمار خان ناصر کا تیسرا مرحلہ حضرت مولانا علامہ زاہد الراشدی کا ہے۔ اس کو میں ذرا مختصر بیان کروں گا۔ مولانا علامہ زاہد الراشدی صاحب کے علم و فضل میں کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن اُن کے ساتھ ہمارے (بہت سے ) اختلافات ہیں۔ میں اس وقت باقی سارے اختلافات کو نظر انداز کرتا ہوں۔ میرے پاس اختلافات کی ایک فہرست ہے (لیکن فی الحال) میں سب کو نظر انداز کرتا ہوں۔ صرف تین اختلافات کو سامنے رکھتا ہوں۔

پہلا اختلاف: کیا مودودی کی غلطیاں تفردات ہیں؟

آپ مودودی نام کے کسی شخص کو جانتے ہیں؟ (جی!) اس کے بارے میں کیا نظریہ ہے آپ کا؟ (سراسر ضال اور مضل ہے! وہ گمراہ آدمی ہے۔ تمام علمائے دیوبند کا اجماع ہے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی ، شیخ الاسلام حضرت مدنی، شیخ التفسیر حضرت لاہوری سے لے کر آج تک تمام علمائے دیوبند کا مودودی کی ضلالت پر اجماع ہے۔ لیکن علامہ زاہد الراشدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ مودودی صاحب نے جو غلطیاں کی ہیں وہ ضلالت نہیں ہے، تفرد ہے۔

تفرد اور ضلالت میں فرق:۔

تفرد اور ضلالت میں فرق  تھوڑا سا سمجھا دوں۔ ایک آدمی اصولوں کا انکار نہیں کرتا، لیکن تحقیق میں غلطی کر کے ایک مسئلہ غلط بیان کر دیتا ہے یا دو مسئلے غلط بیان کر دیتا ہے۔ اگر اس شخص کی دیانت بھی مسلم ہے، اس کا علم بھی مسلم ہے، اس کا فہم بھی مسلم ہے۔ تو اس کی ایسی غلطی کو “تفرد” کہتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے ، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے اور ان جیسے علماء و مشائخ جن کا علم و تقوی مسلم ہے، اگر کوئی غلطی ہوئی تو اُسے” تفرد“ کہا جائے گا۔ لیکن ایک آدمی اصول بھی بدلتا ہے اور اُن غلط اُصولوں کی بنیاد پر نئی تحقیق کر کے اُمت کے ایک نہیں، دو نہیں، چار نہیں، آٹھ نہیں، دس نہیں، بیسیوں مسائل کو رد کرتا ہے، اُس کی غلطیوں کو تفرد کہنا یہ بذاتِ خود ضلالت ہے۔

تفرد فرد کا ہوتا ہے جماعت کا نہیں !۔

بلکہ میں ایک بات اور کرتا ہوں کہ: تفرد اُسے کہتے ہیں جو فرد کرتا ہے۔ مجلس شوری تفرد نہیں کرتی۔ اب جماعت اسلامی کے دستور میں مسلمان کی تعریف میں آج بھی یہ بات موجود ہے کہ: جو رسول خدا ﷺ کے علاوہ نہ کسی کو معیار حق مانے، نہ کسی کو تنقید سے بالاتر سمجھے، نہ کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہو۔ اس کی زد میں صرف صحابہ نہیں  باقی تمام انبیاء بھی آرہے ہیں۔ کیونکہ رسول خدا کا لفظ بولا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ باقی تمام انبیاء میں سے کوئی نبی بھی تنقید سے بالا تر نہیں۔ وہ بھی معیار حق نہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ: جماعت کی پوری مجلس شوری بیٹھ کر صحابہ کرام کے معیار حق و صداقت ہونے کا انکار کرتی ہے اور حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب  فرماتے ہیں: یہ تفرد ہے۔

شیخ الاسلام و المسلمین حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر مستقل رسالہ لکھا ہے: “مودودی دستور وعقائد ” جس میں اُنھوں نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔ اسے اُمت کے اجماعی عقیدے کے خلاف قرار دیتے ہوئے ضلالت کہا گیا ہے۔ لیکن آج اُن (مودودیوں) کی ضلالت کو چھپانے کے لیے تفرد کا نام دیا جاتا ہے۔ (جو یقینا غلط ہے۔)

مولانا راشدی سے متعلق یہ ایک بات ہوئی۔

 

جاری

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…