مولانا محبوب احمد سرگودھا اسلامی عقائد انتہائی محکم ، واضح اور مدلل و مبرہن ہیں ، ان میں تشکیک و تو ہم کی گنجائش نہیں ہے۔ ابتدا ہی سے عقائد کا معاملہ انتہائی نازک رہا ہے، عقائد کی حفاظت سے اسلامی قلعہ محفوظ رہتا ہے۔ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہی سے کئی افراد اور جماعتوں...
غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 11
مسئلہ نزولِ عیسی اور قرآن
بنیاد پرست غامدی صاحب لکھتے ہیں :۔ ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہو جانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ لیکن موقعِ بیان کے باوجود اس واقعہ کی طرف کوئی ادنی اشارہ بھی قرآن کے بین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ علم و عقل اس خاموشی پر مطمئن ہو سکتے ہیں...
مسئلہ حیاتِ عیسی اور قرآن : لفظِ توفی کی قرآن سے وضاحت
بنیاد پرست قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ جب یہود نے عیسی علیہ السلام کو صلیب دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تو قرآن نے جو فرمایا کہ” اللہ نے انہیں اپنی طرف بلند کر دیا “وہ حقیقت میں انہیں بلند نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کے درجات بلند کر دیے گئے تھے ، اس جگہ پر درجات کے بلندی کا...
غامدی صاحب کا استدلال کیوں غلط ہے ؟
صفتین خان غامدی صاحب کا تازہ بیان سن کر صدمے اور افسوس کے ملے جلے جذبات ہیں۔ یہ توقع نہیں تھی وہ اس حد تک جا کر خاکی فصیل کا دفاع کریں گے۔ یہ خود ان کے اوپر اتمام حجت ہے۔ ان کے انکار کے باوجود فوجی بیانیہ کے خلاف ان کے تمام سابقہ فلسفے اس تازہ کلام سے منسوخ و کالعدم...
نظمِ قرآن : غامدی صاحب کی تفسیر “البیان” کا ایک مختصر تقابلی مطالعہ
جہانگیر حنیف فصل اوّل: تعارف مدرسۂ فراہی کا موقف ہے کہ نظم شرطِ کلام ہے۔ کلام نظم کے ساتھ وجود پذیر ہوتا ہے اور نظم کے تحت ہی فہم کی تحویل میں آتا ہے۔ اُن کےنزدیک نظم کی نفی کلام کی فطری ساخت کا انکار اور کلام کے درست فہم میں رکاوٹ ہے۔ لہذا امام فراہی، مولانا اصلاحی...
قرآن مجید کو سرگذشت قرار دینا کیوں غلط ہے؟
جہانگیر حنیف غامدی صاحب نے قرآن مجید کو ”سر گذشتِ انذار“ قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگذشتِ انذار ہے۔“¹ قرآن مجید کے نذیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن اسے ”سرگذشت“ قرار دینے سے بہت سے علمی و ایمانی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں...
مولانا عبد الحق بشیر
کیا حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کا جرم زنا بالجبر تھا؟
اور رجم کے بارے میں بھی میں عرض کر چکا ہوں کہ جو غامدی صاحب کا نظریہ ہے وہی عمار ناصر کا نظریہ ہے۔ چنانچہ غامدی اور عمار (دونوں) کا موقف یہ ہے کہ :” حضرت ماعز ابن مالک اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ نے زنا بالجبر کیا تھا۔ اور نعوذ باللہ وہ عادی مجرم تھے۔)
ایک چیز میں آپ کے ذہن میں ضرور بٹھانی چاہوں گا۔ ہمارے نزدیک صحابہ معصوم نہیں ہیں، لیکن یہ بھی ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ کوئی صحابی عادی مجرم نہیں ہو سکتا۔ صحابہ سے اتفاقی گناہ ہو سکتا ہےلیکن صحابہ میں سے عادی مجرم کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ اس کی عدالت کے خلاف ہے۔ جب کہ ہمارا اہل السنۃ والجماعہ کا عقیدہ اور ایمان ہے: الصحابة كلهم عدول
مرتد کی سزا کے بارے میں:۔
اور مرتد کی سزا کے بارے میں بھی ان (عمار خان ناصر) کا موقف وہی ہے جو غامدی صاحب کا ہے کہ مرتد کی سزا قتل نہیں ہے۔
کیا توہین رسالت کے جرم پر سزائے موت صرف عادی مجرم کے لیے ہے؟ توہین رسالت کے مجرم کے بارے میں غامدی صاحب اور اُن کی پوری پارٹی کہتی ہے کہ: اگر کوئی ایک آدھ بار توہین رسالت کرتا ہے تو اُس کو سزائے موت نہیں دی جاسکتی۔ ہاں! عادی مجرم ہو تو سزا دی جاسکتی ہے۔ یہی بات عمار نا صر صاحب نے لکھی ہے۔)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ: توہین رسالت کے بارے میں جو خطرات ہیں (غامدی موقف کے مطابق سزا دینے سے اُن میں اضافہ ہوگا یا کمی ہوگی ؟ [ اضافہ !] اور سزا تو جرم کے خاتمے کے لیے ہوتی ہے، نہ کہ جرم کے اضافے کے لیے۔ مثال کے طور پر خدا نخواستہ ایک دن ایک عیسائی توہین رسالت کرتا ہے، یا کوئی یہودی یا کوئی غیر مسلم توہین رسالت کرتا ہے، اب عمار خان اور غامدی صاحب کے موقف کے مطابق موت کی سزا تو صرف عادی مجرم کے لیے ہے۔
اور اس کا عادی مجرم ہونا چوں کہ ثابت نہیں ہوا لہذا (توبہ کی مہلت پا کر) وہ تو بری ہو گیا۔ دوسرے دن دوسرے عیسائی کو کھڑا کر دیا وہ توہین رسالت کر رہا ہے۔ اس کا بھی عادی مجرم ہونا ثابت نہیں ہو سکا وہ بھی بری ہو گیا۔ تیسرے دن تیسرا عیسائی کھڑا ہو گیا۔ تو کیا یہ توہین رسالت کا دروازہ کھولنے کے مترادف نہیں ہے؟ توہین رسالت کوئی ایک دفعہ کرے تو (اس کی سزا بھی) سزائے موت ہے، سو دفعہ کرے تو سزا موت ہے۔ اس کے لیے انتظار نہیں کیا جائے گا کہ چل یار ایک دفعہ کر لیا تو جاؤ۔ اُس کو دوسری دفعہ توہین رسالت کا موقع نہیں دیا جا سکتا۔ پہلی دفعہ ہی اس کی سزا موت ہے۔ غامدی طبقے کا یہ نظریہ سراسر توہین رسالت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہے۔
کیا قتل منافق والی روایت کسی دشمن صحابہ اور پیشہ ور واعظ نے گھڑی؟
آپ کے ہاں اکثر تفسیروں کے اندر حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ لکھا ہے کہ یہودی اور منافق کا جھگڑا ہوا۔ حضور ﷺ نے فیصلہ یہودی کے حق میں دیا۔ وہ اپنا فیصلہ لے کر حضرت عمر کے پاس گئے، حضرت عمر کا پھر اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ عمر نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ (یعنی) منافق کو قتل کر دیا۔اس پر وہاں شور اُٹھا۔ اب عمار خان لکھتا ہے کہ: ” یہ اسلام دشمنوں اور صحابہ دشمنوں کا اور پیشہ ور واعظوں کا گھڑا ہوا قصہ ہے۔“
یہ بات اگر آپ حضرات سمجھ جائیں اور یہاں سے جانے کے بعد اپنے اپنے مقام پر یہ بات دوسروں تک پہنچا ئیں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارا مقصد پورا ہو گیا۔
روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمر فاروق نے منافق کو قتل کیا۔ اور عمار خان کے نزدیک یہ روایت پیشہ و رواعظ ، صحابہ دشمن اور اسلام دشمنوں کی گھڑی ہوئی ہے۔
آپ کے استاذ ) مولانا (نواز بلوچ صاحب) ذخیرۃ الجنان کے مرتب ہیں۔ (ان سے پوچھ سکتے ہیں، خود بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ) اُس میں یہ واقعہ ہے یا نہیں ہے۔ ذخیرۃ الجنان میں اور تفسیر کی سب کتابوں میں یہ واقعہ موجود ہے۔ (گویا جمہور مفسرین نے یہ روایت بیان کی۔)
واقعہ سے اختلاف کرنا الگ بات ، مگر یہ انداز بذات خود صحابہ دشمنی ہے:۔
دیکھیے میں یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ کسی واقعے سے اختلاف کرنا اور بات ہے۔ لیکن ( واقعہ بیان اور نقل کرنے والوں کو پیشہ ور واعظ اسلام دشمن اور صحابہ دشمن کہنا بالکل الگ بات ہے۔ عمار خان کا اس کے بارے میں اتنے سخت الفاظ استعمال کرنا کہ یہ واقعہ بیان کرنے والا اسلام دشمن ہے، صحابہ دشمن ہے، پیشہ ور واعظ ہے، میں یہ سجھتا ہوں کہ یہ بذات خود صحابہ دشمنی ہے۔
اور میرا سوال یہ ہے کہ حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کو عادی مجرم، او باش اور بد معاش کہنا تو توہین صحابہ نہیں ؟ (نہ ہی ایسا کہنے والا صحابہ کا گستاخ شمار ہوتا ہے۔) اور یہ روایت بیان کرنے والا کہ : ” حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مسترد کرنے والے منافق کو قتل کر دیا ۔ وہ دشمن صحابہ ہے !؟ (لا حول ولاقوة الا باللہ العلی العظیم)
جاری
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
تصورِ جہاد ( قسط سوم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی...
تصورِ جہاد ( قسط دوم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری...
تصورِ جہاد ( قسط اول)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید...