غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 10

Published On August 24, 2025
تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب   کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...

۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب تلخیص : زید حسن اس ویڈیو میں سپیکر حافظ محمد زبیر صاحب نے " بعض افراد" کے اس دعوے کہ آپ کی تفہیمِ غامدی درست نہیں ، کو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔ لیکن اس پر از راہِ تفنن گفتگو کرنے کے بعد چند اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے اور غامدی منہج پر سوالات...

مولانا عبد الحق بشیر

 کیا مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کا حق ہے؟

عمار ناصر صاحب نے ایک اور شوشہ چھوڑا ہوا ہے۔ (کہ مسجد اقصیٰ پر یہود کا اصولی حق بر قرار ہے۔ الشریعہ اشاعت خاص: ۱۷۹] اور یہی نظریہ غامدی صاحب کا ہے۔ مقامات: ۱۹۵))

آج تک امت مسلمہ اس بات پر متفق رہی ہے کہ مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کا حق ہے۔ جو اللہ تعالی نے اُن کو دیا ہے۔ آپ نے حضرت مولانا نواز بلوچ صاحب دامت فیو ضہم سے پڑھا بھی ہوگا: “ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر ان الارض يرثها من عبادى الصالحون ۔ کہ ہم اس زمین کا وارث اپنے نیک بندوں کو بتائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سی زمین ہے جس زمین کا وارث اللہ رب العزت نیک بندوں کو بنانے کا وعدہ کر رہے ہیں؟ یہاں ہمیں دو چیزوں کا تعین کرنا ہے۔ پہلی چیز یہی کہ وہ کون سی زمین ہے؟ تو اُس

زمین کے بارے میں خود غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے کہ: اس سے مراد وہ زمین ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے پاس تھی۔ اور فلسطین اس میں شامل ہے تو معلوم ہوا کہ جو زمین ابراہیم علیہ السلام کے پاس تھی، اللہ تعالی اس کے بارے میں وعدہ کر رہے ہیں کہ اس زمین کا وارث میں نیک بندوں کو بناؤں گا۔

دوسری بات) آب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وراثت کس کو کہتے ہیں؟ اور نیک بندے کون سے ہیں؟ ( آپ حضرات جانتے ہیں کہ وراثت صرف وارث کی ہوتی ہے۔ کیوں مولانا! باپ میرا مرا ہے (تو کیا خیال ہے) وراثت سب کی ہوگی ؟ نہیں!) وراثت کس کی ہے؟ وارث کی۔ اور عبادی الصالحون” کی تفسیر میں آپ نے پڑھ لیا ہوگا کہ پوری اُمت کا اجماع ہے کہ اس سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امت مسلمہ ہے۔

جب اللہ کا قرآن یہ کہتا ہے کہ: ہم نے اس زمین کا وارث امت مسلمہ کو بنایا ہے تو پھر یہ دعوی کرنا کہ اس زمین پر یہودیوں کا بھی حق ہے، اس زمین پر عیسائیوں کا بھی حق ہے۔ ( کہاں کی مسلمانی ہے؟) میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ : آج کے اس دور میں جب اس خطے کے اندر لڑائی ہو رہی ہے، وہ کہتے ہیں: مسجد اقصیٰ ہماری ہے، ہم کہتے ہیں مسجد اقصی ہماری ہے۔ لڑائی ہی اسی بنیاد ہے، (اس صورت حال میں) یہ دعوی کرنا کہ (مسجد اقصی پر) یہود کا حق ہے۔ کیا یہ مسلمانوں کے موقف کو کمزور کرنا نہیں ہے؟ کیا یہ مسلمانوں کے موقف کو کمزور کرنے کے مترادف نہیں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ  اُن کا یہ دعوی کرنا کہ وہاں یہودیت کا بھی حق ہے، یہ یہودیوں کے موقف کو مضبوط کرتا ہے۔

جاری

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…