غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 7

Published On August 24, 2025
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 21)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 21)

مولانا واصل واسطی دوسرا نکتہ جناب غامدی نے ان کے اپنے الفاظ میں یہ بیان کیاہے کہ ،، ثانیا آپ کو بتایا ہے کہ یہ دوسری قراءت قران کو جمع کرکے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کردینے کے بعد کی جائے گی ، اور اس کے ساتھ ہی آپ اس بات کے پابند ہوجائیں گے کہ آئندہ اسی قراءت کی پیروی...

جاوید احمد غامدی کے فلسفیانہ افکار کا جائزہ قسط اول

جاوید احمد غامدی کے فلسفیانہ افکار کا جائزہ قسط اول

عمران شاہد بھنڈر چند ہفتے قبل جاوید احمد غامدی صاحب کی ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں وہ ایک بار پھر قرآن کے تصورِ تخلیق کو بروئے کار لاتے ہوئے’’ وجود‘‘ کے مسئلے کی وضاحت کررہے تھے ۔ غامدی صاحب اپنی بات کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ ’’قرآن سے پہلے سقراط و...

کیا علامہ طبری نے آیت “لتبین للناس” سے وہ مراد لی جو غامدی صاحب فرماتے ہیں؟

کیا علامہ طبری نے آیت “لتبین للناس” سے وہ مراد لی جو غامدی صاحب فرماتے ہیں؟

ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب نے دو ویڈیوز میں سورۃ نحل کی آیت 43 (وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ) میں لفظ تبیین پر اپنے موقف پر دلائل دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ لغوی طور پر اس لفظ کے دو معانی ہیں: (الف) از خود کسی بات کو...

علامہ زمحشری کی عبارت سے غامدی صاحب کے استدلال پر تبصرہ

علامہ زمحشری کی عبارت سے غامدی صاحب کے استدلال پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل علامہ جار اللہ زمحشری (م 538 ھ) کی جس عبارت کو محترم غامدی صاحب نے مسئلہ تبیین پر اپنے مدعا کا بیان قرار دیا، اس عبارت سے کیا جانے والا استدلال بھی مخدوش بے۔ علامہ زمحشری لکھتے ہیں: ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ يعنى ما نزل الله إليهم في الذكر مما أمروا به...

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ حجاب پر ان کی وضاحت پر تبصرہ

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ حجاب پر ان کی وضاحت پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل محترم جناب غامدی صاحب کے تصور تبیین کی قرآن کے محاورے میں غلطی واضح کرنے کے لئے دی گئیں چھ میں سے دوسری مثال پر غامدی صاحب نے تبصرہ فرمایا ہے۔ اس مثال میں ہم نے واضح کیا تھا کہ سورۃ نور کی آیت 58 میں پردے کے احکام میں جو تبدیلی کی گئی، قرآن نے اسے تبیین...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 21)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 20)

مولانا واصل واسطی اب ہم ان تین نکات کو ترتیب وار لکھتے ہیں جو جناب غامدی نے سورت القیامہ اور سورت الاعلی سے سمجھے ہیں مگر اتنی سی بات پہلے جان لیں کہ جناب غامدی نے ان دو آیات کے ترجمہ میں چند الفاظ داخل کیے ہیں  کہ وہ پھر اپنے مدعی کو ثابت کرنے میں ان کو کام آجائیں  (...

مولانا عبد الحق بشیر

ساتواں اختلاف: کیا شاتم رسول اور مرتد کے لیے شریعت میں قتل کی سزا نہیں؟

ہمارا غامدی صاحب کے ساتھ ساتواں اختلاف کیا ہے؟ غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ: (موت کی سزا قرآن مجید کی رو سے قتل نفس اور فساد فی الارض کے سوا کسی جرم میں بھی نہیں دی جاسکتی ۔ برہان : ۱۴۳] یعنی ( محاربہ اور قتل، باہمی جنگ و جدال اور قتل، ان دو جرموں کے علاوہ اسلامی ریاست کے اندر کسی جرم کی سزا نہیں ہے۔ صرف دو جرم ہیں جن کی سزا قتل ہے۔ قتل کے بدلے قتل اور محاربہ مطلب سمجھیں ہیں آپ؟ کہ توہین رسالت کی سزا قتل نہیں ہے۔ ارتداد کی سزا بھی قتل نہیں ہے۔ جو آدمی مرتد ہو جائے اسلامی ریاست میں اس کی سزا بھی قتل نہیں ہے۔ یہ ہمارا غامدی صاحب کے ساتھ ساتواں اختلاف ہے۔

آٹھواں اختلاف کیا رجم کی سزا صرف عادی مجرم کے لیے ہے؟

اور آٹھواں اختلاف اپنے سینوں پہ ذرا پتھر رکھ کے، جذبات میں آئے بغیر ذرا توجہ سے سننا۔ اسلام کی ایک سزا ہے، شادی شدہ زانی کے لیے، رجم ! انہیں پتھر مار مار کے مار دو۔ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ: یہ سزا محض زنا کی وجہ سے نہیں دی جاسکتی، بلکہ فساد فی الارض کی وجہ سے صرف عادی مجرم کو دی جاسکتی ہے۔ اور چونکہ حضور ﷺ نے بھی رجم کی سزادی ہے، خلفائے راشدین نے بھی دی ہے۔ (اس لیے) غامدی صاحب اور ان کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے اپنا دعوی ثابت کرنے کے لیے اُن  صحابہ کرام کو عادی مجرم اور اور فساد فی الارض کا مرتکب قرار دے دیا ہے جن پر یہ سزا جاری ہوئی۔ العیاذ باللہ تعالی ثم العیاذ باللہ تعالی۔ بلکہ غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے اپنی کتاب ” تدبر قرآن میں اور غامدی صاحب نے اپنی تحریرات میں : حضرت ماعز ابن مالک اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ جن پر سزائے رجم جاری ہوئی تھی ان کے بارے میں (انتہائی سنگین اور گستاخی پرمبنی ) الفاظ استعمال کیے ہیں کہ: وہ عادی مجرم تھا، پیشہ ور مجرم تھا، غنڈا تھا، بدمعاش تھا، اوباش تھا۔ اس کی عادت تھی عورتوں کے پیچھے بھاگنا، عورتوں کے پیچھے پھرنا۔

کیا حضرت ما عز رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابی نہیں تھے؟

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ماعز ابن مالک اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ صحابی تھے یا نہیں تھے؟ دو باتوں میں سے ایک بات کا تو ہمیں انکار کرنا پڑے گا۔ یا تو اُن کی صحابیت کا انکار کرنا پڑے گا کہ وہ صحابی نہیں تھے۔ یا پھر اُن کے عادی مجرم ہونے کا انکار کرنا پڑے گا۔ یعنی اگر وہ صحابی تھے تو پھر صحابی عادی مجرم نہیں ہو سکتا۔ پہلی بات: کہ وہ صحابی تھے یا نہیں؟ تو اس پر سب کا اتفاق کہ وہ یقینا صحابی رسول تھے۔ اُن کےصحابی ہونے کا انکار تو وہ اصلاحی اور غامدی صاحبان  بھی نہیں کرتے۔ (ان کو) غنڈہ کہتے ہیں، بدمعاش کہتے ہیں، اوباش کہتے ہیں، پیشہ ور مجرم کہتے ہیں، عادی مجرم کہتے ہیں، یہ سارے الزام لگاتے ہیں لیکن صحابی ہونے کا انکار نہیں کرتے۔ اگر صحابی ہیں تو پوری اُمت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ: الصَّحَابَةُ كُلُهُمْ عُدول . ہمارا ایمان ہے کہ صحابی محفوظ ہے، نبی معصوم ہے۔

جاری

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…