غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 5

Published On August 24, 2025
سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل ایک ویڈیو میں محترم غامدی صاحب علم کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ایک حرف غلط قرار دے کر غیر مفید و لایعنی علم کہتے ہیں۔ اس کے لئے ان کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ فلسفے کی دنیا میں افکار کے تین ادوار گزرے ہیں:۔ - پہلا دور وہ تھا جب وجود کو بنیادی حیثیت دی گئی...

شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”

شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”

ڈاکٹر زاہد مغل ایک ویڈیو میں جناب غامدی صاحب حالیہ گفتگو میں زیر بحث موضوع پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دین یا شریعت خاموش ہونے سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ شریعت نے اس معاملے میں سرے سے کوئی حکم ہی نہیں دیا بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ شارع نے یہاں کوئی معین...

قرآن کا میزان و فرقان ہونا اور منشائے متکلم کا مبحث

قرآن کا میزان و فرقان ہونا اور منشائے متکلم کا مبحث

جہانگیر حنیف کلام کے درست فہم کا فارمولہ متکلم + کلام ہے۔ قاری محض کلام تک محدود رہے، یہ غلط ہے اور اس سے ہمیں اختلاف ہے۔ کلام کو خود مکتفی قرار دینے والے حضرات کلام کو کلام سے کلام میں سمجھنا چاہتے ہیں۔ جو اولا کسی بھی تاریخی اور مذہبی متن کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اور...

خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

سید متین احمد شاہ غامدی صاحب کی ایک تازہ ویڈیو کے حوالے سے برادرِ محترم علی شاہ کاظمی صاحب نے ایک پوسٹ لکھی اور عمدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ صحابہ کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے غامدی صاحب کی اور بھی کئی ویڈیوز ہیں۔ جس طرح انھوں نے بہت سے فقہی اور فکری معاملات میں...

حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط دوم

حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط دوم

مولانا محبوب احمد سرگودھا غامدی صاحب کے تیسرے اعتراض کی بنیاد سورہ مائدہ کی آیت ہے 117 میں موجود عیسی علیہ السلام کا روز قیامت باری تعالٰی سے ہونے والا مکالمہ ہے۔ آیت یہ ہے: فلما توفيتني كنت انت الرقيب عليهم، وانت على كل شيء شهید (قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں عیسی...

مولانا عبد الحق بشیر

 

 پانچواں اختلاف کیا اجماع امت حجت نہیں؟

غامدی صاحب کے ساتھ ہمارا پانچواں اختلاف کیا ہے؟ غامدی صاحب کہتے ہیں: اجماع امت حجت نہیں ہے۔ آپ اکثر علماء ہیں ، حضور ﷺ کی حدیث آپ کے سامنے ہوگی: ان الله لا يجمع امتى على الضلالة. ترمذى۔ الله میری امت کو کسی گمراہی پر جمع نہیں کریگا۔ اب ایک طرف نبی کا فرمان ہے کہ: اللہ میری امت کو کسی گمراہی پر کسی غلطی پر جمع نہیں کریگا اور دوسری طرف غامدی صاحب کا نظریہ  ہے کہ اجماع میں بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ اور ہمیں اجماع کی مخالفت کا اختیار حاصل ہے۔ جو علم ان (اجماع کرنے والوں) کے پاس تھا وہی ہمارے پاس ہے، جو عقل اُن کے پاس تھی وہی ہمارے پاس ہے، جو فہم اُن کے پاس تھا وہی ہمارے پاس ہے، ہم اُن کے احکامات کو بھی بدل سکتے ہیں، ہم اُن کے اُصولوں کو بھی بدل سکتے ہیں۔

دلائل میں فہم کے لحاظ سے پہلانمبر اجماع

یہاں میں ایک بات عرض کردوں ۔ ہمارے اہل السنت والجماعۃ کے مسلک اور مذہب کے دلائل کتنے ہیں؟ چار : قرآن پاک ، سنت، اجماع، قیاس شرعی۔ پہلا نمبر کس کا ہے؟ قرآن کا۔ عظمت کے اعتبار سے، دلیل کے اعتبار سے میرے جملے پر ذرا غور کیجیے گا۔ کہیں باہر جا کے مجھ پر فتوی نہ لگا دیجیے گا کہ اس نے بھی ایک نیا مذہب گھڑ لیا ہے۔ ترتیب کے اعتبار سے پہلا نمبر کس کا ہے؟ قرآن کا۔ ترتیب کے اعتبار سے دوسرا نمبر کس کا ہے؟ سنت کا۔ لیکن فہم کے اعتبار سے پہلا نمبر ہے اجتاع کا ۔ قرآن کی ہم وہ تعبیر مانیں گے جس پر امت کا اجماع ہے۔ سنت کی وہ تعبیر مانیں گے جس پر اُمت کا اجماع ہے۔ فہم کے اعتبار سے عمل کے اعتبار سے پہلا نمبر کس کا آگیا ؟ اجماع کا ۔ ہم تمام مسائل کو اجماع کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔

علمائے دیوبند کا امتیازی وصف:۔

اور ایک بات میں آپ کے علم میں اضافے کے لیے کہتا چلوں۔ ہم الحمد للہ ثم الحمد لله ! دیوبندی ہیں۔ اہل السنہ والجماعت دیوبندی۔ عام طور پر آپ اسٹیجوں سے علمائے دیوبند کے مختلف کارنامے سنتے ہیں۔ علمائے دیوبند کی سیاسی خدمات یہ ہیں، علمائے دیوبند کی تفسیری خدمات یہ ہیں، علمائے دیوبند کی حدیثی خدمات یہ ہیں، علمائے دیوبند کی فقہی خدمات یہ ہیں۔ (علماء دیوبند کی ہمہ جہت خدمات کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ علمائے دیوبند کو باقی طبقات سے الگ (ممتاز) کرنے والی چیز کیا ہے؟ سیاست میں تو اور لوگ بھی علمائے دیوبند کے ساتھ شریک تھے۔ تفسیر پڑھانے والے اور مکاتب فکر بھی تھے۔ حدیث پڑھانے والے اور مکاتب فکر بھی تھے۔ فقہ پڑھانے والے اور مکاتب فکر بھی تھے۔ علمائے دیوبند کو تمام مکاتب فکر سے الگ کرنے اور ممتاز کرنے والی ایک ہی چیز ہے کہ : علمائے دیوبند نے اپنے دور کی اُمت کو (اجماعی فکر سے جوڑے رکھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے اُمت کا جو اجماعی فکر آرہا تھا اُمت کو اُس سے ٹوٹنے نہیں دیا۔ اُمت کو اس اجماعی فکر سے متواتر فکر سے ٹوٹنے نہیں دیا۔ علمائے دیوبند کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے۔ سیاسی کارنامے بھی ہیں، تعلیمی کارنامے بھی ہیں، لیکن سب سے بڑا کارنامہ علمائے دیوبند کا یہ ہے کہ اُنھوں نے اُمت کو اُمت کے اجماعی اور متواتر فکر سے ٹوٹنے نہیں دیا۔

اب غامدی صاحب کہتے ہیں کہ: اُمت کا اجماع بھی غلط ہو سکتا ہے۔ اور ہمارے پاس اختیار ہے کہ ہم اُمت کے اجماع کو مسترد کر کے اپنی کوئی رائے قائم کر لیں۔ اور ( غامدی صاحب کے نزدیک) اس کی بنیاد کیا ہے؟ وہ ابتداء میں میں عرض کر چکا ہوں نظم کلام اور ادب جاہلی۔

(حالانکہ ) آج تک اُمت کے اندر فہم قرآن کے لیے نہ نظم قرآن کو اصول مانا گیا ہے، نہ ادبِ جاہلی کو اُصول مانا گیا ہے۔ کتنے اُصول مانے گئے ہیں؟ چار۔ا اہل السنۃ والجماعت کے ہاں چار ہی اُصول مانے گئے ہیں اور چار ہی اصول ہیں۔ غامدی صاحب نے جو ایک نیا اُصول دے دیا کہ نظمِ کلام کے حوالے سے اور ادب جاہلی کے حوالے سے ہم قرآن پاک کو سمجھ کر پوری کی پوری چودہ سو سالہ امت سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ اور اُنھوں نے یہ صرف کہا نہیں بلکہ کر کے دکھا بھی دیا ہے۔ ظاہر بات ہے چودہ سو سالہ اُمت غلبہ دین کے لیے ) جہاد پر متفق ہے یا نہیں ہے؟ بالکل ہے۔ لیکن اُنھوں (غامدی صاحب) نے (اس) جہاد کو حضور ﷺ کے دور تک محدود کر دیا۔ (اسی طرح) جزیہ: مجھے اس کی تعریف کی طرف جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ سارے علماء ہیں، عوام نہیں ہیں۔ وہ کافر جو اسلامی ریاست کے اندر، اسلامی مملکت کے اندر مملکت کے شہری ہو کر رہنا چاہیں اُن سے جزیہ لیا جاتا ہے۔ غامدی صاحب کا نظریہ یہ ہے کہ جزیہ بھی حضور ﷺ کے دور کے ساتھ خاص ہے۔ حضور نے کے بعد جزیے کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ اور کیوں گنجائش نہیں؟ یہ بھی ان کا ایک بڑا دلچسپ فتوی ہے۔

غامدی صاحب کے نزدیک کسی کو کافر نہیں کہہ سکتے، غیر مسلم کہہ سکتے ہیں:۔

اُن کا دعوی یہ ہے کہ کس کو کافر کہنا یہ شرعی مسئلہ نہیں ہے، قانونی مسئلہ ہے۔ حضورﷺ کے دور کے اندر چونکہ قانون کا نزول بند ہو چکا ہے، لہذا حضور ﷺ کے بعد قرآن، سنت، اجماع کی روشنی میں کسی کو کافر کہنے کا کسی شخص کے پاس کوئی حق نہیں ہے۔ وہ قادیانیوں کو بھی کافرنہیں کہتے۔ اور ایک بڑا عجیب سا فرق ڈال کر انھوں نے اُمت کو تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ کہتےہیں: ہم اُن کو غیر مسلم کہہ سکتے ہیں کا فرنہیں کہہ سکتے۔ اب آپ حضرات علماء ہیں، میں تو نا سمجھ آدمی ہوں ۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ غیرمسلم اور کافر میں فرق کیا ہوتا ہے؟ آپ حضرات شاید مجھے سمجھا سکیں کہ غیر مسلم اور کافر میں فرق کیا ہوتا ہے؟ اُن کا دعوی یہ ہے کہ ہم ہندوؤں کو کا فرنہیں کہہ سکتے غیر مسلم کہہ سکتے ہیں۔ ہم عیسائیوں کو غیر مسلم کہہ سکتے ہیں کا فرنہیں کہہ سکتے ۔ ہم یہودیوں کو غیر مسلم کہہ سکتے ہیں کا فر نہیں کہہ سکتے۔ اب آپ حضرات سوچیں گے کہ ان کے نزدیک پھر فرق کیا ہوا؟ انھوں نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ: یہودی اور عیسائی بھی جنتی ہیں۔ کیوں کہ جہنم کافروں کے لیے ہے اور یہودی اور عیسائی چوں کہ غیر مسلم ہیں، کافر نہیں ، لہذا یہودی اور عیسائی بھی جنتی ہیں۔

 

جاری

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…