حسان بن علی غامدی صاحب کے اسلاف میں ايک اور شخصیت، معروف بطور منکرِ حجيتِ حدیث، اسلم جيراجپوری صاحب، حقیقت حدیث بیان کرتے ہوئے اختتامیہ ان الفاظ میں کرتے ہیں "قرآن دین کی مستقل کتاب ہے اور اجتماعی اور انفرادی ہر لحاظ سے ہدایت کے لیے کافی ہے وہ انسانی عقل کے سامنے ہر...
غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 5
بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے
ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...
کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...
حدیث کی نئی تعیین
محمد دین جوہر میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ”قرآن مجید تاریخ ہے“۔ اب محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف تاریخ کی کتاب ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو محترم غامدی صاحب قرآن مجید کو بھی تاریخ (سرگزشت انذار) ہی...
ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار
محمد خزیمہ الظاہری پہلے بھی عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے باقاعدہ طور پر دو چہرے رکھے ہوئے ہیں. ایک انہیں دکھانے کے لئے جو آپ کو منکر حدیث کہتے ہیں اور یہ چہرہ دکھا کر انکار حدیث کے الزام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میزان میں بارہ سو روایتیں ہیں وغیرہ...
( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...
مولانا عبد الحق بشیر
پانچواں اختلاف کیا اجماع امت حجت نہیں؟
غامدی صاحب کے ساتھ ہمارا پانچواں اختلاف کیا ہے؟ غامدی صاحب کہتے ہیں: اجماع امت حجت نہیں ہے۔ آپ اکثر علماء ہیں ، حضور ﷺ کی حدیث آپ کے سامنے ہوگی: ان الله لا يجمع امتى على الضلالة. ترمذى۔ الله میری امت کو کسی گمراہی پر جمع نہیں کریگا۔ اب ایک طرف نبی کا فرمان ہے کہ: اللہ میری امت کو کسی گمراہی پر کسی غلطی پر جمع نہیں کریگا اور دوسری طرف غامدی صاحب کا نظریہ ہے کہ اجماع میں بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ اور ہمیں اجماع کی مخالفت کا اختیار حاصل ہے۔ جو علم ان (اجماع کرنے والوں) کے پاس تھا وہی ہمارے پاس ہے، جو عقل اُن کے پاس تھی وہی ہمارے پاس ہے، جو فہم اُن کے پاس تھا وہی ہمارے پاس ہے، ہم اُن کے احکامات کو بھی بدل سکتے ہیں، ہم اُن کے اُصولوں کو بھی بدل سکتے ہیں۔
دلائل میں فہم کے لحاظ سے پہلانمبر اجماع
یہاں میں ایک بات عرض کردوں ۔ ہمارے اہل السنت والجماعۃ کے مسلک اور مذہب کے دلائل کتنے ہیں؟ چار : قرآن پاک ، سنت، اجماع، قیاس شرعی۔ پہلا نمبر کس کا ہے؟ قرآن کا۔ عظمت کے اعتبار سے، دلیل کے اعتبار سے میرے جملے پر ذرا غور کیجیے گا۔ کہیں باہر جا کے مجھ پر فتوی نہ لگا دیجیے گا کہ اس نے بھی ایک نیا مذہب گھڑ لیا ہے۔ ترتیب کے اعتبار سے پہلا نمبر کس کا ہے؟ قرآن کا۔ ترتیب کے اعتبار سے دوسرا نمبر کس کا ہے؟ سنت کا۔ لیکن فہم کے اعتبار سے پہلا نمبر ہے اجتاع کا ۔ قرآن کی ہم وہ تعبیر مانیں گے جس پر امت کا اجماع ہے۔ سنت کی وہ تعبیر مانیں گے جس پر اُمت کا اجماع ہے۔ فہم کے اعتبار سے عمل کے اعتبار سے پہلا نمبر کس کا آگیا ؟ اجماع کا ۔ ہم تمام مسائل کو اجماع کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔
علمائے دیوبند کا امتیازی وصف:۔
اور ایک بات میں آپ کے علم میں اضافے کے لیے کہتا چلوں۔ ہم الحمد للہ ثم الحمد لله ! دیوبندی ہیں۔ اہل السنہ والجماعت دیوبندی۔ عام طور پر آپ اسٹیجوں سے علمائے دیوبند کے مختلف کارنامے سنتے ہیں۔ علمائے دیوبند کی سیاسی خدمات یہ ہیں، علمائے دیوبند کی تفسیری خدمات یہ ہیں، علمائے دیوبند کی حدیثی خدمات یہ ہیں، علمائے دیوبند کی فقہی خدمات یہ ہیں۔ (علماء دیوبند کی ہمہ جہت خدمات کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ علمائے دیوبند کو باقی طبقات سے الگ (ممتاز) کرنے والی چیز کیا ہے؟ سیاست میں تو اور لوگ بھی علمائے دیوبند کے ساتھ شریک تھے۔ تفسیر پڑھانے والے اور مکاتب فکر بھی تھے۔ حدیث پڑھانے والے اور مکاتب فکر بھی تھے۔ فقہ پڑھانے والے اور مکاتب فکر بھی تھے۔ علمائے دیوبند کو تمام مکاتب فکر سے الگ کرنے اور ممتاز کرنے والی ایک ہی چیز ہے کہ : علمائے دیوبند نے اپنے دور کی اُمت کو (اجماعی فکر سے جوڑے رکھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے اُمت کا جو اجماعی فکر آرہا تھا اُمت کو اُس سے ٹوٹنے نہیں دیا۔ اُمت کو اس اجماعی فکر سے متواتر فکر سے ٹوٹنے نہیں دیا۔ علمائے دیوبند کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے۔ سیاسی کارنامے بھی ہیں، تعلیمی کارنامے بھی ہیں، لیکن سب سے بڑا کارنامہ علمائے دیوبند کا یہ ہے کہ اُنھوں نے اُمت کو اُمت کے اجماعی اور متواتر فکر سے ٹوٹنے نہیں دیا۔
اب غامدی صاحب کہتے ہیں کہ: اُمت کا اجماع بھی غلط ہو سکتا ہے۔ اور ہمارے پاس اختیار ہے کہ ہم اُمت کے اجماع کو مسترد کر کے اپنی کوئی رائے قائم کر لیں۔ اور ( غامدی صاحب کے نزدیک) اس کی بنیاد کیا ہے؟ وہ ابتداء میں میں عرض کر چکا ہوں نظم کلام اور ادب جاہلی۔
(حالانکہ ) آج تک اُمت کے اندر فہم قرآن کے لیے نہ نظم قرآن کو اصول مانا گیا ہے، نہ ادبِ جاہلی کو اُصول مانا گیا ہے۔ کتنے اُصول مانے گئے ہیں؟ چار۔ا اہل السنۃ والجماعت کے ہاں چار ہی اُصول مانے گئے ہیں اور چار ہی اصول ہیں۔ غامدی صاحب نے جو ایک نیا اُصول دے دیا کہ نظمِ کلام کے حوالے سے اور ادب جاہلی کے حوالے سے ہم قرآن پاک کو سمجھ کر پوری کی پوری چودہ سو سالہ امت سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ اور اُنھوں نے یہ صرف کہا نہیں بلکہ کر کے دکھا بھی دیا ہے۔ ظاہر بات ہے چودہ سو سالہ اُمت غلبہ دین کے لیے ) جہاد پر متفق ہے یا نہیں ہے؟ بالکل ہے۔ لیکن اُنھوں (غامدی صاحب) نے (اس) جہاد کو حضور ﷺ کے دور تک محدود کر دیا۔ (اسی طرح) جزیہ: مجھے اس کی تعریف کی طرف جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ سارے علماء ہیں، عوام نہیں ہیں۔ وہ کافر جو اسلامی ریاست کے اندر، اسلامی مملکت کے اندر مملکت کے شہری ہو کر رہنا چاہیں اُن سے جزیہ لیا جاتا ہے۔ غامدی صاحب کا نظریہ یہ ہے کہ جزیہ بھی حضور ﷺ کے دور کے ساتھ خاص ہے۔ حضور نے کے بعد جزیے کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ اور کیوں گنجائش نہیں؟ یہ بھی ان کا ایک بڑا دلچسپ فتوی ہے۔
غامدی صاحب کے نزدیک کسی کو کافر نہیں کہہ سکتے، غیر مسلم کہہ سکتے ہیں:۔
اُن کا دعوی یہ ہے کہ کس کو کافر کہنا یہ شرعی مسئلہ نہیں ہے، قانونی مسئلہ ہے۔ حضورﷺ کے دور کے اندر چونکہ قانون کا نزول بند ہو چکا ہے، لہذا حضور ﷺ کے بعد قرآن، سنت، اجماع کی روشنی میں کسی کو کافر کہنے کا کسی شخص کے پاس کوئی حق نہیں ہے۔ وہ قادیانیوں کو بھی کافرنہیں کہتے۔ اور ایک بڑا عجیب سا فرق ڈال کر انھوں نے اُمت کو تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ کہتےہیں: ہم اُن کو غیر مسلم کہہ سکتے ہیں کا فرنہیں کہہ سکتے۔ اب آپ حضرات علماء ہیں، میں تو نا سمجھ آدمی ہوں ۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ غیرمسلم اور کافر میں فرق کیا ہوتا ہے؟ آپ حضرات شاید مجھے سمجھا سکیں کہ غیر مسلم اور کافر میں فرق کیا ہوتا ہے؟ اُن کا دعوی یہ ہے کہ ہم ہندوؤں کو کا فرنہیں کہہ سکتے غیر مسلم کہہ سکتے ہیں۔ ہم عیسائیوں کو غیر مسلم کہہ سکتے ہیں کا فرنہیں کہہ سکتے ۔ ہم یہودیوں کو غیر مسلم کہہ سکتے ہیں کا فر نہیں کہہ سکتے۔ اب آپ حضرات سوچیں گے کہ ان کے نزدیک پھر فرق کیا ہوا؟ انھوں نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ: یہودی اور عیسائی بھی جنتی ہیں۔ کیوں کہ جہنم کافروں کے لیے ہے اور یہودی اور عیسائی چوں کہ غیر مسلم ہیں، کافر نہیں ، لہذا یہودی اور عیسائی بھی جنتی ہیں۔
جاری
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)
حسان بن علی جیسا کہ عرض کیا کہ غامدی صاحب احکام میں حدیث کی استقلالی حجیت...
تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (2)
حسان بن علی اور یہ واضح رہے کہ انکارِ حجیتِ حدیث کے حوالے سے غلام احمد...
تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (1)
حسان بن علی غامدی صاحب کے اسلاف میں ماضی کی ایک اور شخصیت غلام قادیانی،...