غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 4

Published On August 24, 2025
تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل ایک ویڈیو میں محترم غامدی صاحب علم کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ایک حرف غلط قرار دے کر غیر مفید و لایعنی علم کہتے ہیں۔ اس کے لئے ان کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ فلسفے کی دنیا میں افکار کے تین ادوار گزرے ہیں:۔ - پہلا دور وہ تھا جب وجود کو بنیادی حیثیت دی گئی...

شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”

شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”

ڈاکٹر زاہد مغل ایک ویڈیو میں جناب غامدی صاحب حالیہ گفتگو میں زیر بحث موضوع پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دین یا شریعت خاموش ہونے سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ شریعت نے اس معاملے میں سرے سے کوئی حکم ہی نہیں دیا بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ شارع نے یہاں کوئی معین...

قرآن کا میزان و فرقان ہونا اور منشائے متکلم کا مبحث

قرآن کا میزان و فرقان ہونا اور منشائے متکلم کا مبحث

جہانگیر حنیف کلام کے درست فہم کا فارمولہ متکلم + کلام ہے۔ قاری محض کلام تک محدود رہے، یہ غلط ہے اور اس سے ہمیں اختلاف ہے۔ کلام کو خود مکتفی قرار دینے والے حضرات کلام کو کلام سے کلام میں سمجھنا چاہتے ہیں۔ جو اولا کسی بھی تاریخی اور مذہبی متن کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اور...

مولانا عبد الحق بشیر

چوتھا اختلاف کیا نبی کریم ﷺ کا اپنا کوئی عمل سنت نہیں؟

چوتھا اختلاف غامدی صاحب کے ساتھ ہمارا یہ ہے کہ ( وہ حضور ﷺ کے اپنے عمل کو سنت نہیں مانتے۔ ایک بات میں بڑی سخت کہنے لگا ہوں اور پوری ذمہ داری کے ساتھ کہنے لگا ہوں کہ غامدی صاحب کو حضور نبی کریم ﷺ کی ذات سے بھی دشمنی ہے اور حضور ﷺ کی تعلیم سے بھی دشمنی ہے۔ یہ بات میں کیوں کہہ رہا ہوں، اس لیے کہ: غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ جس سنت پر عمل ضروری ہے وہ سنت حضور ﷺ کی سنت نہیں بلکہ ابراہیم علیہ السلام کے دین کا وہ طریقہ جسے حضور ﷺ نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہو۔ گویا حضور ﷺ کی (اپنی) کسی سنت پر عمل ضروری نہیں۔ بلکہ وہ یہاں تک لکھتے ہیں کہ: قرآن میں جو آیا ہے: لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة. اس سے مراد حضور ﷺ کی سنت نہیں ہے۔ سنت اور چیز ہے اُسوہ حسنہ اور چیز ہے۔ وہ حضور ﷺ کی سنت کو حضور ﷺ کی سنت کی حیثیت سے قابل عمل نہیں سمجھتے۔

دوسرے نمبر پہ ان کا موقف یہ ہے کہ: سنت کا تعلق صرف اُن کاموں کے ساتھ ہے، اُن اُمور کے ساتھ جو اُمور دین کے ساتھ وابستہ ہیں، جن چیزوں کا تعلق دین کے ساتھ نہیں سنت کا بھی اُن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ کھانے پینے کا تعلق دین کے ساتھ نہیں لہذا اس میں بھی سنت کا کوئی عمل دخل نہیں ، لباس کا تعلق دین کے ساتھ نہیں لہذا سنت کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ گویا انھوں نے حضور ﷺ کی سنت کو سوسائٹی سے نکالنے کی پوری کوشش کی ہے کہ جن چیزوں کا تعلق سوسائٹی کے ساتھ ہے اُن کا تعلق سنت کے ساتھ نہیں۔

غامدی صاحب حضور ﷺکی ذات کے بھی دشمن ہیں، سنت کے بھی:۔

اسی لیے میں صاف لفظوں میں کہتا ہوں کہ غامدی صاحب نہ صرف حضور ﷺ کی ذات کے دشمن ہیں بلکہ غامدی صاحب حضور ﷺ کی سنت کے بھی دشمن ہیں۔ اور اس کی بنیاد اُنھوں نے کس پر رکھی ہے؟ اپنے استاد امین احسن اصلاحی کی تعلیم پر) اُن کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ”دعوت دین کے نام سے کتاب لکھی۔ اُن کا ایک جملہ دل پر پتھر رکھ کے سنے گا۔ اس کتاب میں وہ ایک جملہ لکھتے ہیں کہ: ”حضور ﷺ کو باقی انبیاء کرام پر فوقیت دینا، برتری دینا اندھی تقلید کا نتیجہ ہے۔“ حضور ﷺ کے بارے میں یہ نظریہ رکھنا کہ وہ باقی انبیاء سے افضل ہیں، یہ اندھی تقلید کا نتیجہ ہے۔ اب جب حضور ﷺ کو باقی انبیاء پر کوئی فوقیت ہی نہیں، کوئی برتری ہی نہیں، اور یہ نظریہ اندھی تقلید کا نتیجہ ہے تو پھر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ غامدی صاحب نے جو یہ لکھا ہے کہ حضور ﷺ کا کوئی عمل سوسائٹی کے لیے حجت نہیں ، سوسائٹی کے لیے دلیل نہیں تو یہ اُنھوں نے اس تعلیم کی بنیاد پر لکھا ہے جو تعلیم اُن کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے دی ہے۔

 

جاری

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…