مولانا عبد الحق بشیر
چوتھا اختلاف کیا نبی کریم ﷺ کا اپنا کوئی عمل سنت نہیں؟
چوتھا اختلاف غامدی صاحب کے ساتھ ہمارا یہ ہے کہ ( وہ حضور ﷺ کے اپنے عمل کو سنت نہیں مانتے۔ ایک بات میں بڑی سخت کہنے لگا ہوں اور پوری ذمہ داری کے ساتھ کہنے لگا ہوں کہ غامدی صاحب کو حضور نبی کریم ﷺ کی ذات سے بھی دشمنی ہے اور حضور ﷺ کی تعلیم سے بھی دشمنی ہے۔ یہ بات میں کیوں کہہ رہا ہوں، اس لیے کہ: غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ جس سنت پر عمل ضروری ہے وہ سنت حضور ﷺ کی سنت نہیں بلکہ ابراہیم علیہ السلام کے دین کا وہ طریقہ جسے حضور ﷺ نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہو۔ گویا حضور ﷺ کی (اپنی) کسی سنت پر عمل ضروری نہیں۔ بلکہ وہ یہاں تک لکھتے ہیں کہ: قرآن میں جو آیا ہے: لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة. اس سے مراد حضور ﷺ کی سنت نہیں ہے۔ سنت اور چیز ہے اُسوہ حسنہ اور چیز ہے۔ وہ حضور ﷺ کی سنت کو حضور ﷺ کی سنت کی حیثیت سے قابل عمل نہیں سمجھتے۔
دوسرے نمبر پہ ان کا موقف یہ ہے کہ: سنت کا تعلق صرف اُن کاموں کے ساتھ ہے، اُن اُمور کے ساتھ جو اُمور دین کے ساتھ وابستہ ہیں، جن چیزوں کا تعلق دین کے ساتھ نہیں سنت کا بھی اُن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ کھانے پینے کا تعلق دین کے ساتھ نہیں لہذا اس میں بھی سنت کا کوئی عمل دخل نہیں ، لباس کا تعلق دین کے ساتھ نہیں لہذا سنت کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ گویا انھوں نے حضور ﷺ کی سنت کو سوسائٹی سے نکالنے کی پوری کوشش کی ہے کہ جن چیزوں کا تعلق سوسائٹی کے ساتھ ہے اُن کا تعلق سنت کے ساتھ نہیں۔
غامدی صاحب حضور ﷺکی ذات کے بھی دشمن ہیں، سنت کے بھی:۔
اسی لیے میں صاف لفظوں میں کہتا ہوں کہ غامدی صاحب نہ صرف حضور ﷺ کی ذات کے دشمن ہیں بلکہ غامدی صاحب حضور ﷺ کی سنت کے بھی دشمن ہیں۔ اور اس کی بنیاد اُنھوں نے کس پر رکھی ہے؟ اپنے استاد امین احسن اصلاحی کی تعلیم پر) اُن کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ”دعوت دین کے نام سے کتاب لکھی۔ اُن کا ایک جملہ دل پر پتھر رکھ کے سنے گا۔ اس کتاب میں وہ ایک جملہ لکھتے ہیں کہ: ”حضور ﷺ کو باقی انبیاء کرام پر فوقیت دینا، برتری دینا اندھی تقلید کا نتیجہ ہے۔“ حضور ﷺ کے بارے میں یہ نظریہ رکھنا کہ وہ باقی انبیاء سے افضل ہیں، یہ اندھی تقلید کا نتیجہ ہے۔ اب جب حضور ﷺ کو باقی انبیاء پر کوئی فوقیت ہی نہیں، کوئی برتری ہی نہیں، اور یہ نظریہ اندھی تقلید کا نتیجہ ہے تو پھر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ غامدی صاحب نے جو یہ لکھا ہے کہ حضور ﷺ کا کوئی عمل سوسائٹی کے لیے حجت نہیں ، سوسائٹی کے لیے دلیل نہیں تو یہ اُنھوں نے اس تعلیم کی بنیاد پر لکھا ہے جو تعلیم اُن کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے دی ہے۔
جاری