غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 3

Published On August 24, 2025
مسئلہ رجم اور تکفیرِ کافر

مسئلہ رجم اور تکفیرِ کافر

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن اول - جاوید احمد غامدی نے رجم کا انکار کیا ہے ۔ رجم کا مطلب ہے کہ شادی شدہ افراد زنا کریں تو انہیں سنگسار کیا جائے گا ۔انکا استدلال یہ ہے کہ قرآن میں زنا کی سزا رجم نہیں ہے بلکہ کوڑے ہیں ۔ " الزانیۃ الزانی فالجلدوا کل...

واقعہ معراج اور غامدی صاحب

واقعہ معراج اور غامدی صاحب

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن جسمانی معراج کے انکار پر غامدی صاحب کا استدلال " وما جعلنا الرؤیا التی" کے لفظ رویا سے ہے ۔حالانکہ یہاں لفظ رویا میں خواب اور رویت بمعنی منظر دونوں کا احتمال ہے اور واقعے کے جسمانی یا روحانی ہونے پر قرآن کا بیان جہاں سے شروع...

تصوف کے ظروف پر چند غلط العام استدلال

تصوف کے ظروف پر چند غلط العام استدلال

 ڈاکٹر زاہد مغل - پہلا: جب ناقدین سے کہا جائے کہ "قرآن و سنت کو سمجھ کر احکامات اخذ (یعنی "خدا کی رضا" معلوم) کرنے کے لئے اگر یونانیوں کے وضع کردہ طرق استنباط سیکھنا سکھانا اور استعمال کرنا جائز ہے، جب کہ سنت نبوی میں انکی تعلیم کا کوئی بھی ذکر نہیں ملتا، تو صوفیاء...

کیا وحی کے ساتھ الہام، القا اور کشف بھی صرف نبی کے ساتھ مخصوص ہیں؟

کیا وحی کے ساتھ الہام، القا اور کشف بھی صرف نبی کے ساتھ مخصوص ہیں؟

 محمد فیصل شہزاد معترضین ایک حدیث مبارکہ سناتے ہیں، جس میں ارشاد نبوی ہے: مفہوم: "میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی سوائے مبشرات کے، آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھے یا نیک خواب۔‘‘...

جاوید احمد غامدی صاحب کا قادیانیت اور تصوف کے بارے میں کھلا تضاد

جاوید احمد غامدی صاحب کا قادیانیت اور تصوف کے بارے میں کھلا تضاد

 محمد فیصل شہزاد اگر بات یہیں تک محدود رہتی کہ آنجناب کہتے: "مرزا نے وہی بات کی جو شروع سے صوفیاء کہتے آ رہے تھے... بلکہ ان کے کلام میں تو خدائی کے دعوے تک ملتے ہیں... تو اگر مرزا کو مرتد اورمنکر ختم نبوت کہتے ہو تو... پھر صوفیاء کے کفر کو بھی تسلیم کرو ورنہ پھر...

کیا تصوف صرف ابن عربی رحمہ اللہ کے کلام اور وحدۃ الوجود پر قائم ہے؟

کیا تصوف صرف ابن عربی رحمہ اللہ کے کلام اور وحدۃ الوجود پر قائم ہے؟

 محمد فیصل شہزاد دو دن قبل محترم احمد بشیر طاہر صاحب نے غامدی صاحب کے 2014 کے دو بیانات اپ لوڈ کیے... غامدی صاحب نے ان دونوں کلپس میں صوفیاء کرام کی فاش غلطیوں کو واضح کرتے ہوئے مرزا قادیانی کے نبوت کے دعوے اور اس کی بنیادوں کو صوفیاء کے کلام سے اخذ کرنے کی بات کی ہے!...

مولانا عبد الحق بشیر

تیسرا اختلاف کیا حکم جہاد نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاص ہے؟

تیسرا اختلاف غامدی صاحب کے ساتھ ہمارا یہ ہے کہ: غامدی صاحب کا نظریہ، یہ ہے کہ قرآن پاک نے جس جہاد کا حکم دیا ہے (یعنی غلبہ دین کے لیے جہاد ) وہ جہاد حضور ﷺ کی وفات حسرت آیات کے ساتھ ختم ہو گیا ہے۔ حضور ﷺ کے بعد جہاد باقی نہیں ہے۔ حضور ﷺ اور ان کے ساتھیوں یعنی صحابہ کے بعد جو جہاد لڑا گیا وہ قرآنی اور اسلامی جہاد نہیں ہے، خواہ وہ تابعین نے کیا، خواہ وہ جہاد تبع تابعین نے کیا، خواہ وہ جہاد اس کے بعد اسلامی مجاہدین نے کیا، وہ قرآنی اور اسلامی جہاد نہیں ہے۔ کیوں؟ اس کی علت غامدی صاحب یہ بیان کرتے ہیں کہ: اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں حضور ﷺ کے ساتھ غلبہ دین کا وعدہ کیا۔ “هو الذي ارسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله (الصف:]

غلبہ دین صرف اللہ کا وعدہ ہے یا اُمت کی ذمہ داری بھی؟

آپ حضرات چونکہ علمائے کرام ہیں، اس لیے ایک بات میں سمجھانی چاہوں گا کہ غلبہ دین (صرف) اللہ کا وعدہ ہے یا غلبہ دین اُمت کی ذمہ داری بھی ہے؟ بنیادی اختلاف ہمارا یہ ہے کہ غامدی صاحب نے اس کو وعدے تک محدود کر دیا کہ یہ ایک وعدہ تھا جو حضور ﷺ کے دور میں پورا ہو گیا۔ چوں کہ غلبہ دین کی اب ضرورت نہیں لہذا ( غلبہ دین کے لیے) جہاد بھی باقی نہیں۔ اُن کا دعوی یہ ہے کہ: جہاد حضور ﷺ کے دور کے ساتھ خاص تھا۔ جہاد کا حضور ﷺ کے بعد اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ وہ ایک جملہ لکھتے ہیں کہ: اقامت دین، دین کو دنیا پر قائم کرنا یہ اُمت کی ذمہ داری نہیں۔ جہاد کس مقصد کے لیے ہے؟ اقامت دین کے لیے۔ اور جب اقامت دین کی ذمہ داری سے ہی اُمت کو چھٹکارا مل گیا تو جہاد تو خود بخود ختم ہو گیا۔ جہاد کی ضرورت ختم ہو گئی۔

کیا جہاد کے لیے ہجرت شرط ہے؟

اور پھر ایک چیز اور غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ جہاد کے لیے ہجرت شرط ہے اور ہجرت کا حکم اللہ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ لہذا جہاد کی ضرورت ختم ہو گئی ، جہاد کی حیثیت ختم ہو گئی۔

ایک غامدی دھو کہ:۔

یہاں وہ ایک دھوکا دیتے ہیں اور بہت بڑا دھوکا دیتے ہیں۔ جب اُن سے سوال کیا جاتا ہے کہ: آپ جہاد کے منکر ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں نہیں ! لا حول ولا قوة الا باللہ، میں جہاد کا منکر نہیں ہوں۔ جہاد دو قسم کا ہے: ایک ہے جہادا قامت دین کا اور ایک ہے جہاد ظلم کے خاتمے کا۔ اقامت دین کا جہاد ختم ہے ظلم کے خلاف جہاد باقی ہے۔

مرزاغلام احمد قادیانی کا دعوی بھی یہی ہے:۔

اور آپ میں سے پڑھے لکھے حضرات جنہوں نے قادیانیت کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جہاد کے بارے میں ) مرزا قادیانی کا دعوی کیا ہے ؟ ( مرزا کہتا ہے:)

چھوڑ دو اے دوستو! جہاد کا خیال

دین کے لیے حرام ہے یہ جنگ اور قتال

مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوی بھی یہی تھا کہ اقامت دین کے لیے جہاد منسوخ ہو چکا ہے۔ مرزا قادیانی اور غامدی صاحب میں فرق صرف اتنا ہے کہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ: یہ حضور ﷺ کی وفات حسرت آیات کے ساتھ ہی ختم ہو گیا تھا اور مرزا قادیانی کہتا ہے کہ یہ میری آمد کے ساتھ ختم ہوا ہے، میری نبوت کے ساتھ ختم ہوا ہے۔ موقف دونوں کا یہی ہے کہ دین کے لیے جہاد کرنا اب جائز نہیں ہے اور دین کے لیے جہاد کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔

جاری

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…