مولانا واصل واسطی جناب غامدی صاحب کی ایک مختصر عبارت دیکھ لیں۔ ،، نماز ، روزہ ، حج ، زکوة ، اورقربانی کاحکم بھی اگرچہ جگہ جگہ قران میں آیا ہے ، اور اس نے ان میں بعض اصلاحات بھی کی ہیں لیکن یہ بات خود قران ہی سے واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی ابتدا پیغمبر کی طرف سے دینِ...
غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 3
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 67)
مولانا واصل واسطی اوپر جناب غامدی کی جو عبارت نقل ہوئی ہے اس میں دوسری بات ،، اعتکاف اور ختنہ ،، کی انہوں نے کی ہے ۔ہم اس مبحث میں ،، اعتکاف ،، پر کچھ کہنا چاہیں گے ۔اگے پھر دیگر عنوانات ہوں گے۔ جناب غامدی نے ،، سنتِ ابراہیمی ،، کے حوالے سے دو باتیں لکھی ہیں ۔ ایک...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 66)
مولانا واصل واسطی اب ہم جناب غامدی کی عبارت نقل کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں ،، یہی معاملہ قربانی ، اعتکاف ، ختنہ ، اوربعض دوسرے رسوم وآداب کاہے ۔یہ سب چیزیں پہلے سے رائج ، معلوم ومتعین اورنسلا بعد نسلِ جاری ایک روایت کی حیثیت سے پوری طرح متعارف تھیں۔ چنانچہ اس بات کی کوئی...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 65)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے اوپر جوبات لکھی ہے اس کے لیے بخاری اورمسلم کے دوآحادیث کا حوالہ دیا ہے ۔ ہم پہلے ان آحادیث کو پڑھتے ہیں پھر اپنی باتیں اس کے متعلق احباب کی خدمت میں پیش کریں گے ۔ جبیر ابن مطعم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ،، کنت اطلب بعیرا لی فذھبت...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 64)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی کے ،، استادامام ،، مولانا اصلاحی انہی آیاتِ سورہِ انعام کے متعلق رقم طراز ہیں کہ ،، اوپر کی آیات میں حضرت ابراہیم کی دعوت کے ساتھ ان کے روحانی وایمانی مدارج کابیان ہوا ۔اب یہ بتایا جارہا ہے کہ اس دنیامیں بھی اللہ نے ان کو اوران کی دعوت کو...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 63)
مولانا واصل واسطی اب چند اور عبارتیں بھی سورتِ نحل ( 123) کے متعلق دیکھتے ہیں ۔ محمدعلی لاہوری لکھتے ہیں ،، ملتِ ابراہیمی پر چلنے کا ارشاد یعنی وہی کام کرو جو ابراہیم نے کیا۔ مطلب یہ ہے کہ تم بھی شرک کی بیخ کنی کرو جس طرح حضرت ابراہیم نے کی ۔ کیوں کہ ملتِ ابراہیمی...
مولانا عبد الحق بشیر
تیسرا اختلاف کیا حکم جہاد نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاص ہے؟
تیسرا اختلاف غامدی صاحب کے ساتھ ہمارا یہ ہے کہ: غامدی صاحب کا نظریہ، یہ ہے کہ قرآن پاک نے جس جہاد کا حکم دیا ہے (یعنی غلبہ دین کے لیے جہاد ) وہ جہاد حضور ﷺ کی وفات حسرت آیات کے ساتھ ختم ہو گیا ہے۔ حضور ﷺ کے بعد جہاد باقی نہیں ہے۔ حضور ﷺ اور ان کے ساتھیوں یعنی صحابہ کے بعد جو جہاد لڑا گیا وہ قرآنی اور اسلامی جہاد نہیں ہے، خواہ وہ تابعین نے کیا، خواہ وہ جہاد تبع تابعین نے کیا، خواہ وہ جہاد اس کے بعد اسلامی مجاہدین نے کیا، وہ قرآنی اور اسلامی جہاد نہیں ہے۔ کیوں؟ اس کی علت غامدی صاحب یہ بیان کرتے ہیں کہ: اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں حضور ﷺ کے ساتھ غلبہ دین کا وعدہ کیا۔ “هو الذي ارسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله (الصف:]
غلبہ دین صرف اللہ کا وعدہ ہے یا اُمت کی ذمہ داری بھی؟
آپ حضرات چونکہ علمائے کرام ہیں، اس لیے ایک بات میں سمجھانی چاہوں گا کہ غلبہ دین (صرف) اللہ کا وعدہ ہے یا غلبہ دین اُمت کی ذمہ داری بھی ہے؟ بنیادی اختلاف ہمارا یہ ہے کہ غامدی صاحب نے اس کو وعدے تک محدود کر دیا کہ یہ ایک وعدہ تھا جو حضور ﷺ کے دور میں پورا ہو گیا۔ چوں کہ غلبہ دین کی اب ضرورت نہیں لہذا ( غلبہ دین کے لیے) جہاد بھی باقی نہیں۔ اُن کا دعوی یہ ہے کہ: جہاد حضور ﷺ کے دور کے ساتھ خاص تھا۔ جہاد کا حضور ﷺ کے بعد اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ وہ ایک جملہ لکھتے ہیں کہ: اقامت دین، دین کو دنیا پر قائم کرنا یہ اُمت کی ذمہ داری نہیں۔ جہاد کس مقصد کے لیے ہے؟ اقامت دین کے لیے۔ اور جب اقامت دین کی ذمہ داری سے ہی اُمت کو چھٹکارا مل گیا تو جہاد تو خود بخود ختم ہو گیا۔ جہاد کی ضرورت ختم ہو گئی۔
کیا جہاد کے لیے ہجرت شرط ہے؟
اور پھر ایک چیز اور غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ جہاد کے لیے ہجرت شرط ہے اور ہجرت کا حکم اللہ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ لہذا جہاد کی ضرورت ختم ہو گئی ، جہاد کی حیثیت ختم ہو گئی۔
ایک غامدی دھو کہ:۔
یہاں وہ ایک دھوکا دیتے ہیں اور بہت بڑا دھوکا دیتے ہیں۔ جب اُن سے سوال کیا جاتا ہے کہ: آپ جہاد کے منکر ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں نہیں ! لا حول ولا قوة الا باللہ، میں جہاد کا منکر نہیں ہوں۔ جہاد دو قسم کا ہے: ایک ہے جہادا قامت دین کا اور ایک ہے جہاد ظلم کے خاتمے کا۔ اقامت دین کا جہاد ختم ہے ظلم کے خلاف جہاد باقی ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی کا دعوی بھی یہی ہے:۔
اور آپ میں سے پڑھے لکھے حضرات جنہوں نے قادیانیت کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جہاد کے بارے میں ) مرزا قادیانی کا دعوی کیا ہے ؟ ( مرزا کہتا ہے:)
چھوڑ دو اے دوستو! جہاد کا خیال
دین کے لیے حرام ہے یہ جنگ اور قتال
مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوی بھی یہی تھا کہ اقامت دین کے لیے جہاد منسوخ ہو چکا ہے۔ مرزا قادیانی اور غامدی صاحب میں فرق صرف اتنا ہے کہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ: یہ حضور ﷺ کی وفات حسرت آیات کے ساتھ ہی ختم ہو گیا تھا اور مرزا قادیانی کہتا ہے کہ یہ میری آمد کے ساتھ ختم ہوا ہے، میری نبوت کے ساتھ ختم ہوا ہے۔ موقف دونوں کا یہی ہے کہ دین کے لیے جہاد کرنا اب جائز نہیں ہے اور دین کے لیے جہاد کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔
جاری
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق کے جواب میں
ابو عمار زاہد الراشدی محترم جاوید احمد غامدی کے بعض ارشادات کے حوالے سے...
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط چہارم
(ڈاکٹر حافظ محمد زبیر) امام ابن قیمؒ کا موقف امام صاحب سنت کے ذریعے قرآن...
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط سوم
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر امام شاطبیؒ کا موقف امام شاطبیؒ کا موقف بھی وہی ہے...