غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 2

Published On August 24, 2025
تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف

حسان بن علی غامدی صاحب کے اسلاف میں ايک اور شخصیت، معروف بطور منکرِ حجيتِ حدیث، اسلم جيراجپوری صاحب، حقیقت حدیث بیان کرتے ہوئے اختتامیہ ان الفاظ میں کرتے ہیں "قرآن دین کی مستقل کتاب ہے اور اجتماعی اور انفرادی ہر لحاظ سے ہدایت کے لیے کافی ہے وہ انسانی عقل کے سامنے ہر...

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...

حدیث کی نئی تعیین

حدیث کی نئی تعیین

محمد دین جوہر   میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ”قرآن مجید تاریخ ہے“۔ اب محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف تاریخ کی کتاب ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو محترم غامدی صاحب قرآن مجید کو بھی تاریخ (سرگزشت انذار) ہی...

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

محمد خزیمہ الظاہری پہلے بھی عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے باقاعدہ طور پر دو چہرے رکھے ہوئے ہیں. ایک انہیں دکھانے کے لئے جو آپ کو منکر حدیث کہتے ہیں اور یہ چہرہ دکھا کر انکار حدیث کے الزام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میزان میں بارہ سو روایتیں ہیں وغیرہ...

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

جاوید احمد غامدی سے اختلاف کیا ہے؟

ہمارا جاوید احمد غامدی صاحب سے اختلاف کیا ہے؟ غامدی صاحب کے بقول وہ مولانا امین احسن اصلاحی کے شاگرد ہیں۔ اور مولانا امین احسن اصلاحی مولانا حمید الدین فراہی کے شاگرد ہیں۔ اب واقعی وہ شاگرد ہیں یا نہیں ہیں ! اس وقت یہ بحث میرے موضوع سے تعلق نہیں رکھتی۔

غامدی سے پہلا اختلاف کیا قرآن پاک دائمی نہیں ہے؟

ہمارا ان سے پہلا اختلاف یہ ہے۔ اُن کا دعوی یہ ہے کہ: یہ قرآن پاک (مکمل طور پر ) دائمی کتاب نہیں۔ ہم قرآن پاک کو پڑھیں گے، دیکھیں گے، جائزہ لیں گے، ماحول دیکھیں گے، حالات دیکھیں گے، پھر فیصلہ کریں گے کہ قرآن کا کون سا حکم ہے جو اب تک باقی ہے اور کون سا حکم ہے جو صرف حضور ﷺ کے زمانے تک تھا۔ اس کی وضاحت میں آگے چل کر کروں گا۔ اُنھوں نے وضاحت بھی کی ہے کہ کون کون سے احکامات ہیں جو حضور ﷺ کے زمانے تک تھے۔ اُنھوں نے قرآن کو محدود کر دیا ہے کہ قرآن کے کچھ احکامات وہ ہیں جو دائمی ہیں اور کچھ احکامات وہ ہیں جو حضور ﷺ کے زمانے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ حضور ﷺ کی حیات مبارکہ کے بعد ان احکامات کی ضرورت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔

دوسرا اختلاف کیا اسلاف امت قرآن کے فہم و شعور سے محروم تھے؟

دوسرا اختلاف اُن کے ساتھ ہمارا یہ ہے کہ: صحابہ کرام سے لے کر آج چودہ سو سال تک جن حضرات نے بھی، جن اکابر نے، جن اسلاف نے قرآن پاک کی تفسیر لکھی ہے، غامدی صاحب کے نزدیک وہ سارے کے سارے قرآن کے شعور اور فہم سے محروم تھے۔ خواہ وہ عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما ہوں، عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہوں، امام غزالی ہوں، امام رازی ہوں۔ جتنے بھی ائمہ مفسرین گزرے ہیں، (غامدی صاحب کے خیال میں ) اُن میں سے کسی کے پاس قرآن کا شعور نہیں تھا، اُن میں سے کسی کے پاس قرآن کا فہم نہیں تھا۔ یہ سب فہمِ قرآن سے محروم تھے۔ غامدی صاحب نے البیان” کے نام سے قرآن کا جو ترجمہ لکھا ہے، اس کے مقدمے کے اندر انھوں نے یہ لکھا ہے کہ (” تراجم کی تاریخ میں یہ اس لحاظ سے پہلا ترجمہ ہے کہ اس میں قرآن کا نظم اُس کے ترجمے ہی سے واضح ہو جاتا ہے۔ البیان1/7۔ اور غامدی صاحب کے نزدیک چونکہ فہم قرآن کا معیار یہی ہے۔ اس لیے اُن کے نزدیک ) اسلام کی تاریخ کے اندر یہ پہلا ترجمہ ہے جو معیاری ہے اور جو فہم قرآن اور شعور قرآن کے عین مطابق ہے۔ اس سے پہلے کوئی ترجمہ ایسا نہیں کہ جس کو شعور قرآن اور فہم قرآن کے مطابق قرار دیا جا سکے۔

جاری

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…