غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟

Published On August 24, 2025
قرآن کی من مانی تفسیر

قرآن کی من مانی تفسیر

عبد اللہ معتصم اپنے پیش رو مرزا قادیانی کی طرح غامدی صاحب بھی قرآن کی من مانی تفسیر، الفاظ کو کھینچ تان کر اپنے مطلب کی بات نکالنے میں طاق ہیں۔ قرآن کی معنوی تحریف اور جمہور امت سے ایک الگ اعتزال کی راہ اپنانا اور ایک امتیازی رائے رکھنا ان کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔...

حجیتِ حدیث : قادیانیت و غامدیت

حجیتِ حدیث : قادیانیت و غامدیت

عبد اللہ معتصم احادیث مبارکہ محدثین کی اصطلاح میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کو کہتے ہیں۔ احادیث مبارکہ کی گراں قدر امانت حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ، صحابہ کرام سے تابعین، تبع تابعین اور پھر ہر دور میں ایک جماعت سے سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچی ہے۔...

تصوف کے حوالے سے چند فکری مغالطے

تصوف کے حوالے سے چند فکری مغالطے

احمد بن الیاس گزشتہ کافی عرصے سے ایک بات مسلسل مشاہدے میں آرہی ہے۔ دو بظاہر متضاد طبقات یہ تاثر دیتے نظر آتے ہیں کہ تصوف مرکزی دھارے کے اسلام سے علیحدہ مسلم مذہبی روایت ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ان دونوں طبقات کے محرکات الگ ہیں۔ ایک طبقہ ایسا تاثر دے کر تصوف کی نفی و مذمت...

غامدی صاحب اور خانقاہ

غامدی صاحب اور خانقاہ

ڈاکٹر زاہد  مغل غامدی صاحب کے ادارے "المورد" کے تحت "خانقاہ" قائم ہوئی ہے جسے لے کر ان پر نقد ہورہا ہے کہ ساری عمر جس تصوف پر نقد کرتے رہے آخر میں اسی کے ادارے کو لے لیا۔ اس بابت پہلے بھی عرض کیا تھا کہ یہ ان کا تصاد نہیں ہے، اپنے تئیں وہ ہمارے اھل حدیث حضرات، مولانا...

تراث ، وراثت اور غامدی صاحب

تراث ، وراثت اور غامدی صاحب

حسن بن علی تقسیم میراث كى بعض صورتوں میں بالاتفاق یہ صورتحال پیش آتی ہے کہ جب ورثاء کے حصے  ان کے مجموعى مفروض نصیب سے بڑھ جاتے ہیں تو ایسی صورتحال تزاحم کی صورتحال ہے يعنى ایسے میں تمام ورثاء کو اپنے مقررہ حصے دینا ممکن نہیں رہتا. جیسے ایک عورت نے اپنے پیچھے شوہر ماں...

تقابل علوم و عقائد: غامدی صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ

تقابل علوم و عقائد: غامدی صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ

عمران شاہد بھنڈر بظاہر تو یہ بات بہت عجیب سی لگتی ہے کہ علوم و عقائد کے درمیان کوئی تقابل کیا جائے، اور پھر اس تقابل کے دوران چند غلط نتائج نکال کر اپنے عقائد کو فاتح قرار دے دیا جائے۔ مستزاد یہ کہ اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ مذہب کا اصل موضوع ’موت‘ اور موت کے بعد...

مولانا عبد الحق خان بشیر

بسم الله الرحمن الرحیم

دورہ تفسیر کے کے لیے تشریف لانے والے میرے قابل احترام دوستو!۔

چند سال سے ، عصر حاضر کے بڑے اہم موضوع: جاوید احمد غامدی اور اس کے عقائد و نظریات کے سبق کے لیے (دورہ تفسیر کی) اس کلاس میں حاضر ہوتا ہوں۔ اس سال صحت اجازت نہیں دے رہی تھی۔ پیشاب کی بندش اور کینسر کی تکلیف کی وجہ سے۔ ہفتے کے دن میرا آپریشن ہے۔ لیکن دو وجہ سے حاضر ہو گیا ہوں۔ ایک تو بلوچ پٹھان سے بھی زیادہ ضدی ہوتے ہیں۔ اس لیے اُن کے حکم کی تحصیل پٹھان پر بھی واجب ہوتی ہے۔ (مولانا نواز صاحب “بلوچ” ہیں۔ اور میں پٹھان ہوں۔ لیکن (میں) نسوار اور پشتو کے بغیر (پٹھان ہوں)۔

اور دوسرا اس لیے حاضر ہو گیا ہوں کہ آپ اللہ کے مہمان ہیں، آپ حضرات میرے لیے دعا کریں گے تو اللہ رب العزت میری مشکلیں آسان فرمائیں گے۔

آج کھل کر بات ہوگی:۔

جو موضوع مجھے دیا گیا ہے، اُس کی تمہید بہت طویل ہے۔ لیکن آج صحت کی خرابی یا وقت کی قلت کی وجہ سے میں تمہید کی طرف نہیں جاؤں گا۔ چند اشارات کروں گا۔ اور اس کے بعد اپنے اصل موضوع کی طرف آؤں گا۔ چوں کہ میری طبیعت کا معاملہ بڑا حساس ہے۔ آج تک میں جو درس دیتا رہا ہوں یا سبق پڑھاتا رہا ہوں، اس میں اشارات اور کنایات سے بھی کام لیتا رہا ہوں۔ لیکن آج میں کسی بھی رعایت کے بغیر بہت کھل کے بات کروں گا۔ یہ سوچ کر کہ شاید یہ میری زندگی کا آخری سبق ہو۔

کیا قرآن سمجھنےکے لیے صرف نظم کلام و ادب جاہلی کافی ہے؟

ایک چیز جو آپ حضرات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کا یہ سب سے بڑا المیہ رہا ہے کہ قرآن کو اپنا من پسند مفہوم دینے کے لیے مختلف طریقے اپنائے گئے ہیں۔ کسی نے حدیث کا انکار کر دیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ ” امت کے اندر سب سے بڑا فتنہ حدیثِ رسول کا ہے (معاذ اللہ) کسی نے سنت کا انکار کر دیا ، کسی نے سنت کا دائرہ سکیڑ دیا، کسی نے اجماع کا انکار کر دیا، کسی نے صحابہ کا انکار کر دیا، کسی نے عقل کا سہارا لیا کسی نے نیچر کا سہارا لیا کسی نے لغت کا سہارا لیا، کسی نے تہذیب و ماحول کا سہارا لیا کہ: ” قرآن کی وہ تعبیر معتبر ہے جو   ماحول اور حالات کے مطابق ہو۔ گویا ماحول قرآن کے تابع نہیں بلکہ قرآن ماحول کے تابع ہے۔ کسی نے جھوٹی وحی کا سہارا لیا مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح۔

لیکن گزشتہ صدی کے اندر ایک نیا تصور ابھرا ہے، فہم قرآن کے نام سے کہ: قرآن سمجھنے کے لیے نہ حدیث کی ضرورت ہے، نہ سنت کی ضرورت ہے، نہ اجماع کی ضرورت ہے، نہ عقل کی ضرورت ہے، نہ نیچر کی ضرورت ہے۔ قرآن سمجھنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے: ایک نظم کلام اور ایک ادب جاہلی۔ زمانہ جاہلیت کے ادبیوں کا جو کلام، جو ادب، جو شاعری ہے اُس کو سامنے رکھ کر ہم قرآن کو سمجھیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ اپنی سوچ کے مطابق ہم قرآن کا جائزہ لیں گے کہ قرآن کی یہ آیت کس ماحول میں اتری تھی، کن حالات میں اتری تھی، اس کا شان نزول کیا ہے؟ اگر وہ ماحول ہمارے ہاں پایا جاتا ہے تو قرآن کے اس حکم پر عمل ہوگا، اگر وہ ماحول نہیں پایا جاتا تو قرآن کے حکم پر عمل نہیں ہو گا۔ یہ طرز فکر سب سے پہلے مولانا حمید الدین فراہی نے دیا تھا جو شبلی نعمانی مرحوم کے شاگرد اور سید سلیمان ندوی کے ساتھی تھے۔

جس کے فکر کو ماننے والا صرف ایک شخص ہے، وہ امام العصر !!؟

آج کچھ لوگ انھیں (حمید الدین فراہی کو ”امام العصر“ کا خطاب دیتے ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ شاید ان لوگوں میں تعصب ہے یا وہ “امام” کا معنی نہیں جانتے۔ ایک آدمی جس کے فکر کو ماننے والا اُس کے شاگردوں میں سے صرف ایک ہے۔ اُس کے اساتذہ نے اس کے فکر کو مسترد کر دیا، اس کے ساتھیوں نے اس کے فکر کو مسترد کر دیا، اُس کے شاگردوں نے اس کے فکر کو مسترد کر دیا اور وہ امام العصر ہے۔  سبحان الہ

میں دو لفظوں میں ایک چیز سمجھانا چاہتا ہوں: نبوت اور امامت میں فرق یہی ہے۔ نبی کے لیے کسی ماننے والے کی حاجت نہیں ہوتی ، اُسے کوئی ماننے والا ہو تو بھی نبی ہے، ماننے والا نہ ہو تو بھی نبی ہے۔ لیکن امام کے لیے مقتدی اور مقلد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مقلد اور مقتدی کے بغیر وہ امام نہیں۔ اب ایک آدمی (حمید الدین فراہی) کی اقتداء اور تقلید کرنے والا صرف ایک شخص امین احسن اصلاحی ہے۔ اور وہ (فراہی) امام العصر” ہے !! اور اس کے بارے میں تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ حمید الدین فراہی کے فکر کو جو نہیں مانتا وہ عقل کا اندھا ہے، بہروپیا ہے، وہ خسارے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا معنی یہ ہے کہ اکابرین علمائے دیوبند میں سے اُس دور کے، حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ سے لے کر شیخ التفسیر امام احمد علی لاہوری رحمہ اللہ تک بلکہ اس کے بعد بھی کسی نے بھی اُس کے فکر کو نہیں مانا تو ان کے نزدیک العیاذ باللہ وہ سارے عقل کے اندھے ہیں۔ وہ سارے بہر وپیے ہیں، وہ سب خسارے میں ہیں۔ 

جاری

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…