غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟

Published On August 24, 2025
غامدی صاحب کے اصولوں کا ایک تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے اصولوں کا ایک تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر الشریعہ کے جنوری ۲۰۰۶ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے مضمون کے جواب میں غامدی صاحب کی تائید میں لکھی جانے والی دو تحریریں نظر سے گزریں ، جن کے حوالے سے کچھ گزارشات اہل علم کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ جناب طالب محسن صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی اگے سنت کے متعلق رقم طراز ہے کہ " دوم یہ کہ سنت قران کے بعد نہیں   بلکہ قران سے مقدم ہے ۔ اس لیے وہ لازما اس کے حاملین کے اجماع وتواتر ہی سے اخذ کی جائے گی ۔ قران میں اس کے جن احکام کا ذکر ہوا ہے   ان کی تفصیلات بھی اسی اجماع وتواتر پر...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 84)

مولانا واصل واسطی تیسری وجہ اس بنیاد کے غلط ہونے کی یہ ہے   کہ جناب غامدی نے قران مجید کی جن آیات کو اس کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیاہے اس کو تسلیم کرنے کے بعد بھی انسان یہ سمجھتاہے   کہ اس کو جو  ہدایت   دی گئی ہے اور جو " شعور " عطا کیاگیا ہے وہ محض اجمالی " معرفت...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 83)

مولانا واصل واسطی دوسری بات اس خلل کے متعلق یہ ہے کہ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ " شعورِخوب وناخوب کو اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں ودیعت کیا ہے اور اسے ان کی فطرت میں رکھا ہے " اس بات تک وہ انسانی فطرت کے براہِ راست مطالعے کے نتیجے میں نہیں پہنچے ۔ نہ ان لوگوں نے براہِ...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 82)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی اگے لکھتے ہیں " قران کا یہی پس منظر ہے جس کی رعایت سے یہ چندباتیں اس کی شرح و تفصیل میں بطورِاصول ماننی چاہیئں (1) اول یہ کہ پورا دین خوب وناخوب کے شعور پر مبنی ان حقائق سے مل کر مکمل ہوتاہے جوانسانی فطرت میں روزِاول سے ودیعت ہیں ۔اور...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 81)

مولانا واصل واسطی رسولوں کے اتمامِ حجت کے خود ساختہ قاعدے کے متعلق ہم نے ان حضرات کے چاراصولوں کا تجزیہ گذشتہ مباحث میں کرکے دکھایا ہے کہ ان چار باتوں سے اس مدعا کا اثبات قطعا نہیں ہوتا ۔ آج اس سلسلے کی آخری اصول کے بابت ہم بات کرنا چاہتے ہیں ۔ اس بات کو ہم تین شقوں...

مولانا عبد الحق خان بشیر

بسم الله الرحمن الرحیم

دورہ تفسیر کے کے لیے تشریف لانے والے میرے قابل احترام دوستو!۔

چند سال سے ، عصر حاضر کے بڑے اہم موضوع: جاوید احمد غامدی اور اس کے عقائد و نظریات کے سبق کے لیے (دورہ تفسیر کی) اس کلاس میں حاضر ہوتا ہوں۔ اس سال صحت اجازت نہیں دے رہی تھی۔ پیشاب کی بندش اور کینسر کی تکلیف کی وجہ سے۔ ہفتے کے دن میرا آپریشن ہے۔ لیکن دو وجہ سے حاضر ہو گیا ہوں۔ ایک تو بلوچ پٹھان سے بھی زیادہ ضدی ہوتے ہیں۔ اس لیے اُن کے حکم کی تحصیل پٹھان پر بھی واجب ہوتی ہے۔ (مولانا نواز صاحب “بلوچ” ہیں۔ اور میں پٹھان ہوں۔ لیکن (میں) نسوار اور پشتو کے بغیر (پٹھان ہوں)۔

اور دوسرا اس لیے حاضر ہو گیا ہوں کہ آپ اللہ کے مہمان ہیں، آپ حضرات میرے لیے دعا کریں گے تو اللہ رب العزت میری مشکلیں آسان فرمائیں گے۔

آج کھل کر بات ہوگی:۔

جو موضوع مجھے دیا گیا ہے، اُس کی تمہید بہت طویل ہے۔ لیکن آج صحت کی خرابی یا وقت کی قلت کی وجہ سے میں تمہید کی طرف نہیں جاؤں گا۔ چند اشارات کروں گا۔ اور اس کے بعد اپنے اصل موضوع کی طرف آؤں گا۔ چوں کہ میری طبیعت کا معاملہ بڑا حساس ہے۔ آج تک میں جو درس دیتا رہا ہوں یا سبق پڑھاتا رہا ہوں، اس میں اشارات اور کنایات سے بھی کام لیتا رہا ہوں۔ لیکن آج میں کسی بھی رعایت کے بغیر بہت کھل کے بات کروں گا۔ یہ سوچ کر کہ شاید یہ میری زندگی کا آخری سبق ہو۔

کیا قرآن سمجھنےکے لیے صرف نظم کلام و ادب جاہلی کافی ہے؟

ایک چیز جو آپ حضرات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کا یہ سب سے بڑا المیہ رہا ہے کہ قرآن کو اپنا من پسند مفہوم دینے کے لیے مختلف طریقے اپنائے گئے ہیں۔ کسی نے حدیث کا انکار کر دیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ ” امت کے اندر سب سے بڑا فتنہ حدیثِ رسول کا ہے (معاذ اللہ) کسی نے سنت کا انکار کر دیا ، کسی نے سنت کا دائرہ سکیڑ دیا، کسی نے اجماع کا انکار کر دیا، کسی نے صحابہ کا انکار کر دیا، کسی نے عقل کا سہارا لیا کسی نے نیچر کا سہارا لیا کسی نے لغت کا سہارا لیا، کسی نے تہذیب و ماحول کا سہارا لیا کہ: ” قرآن کی وہ تعبیر معتبر ہے جو   ماحول اور حالات کے مطابق ہو۔ گویا ماحول قرآن کے تابع نہیں بلکہ قرآن ماحول کے تابع ہے۔ کسی نے جھوٹی وحی کا سہارا لیا مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح۔

لیکن گزشتہ صدی کے اندر ایک نیا تصور ابھرا ہے، فہم قرآن کے نام سے کہ: قرآن سمجھنے کے لیے نہ حدیث کی ضرورت ہے، نہ سنت کی ضرورت ہے، نہ اجماع کی ضرورت ہے، نہ عقل کی ضرورت ہے، نہ نیچر کی ضرورت ہے۔ قرآن سمجھنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے: ایک نظم کلام اور ایک ادب جاہلی۔ زمانہ جاہلیت کے ادبیوں کا جو کلام، جو ادب، جو شاعری ہے اُس کو سامنے رکھ کر ہم قرآن کو سمجھیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ اپنی سوچ کے مطابق ہم قرآن کا جائزہ لیں گے کہ قرآن کی یہ آیت کس ماحول میں اتری تھی، کن حالات میں اتری تھی، اس کا شان نزول کیا ہے؟ اگر وہ ماحول ہمارے ہاں پایا جاتا ہے تو قرآن کے اس حکم پر عمل ہوگا، اگر وہ ماحول نہیں پایا جاتا تو قرآن کے حکم پر عمل نہیں ہو گا۔ یہ طرز فکر سب سے پہلے مولانا حمید الدین فراہی نے دیا تھا جو شبلی نعمانی مرحوم کے شاگرد اور سید سلیمان ندوی کے ساتھی تھے۔

جس کے فکر کو ماننے والا صرف ایک شخص ہے، وہ امام العصر !!؟

آج کچھ لوگ انھیں (حمید الدین فراہی کو ”امام العصر“ کا خطاب دیتے ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ شاید ان لوگوں میں تعصب ہے یا وہ “امام” کا معنی نہیں جانتے۔ ایک آدمی جس کے فکر کو ماننے والا اُس کے شاگردوں میں سے صرف ایک ہے۔ اُس کے اساتذہ نے اس کے فکر کو مسترد کر دیا، اس کے ساتھیوں نے اس کے فکر کو مسترد کر دیا، اُس کے شاگردوں نے اس کے فکر کو مسترد کر دیا اور وہ امام العصر ہے۔  سبحان الہ

میں دو لفظوں میں ایک چیز سمجھانا چاہتا ہوں: نبوت اور امامت میں فرق یہی ہے۔ نبی کے لیے کسی ماننے والے کی حاجت نہیں ہوتی ، اُسے کوئی ماننے والا ہو تو بھی نبی ہے، ماننے والا نہ ہو تو بھی نبی ہے۔ لیکن امام کے لیے مقتدی اور مقلد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مقلد اور مقتدی کے بغیر وہ امام نہیں۔ اب ایک آدمی (حمید الدین فراہی) کی اقتداء اور تقلید کرنے والا صرف ایک شخص امین احسن اصلاحی ہے۔ اور وہ (فراہی) امام العصر” ہے !! اور اس کے بارے میں تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ حمید الدین فراہی کے فکر کو جو نہیں مانتا وہ عقل کا اندھا ہے، بہروپیا ہے، وہ خسارے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا معنی یہ ہے کہ اکابرین علمائے دیوبند میں سے اُس دور کے، حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ سے لے کر شیخ التفسیر امام احمد علی لاہوری رحمہ اللہ تک بلکہ اس کے بعد بھی کسی نے بھی اُس کے فکر کو نہیں مانا تو ان کے نزدیک العیاذ باللہ وہ سارے عقل کے اندھے ہیں۔ وہ سارے بہر وپیے ہیں، وہ سب خسارے میں ہیں۔ 

جاری

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…